کوکنگ ایکسپرٹ سے انٹرویو

ہم ایک ایسے معاشرے میں جی رہے ہیں جس میں کوئی بھی رجحان جڑ پکڑتا ہے تو سب کے دل و دماغ کو بجلی کی سی رفتار سے جکڑ لیتا ہے۔ اور جب پانی سَر سے گزرتا ہے تب اہلِ وطن کو خیال آتا ہے کہ یہ کیا حماقت سرزد ہو رہی تھی۔ ایک زمانے تک ہم گھر کا پکا ہوا کھاتے رہے۔ پھر خیال آیا کہ قیمتی وقت کھانے پر کیوں ضائع کیا جائے۔ اِس خیال کے آتے ہی ہم نے ہوٹلوں، ٹھیلوں اور ٹِھیوں پر فروخت ہونے والی ہر انٹ شنٹ چیز کھانے کو معمول بنالیا۔ نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ سب کچھ الٹ پلٹ گیا ہے۔ کسی زمانے میں ہوٹل والے یہ کہتے ہوئے گاہکوں کو اپنی طرف متوجہ کرتے تھے کہ بالکل گھر والا مزا ملے گا۔ اب بعض مصالحوں کے پیکٹ پر لکھا ہوتا ہے …… اب آپ کی خدمت میں بالکل وہی ریسٹورنٹ والا ذائقہ!

جب خواتین خانہ نے دیکھا کہ لوگ چٹور پن کے عادی ہوگئے ہیں تو محنت کرنے پر لعنت بھیجی اور چند بازاری مصالحوں کی مدد سے صرف چٹخارے کو اہمیت دینا شروع کیا۔ اِس کا نتیجہ وہی برآمد ہوا جو ہونا چاہیے تھا۔ لوگ کھانے میں اب صرف مزا یعنی ذائقہ تلاش کرتے ہیں۔ غذائیت کے خیال کو ذہن کے کسی دور افتادہ کونے میں دفن کردیا گیا ہے۔

گھر میں پکانے سے گریز نے خواتین کو مجبور کردیا ہے کہ ٹی وی پر ’’آپاؤں‘‘ سے سیکھیں کہ کم وقت میں بہتر کھانا کیسے پکایا جاسکتا ہے یا کچھ پکائے بغیر بھی کوئی چیز کیسے پکائی جاسکتی ہے! ٹی وی پر جلوہ افروز ہونے والی کوکنگ ایکسپرٹس نے جو کچھ سکھایا ہے اُس سے اِتنا تو ہوا ہے کہ دستر خوان پر کوئی بے ذائقہ چیز دھری ہو تو خواتین خانہ سارا الزام کوکنگ ایکسپرٹ کے سَر پر تھوپ دیتی ہیں! کھاتے وقت شوہر منہ بنائے تو بیوی یہ کہتے ہوئے جان چُھڑالیتی ہے کہ ’’آپا کے بتائے ہوئے نُسخے کے مطابق پکایا ہے۔ اگر کچھ بولنا ہے تو آپا کو بولو، مجھے نہیں۔‘‘ اب شوہر دل کے پھپھولے پھوڑنے کے لیے آپا کو کہاں ڈھونڈتا پھرے۔ لاچار ہوکر اپنی قسمت کو کوسنے پر اکتفا کیا جاتا ہے!

گزشتہ دنوں ایک کوکنگ ایکسپرٹ سے ملاقات ہوئی تو اُن سے چند ٹریڈ سیکرٹ جاننے کی کوشش کی۔ محترمہ نے اپنی مصالحے دار اور لچھے دار باتوں سے ہمارا دماغ ایسا پکایا کہ ہم نے کچھ نہ جاننے میں عافیت جانی۔ آئیے، اُن سے ہونے والی لذیذ گفتگو سے ہم آپ کو بھی مستفید کریں۔

٭ یہ بتائیے کہ پکانے کی ابتداء کب اور کیسے کی؟
کوکنگ ایکسپرٹ : یہ قیامت بہت پہلے برپا ہوگئی تھی۔ میرے گھر والے میرے اولین فین (یعنی تختۂ مشق) تھے۔ لڑکی ہوں تو بولنا میری سرشت میں تھا۔ طبیعت بھی کچھ تیز پائی تھی۔ ذرا سی دیر میں اپنی باتوں سے لوگوں کا دماغ میں ایسا پکا دیا کرتی تھی کہ چند سیانیوں یعنی خاندان کی بڑی بوڑھیوں نے پیش گوئی کردی کہ کہ لڑکی بڑی ہوکر بہت پکائے گی۔ میری والدہ یہ سمجھیں کہ وہ (گھر کے افراد کی تعداد کے اعتبار سے) کسی بڑے گھرانے میں شادی کی پیش گوئی کر رہی ہیں۔ مگر جب میں نے ہوش سنبھالتے ہی باورچی خانے کی خبر لینے کی ابتداء کی تو والدہ کی سمجھ میں بڑی بوڑھیوں کی بات آئی۔

٭ کچن میں اولین تجربے کیسے رہے؟
کوکنگ ایکسپرٹ : میں نے میٹرک سائنس گروپ سے کیا تھا۔ انٹر بھی سائنس ہی سے کیا تو بی ایس سی کی طرف جانا فطری امر تھا۔ ذہن کچھ ایسا بن گیا کہ اب تو تجربے ہی کرنے ہیں۔ کالج کی لیب میں تو مجھے کچھ خاص ہنر دکھانے کا موقع ملتا نہیں تھا اِس لیے کچن ہی کو میں نے (از خود نوٹس کے تحت) لیب کا درجہ دے دیا۔ کیمسٹری کی کتابوں میں جتنے بھی تجربات پڑھے تھے اُنہیں جب کچن میں اپلائی کیا تو عجیب و غریب ڈِشیں معرض وجود میں آتی گئیں۔ یوں میری شہرت کا آغاز ہوا۔ خاندانی حلقوں میں یہ بات پھیل گئی کہ یہ لڑکی سائنسی کتابوں کی مدد سے کھانا پکاتی ہے۔ لوگوں نے مجھے حیرت، حسد، رشک اور شک کی مِلی جُلی نظروں سے دیکھنا شروع کیا۔ کیوں نہ دیکھتے؟ میں کچن میں بھی لیب کوٹ پہن کر داخل ہوا کرتی تھی!

٭ آپ کی تیار کی ہوئی ڈِشیں خاندان والوں کو پسند بھی آتی تھیں یا معاملہ صرف حیرت و حسد تک رہتا تھا؟
کوکنگ ایکسپرٹ : پسند کیسے نہ آتیں؟ میری شخصیت ہی کچھ ایسی تھی کہ بہت سے لوگ مرعوب ہوکر کھالیا کرتے تھے۔ میں سائنس دان کے گیٹ اپ میں کھانا پیش کیا کرتی تھی۔ کوئی کچھ پوچھ بیٹھتا تو سائنسی اصطلاحات کی مار مارتی تھی۔ خاندان کے بہت سے جاہلوں کو میں نے بھاری بھرکم سائنسی اصطلاحات ہی کی مدد سے خاموش کیا۔

٭ آپ صرف لَذّت پر توجہ دیتی ہیں یا ورائٹی کو بھی ترجیحات میں شامل رکھتی ہیں؟
کوکنگ ایکسپرٹ : دونوں ہی میری ترجیحات میں سر فہرست رہتی ہیں۔ سیدھی سی بات ہے، لوگ آخر لَذّت اور ورائٹی ہی پر تو مرتے ہیں۔

٭ آپ یہ کہنا چاہتی ہیں کہ لوگ آپ کے کھانے پر مرتے ہیں؟
کوکنگ ایکسپرٹ : جی ہاں۔ مگر ایسے سوالات نہ کریں۔ میں کہتی ہوں کہ لوگ میرے ’’کھانے پہ‘‘ مرتے ہیں۔ کہیں پڑھنے والوں کو یہ مغالطہ نہ ہوجائے کہ لوگ میرے ’’کھانے سے‘‘ مرتے ہیں!

٭ اپنے کن آئٹمز پر آپ کو فخر ہے؟
کوکنگ ایکسپرٹ : ویسے تو میں نے بہت سے ایسی چیزیں بنائی ہیں کہ بس یوں سمجھ لیجیے قلم (یا کفگیر) توڑ کر رکھ دیا ہے۔ کوفتے میری مشہور ترین ورائٹی ہیں۔

٭ کیا خاص بات پائی جاتی ہے آپ کے پکائے ہوئے کوفتوں میں؟
کوکنگ ایکسپرٹ : جب میں نے لوگوں کے دماغ پکانا ترک کرکے کچن میں باضابطہ پکانے کی مشق شروع کی تھی تب پہلی پہلی بار ایسے کوفتے بنائے کہ دستر خوان پر لوگ منہ پکڑ کر بیٹھ گئے۔ چنے زیادہ ڈل جانے سے کوفتے ایسے سخت ہوگئے کہ لوگوں کو رومال میں رکھ کر زمین پر پچھاڑنے پڑے۔ تب کہیں جاکر وہ ٹوٹے اور کھانے کے قابل ہو پائے۔ اگلے دن میرے گھر پر بھیڑ لگی تھی۔ کسی نے کوفتوں کی خاصیت سیاسی کارکنوں کو بتادی تھی۔ وہ لوگ پتھراؤ کے لیے مجھ سے کوفتے لینے پہنچ گئے! اُس دن سے میری شہرت اور آمدنی میں اضافے کا سلسلہ شروع ہوا۔ لوگ مجھے ’’باجی کوفتے والی‘‘ کہنے لگے۔

٭ کوئی اور اسپیشل آئٹم؟
کوکنگ ایکسپرٹ : کچن لیب کے ابتدائی دنوں میں ایک بار میں نے دال میں بھگار لگانے کی کوشش کی تو کچھ اور ہی معاملہ ہوگیا۔

٭ کیوں؟ کیا آپ شیخی بگھارنے بیٹھ گئیں؟
کوکنگ ایکسپرٹ : نہیں بھئی۔ شیخی بگھارنے کا سلسلہ تو بہت بعد میں، ٹی وی اسکرین پر شروع ہوا۔میں نے کچھ ایسے مصالحے کڑھائی میں ڈال دیئے جن کی کیمیائی خصوصیات ایک دوسرے سے خار کھاتی تھیں۔ بس پھر کیا تھا، کچن میں انتہائی تیز بُو والا دھواں بھرگیا۔ گھر والے سمجھے شاید میں نے کوئی بم بنانے کی کوشش کی ہے! سب منہ پر کپڑا رکھ کر اِدھر اُدھر بھاگنے لگے۔ ذرا سی دیر میں گھر بھر میں دھواں بھرگیا۔ گھر والوں نے مجھے بہت بُرا بھلا کہا۔ مگر کچھ ہی دیر میں قدرت نے میری لاج رکھ لی۔ بگھار کے دھویں نے کونوں کھدروں میں چھپے ہوئے لال بیگ اور دوسرے کیڑے مکوڑوں کو ادھ موا کرکے نکال باہر کیا۔ مکھیاں اور مچھر بھی چکراکر گرنے لگے۔ میرے بگھار نے وہ کام کر دکھایا جو فیومیگیشن والے چار پانچ ہزار روپے میں کرتے ہیں! اِس کے بعد تو مجھے فیومیگیشن کے لیے بھی بلاوے آنے لگے! کئی اہل نظر نے میرے بگھار کو ’’فیومیگیٹیو کوکنگ‘‘ کا نام دے دیا! بس کچھ اِسی طرح کے ’’کارناموں‘‘ سے میری شہرت کو چار چاند لگے، ٹی وی والوں نے سُنا تو بُلا بھیجا۔ اور آج آپ جیسے مہربان میرا ’’ایکسپرٹ اوپینین‘‘ اہل وطن تک پہنچا رہے ہیں۔

٭ قوم کے نام کوئی پیغام؟
کوکنگ ایکسپرٹ : میں کیا اور میرا پیغام کیا؟ بس یہ ہے کہ انسان کو محنت کرتے رہنا چاہیے۔ جو چیز دنیا بھر میں نہ چلے وہ پاکستان میں چل جاتی ہے۔ میں کیا پکاتی ہوں اور کیا نہیں پکاتی، یہ میں ہی جانتی ہوں۔ من آنم کہ من دانم۔ مگر جسے اﷲ رکھے اُس کا پکایا کون نہ چکّھے! ہمارے ہاں سیلیبریٹیز سوچتی تو ہوں گی کہ آخر اُن میں ایسا کیا ہے کہ لوگ مَر مِٹے ہیں۔ میں بھی شروع شروع میں سوچا کرتی تھی۔ اب سوچتی ہوں جب اﷲ عزت دے رہا ہے تو تردّد میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے! ہاں، انسان کو کچھ خاص کئے بغیر بھی بہت کچھ مل جائے تو غرور نہیں کرنا چاہیے!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 480712 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More