انوکھا لاڈلا

عام طور پر دیکھنے میں آیا ہے کہ ماں باپ کو اپنی اکلوتی اولاد اور سب سے چھوٹی اولاد خاصی عزیز ہوتی ہے بلاشبہ عزیز رکھنے میں کوئی حرج تو نہیں مگر یہ ضرور ہے کہ اس عزیز پن میں یہ اولادیں کچھ اس طرح سے پالی جاتی ہیں کہ پھر یہ معاشرے کے لئے درد سر بن جاتی ہیں اور کچھ تو اتنے اور ایسے لاڈلے ہو تے ہیں کہ ان کی چال ڈھال ہی فٹ سے بتا دیتی ہے کہ لاڈلا پن عروج پر ہے۔ جب اکثر ایسے لوگ ماں باپ کے پروں سے باہر نکلتے ہیں تو کچھ اسطرح کا ویہ اپناتے ہیں کہ جیسے سارے معاشرے کے لئے ہی ہ لوگ لاڈلے اور اکلوتے ہوگئے ہیں۔ انکا لاڈلا پن دوسروں کی ناک میں دم کرنے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑتا اکثر ہی تعلیمی درسگاہوں یا آفسز وغیرہ میں اس طرح کے لاڈلے کھیلنے کو چاند مانگتے دکھائی دیتے ہیں۔

اسی چاند جیسے بیٹے ہی کی مانگ اور اہمیت کسی تعارف کی محتاج نہیں بلکہ بیٹا خواہ کیسا ہی کیوں نہ ہو اس جنس سے متعلق ہونے کی وجہ سے اسکے کردار تعلیم پیشے تک کو بھی پس پشت ڈالنے تک کا رجحان اور سر پر بٹھانے کا شوق آج بھی بہت سنجیدگی کے ساتھ کثیر تعداد کے لوگوں میں پایا جاتا ہے۔ آج بھی بیٹی کی پیدائش شملہ نیچے کرنے کی علا مت سمجھی جاتی ہے۔ چاہے اب آہستہ آہستہ کچھ حد تک لوگوں کے روئے میں بیٹی کو اچھا مستقبل دینے کی روایت جنم لے بھی رہی ہے پرپھر بھی ابھی بھی ایک ان چاہے ہونے کا احساس انکے لئے مضبوطی سے موجود ہے ہی۔ اسکی وجہ یہی ہے کہ اپنے ہی معاشرتی قواعد و ضوابط ہم نے ایسے بنا رکھے ہیں جیسے کہ ان کے ساتھ رہنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہو۔

ممکن ہو تو اکثر ایک بیٹی بھی خدا سے نہ لینا چاہے گر اگر ایک بیٹی ہو تو اس میں فائدہ یہ سمجھا جاتا ہے کہ ایک ہی بیٹی کو جہیز دینا ہوگا ایک ہی بیٹی کے لئے بر ڈھونڈنا ہو گا ایک ہی بیٹی کو بیاہنا ہوگا ایک ہی کا گھر بسانا ہو گا اور زندگی میں چین ہی چین ہوگا جبکہ حقیقت حال یہ ہے کہ پھر اس ایک بییٹی کو ایسے لاڈوں سے پال دیا جاتا ہے کہ وہ ناک پر مکھی بھی نہیں بیٹھنے دیتی اور اس میں مسئلہ یہ پیش آتا ہے کہ ہمارے ہاں معاشرے کا جو چلتر ہے اس میں قربانی اور صبر کی امید ایک عورت سے ہی کی جاسکتی ہے جن کو یہ بات سکھائِی نہیں جاتی وہ سیکھنا بھی نہ چاہیں پھر جان اپنے ساتھ ساتھ اور بھی لوگوں کی مشکل میں ڈالے دیتی ہیں۔

بہرحا ل چاہے بیٹا ہو یا بیٹی ان کو اس طرح سے پروان چڑھانا کہ کل جب معاشرے میں وہ قدم نکالیں تو ایک باشعور اور ڈیسنٹ فرد کی حیثیت سے نکلیں تاکہ وہ گھر ہو یا کام کسی بھی میدان میں باعث آزار نہ بنیں۔
@ ہر وقت کی اور ہر قدم کی روک ٹوک اولاد کو ڈر پوک یا باغی بنا دیتی ہے۔
@ اولاد کے لئے چھوٹی سے چھوٹی چیز کا انتخاب خود کرنا بچوں کی اپنی دماغی سوچ کو نکھرنے نہیں دیتا۔
@ اولاد کو ہر کام کرنے کے لئے بتانا کہ کیسے کرو کیسے نہیں کرو کس سے ملو کس سے نہ ملو کس سے بولو کس سے نہ بولو دماغی سوچ کو زنگ لگا کر نارمل انسان نہ بننے میں مدد دیتا ہے۔
@ بچوں کی تھوڑی سے تھوڑی خواہشات پر بھی ترسانا باغی کر دیتا ہے یا فٹ سے ہر خواہش پوری کردینا اوور ڈیمانڈنگ بنا دیتا ہے
@ بچے پر کوئی ذمہ داری عائد نہ کرنا خواہ کتنی ہی چھوٹی کیوں نہ ہو، اسکے لئے بوجھ سمجھنا بچے کی پرسنالٹی میں اعتماد بھی کم کر دیتا ہے
@ ہر ایک سے بچے کو کچھ نہ کہنے اور لاڈ کرنے کا حکم بچوں کو اوور سینسٹیو کر دیتا ہے
@ اولاد کو چوٹ لگنے کے ڈر سے کھیلنے نہ دینا معاشرے کے ڈر سے مناسب حد تک باہر نہ جانے دینا بھی اعتماد نہیں آںے دیتا ۔
@ اکلوتی اولاد کو دوسروں پر ہمیشہ فوقیت دینا بھی
Superiority complex
میں ڈال دیتا ہے ۔
اور یہ بھی
Inferiority complex
کی ہی ایک بگڑی ہوئی شکل ہے۔
@ بچوں کو کسی شرارت پر نہ ڈانٹنا ڈھیٹ بنا دیتا ہے۔
ماں باپ کی ذمہ داری صرف اولاد کو اچھی سہولیات اور اچھی اخلاقیات سکھانے کی ہوتی ہے پھر فطرت کی طرف سے انسان کو جس طرح کی طبیعت ملی ہوتی ہے انسان ویسا ہی بن جاتا ہے۔ ماں باپ ذریعہ ہیں اس زمین پر اولاد کو پرون چڑھانے کے لئے۔
sana
About the Author: sana Read More Articles by sana: 231 Articles with 272969 views An enthusiastic writer to guide others about basic knowledge and skills for improving communication. mental leverage, techniques for living life livel.. View More