’’آزادی‘‘کیوں؟

انسان کسمپرسی میں ہو یا عیش وآسائش میں ،وہ فطرتاً آزادی پسند واقع ہوا ہے اور اپنی آزادی و شناخت کے ساتھ زندہ رہنا پسند کرتا ہے ،اسے کبھی بھی غلام نہیں رکھا جا سکتا اگر وہ ناں چاہے تو۔۔۔اور جب کوئی غلام قوم اپنی تاریخ کا مطالعہ کرنے پر یہ جان لے کہ وہ ایک عظیم و شاندار تاریخ کی حامل ہے اور اگر اسے یہ حق آزادی دوبارہ مل جائے تو وہ دنیا میں اپنا بہترین کردار ادا کر سکتی ہے تو پھر اسے کوئی دنیا کی طاقت غلام نہیں رکھ سکتی چاہیے دنیا بھر کی دولت اس کے قدموں میں رکھ دی جائے ۔

صدیوں پر محیط غلامی کی طویل تاریک رات کے اندھیروں میں آزادی کی روشنیاں بکھیرنے کی خاطر گزشتہ چھ عشروں سے جاری جدوجہد نے یہ باور کروا دیا کہ غلامی کے اثرات تو ہیں لیکن قومی غیرت ابھی باقی ہے جو اس تحریک کو ختم نہیں ہونے دے گی ،چہ جائیکہ اس قوم کو دنیا کی مشکل ترین غلامی کا سامنا ہے ،یہاں تک کہ اقوام عالم کے سب سے بڑے ادارے کی ثالثی و ضمانت پر پڑوسی ممالک نے اس قوم و عالمی برادری سے وعدہ کیا کے وہ ریاست کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق دیں گے لیکن بعد ازاں وعدے سے منحرف ہوگئے اور آہستہ اہستہ ہمارے مطالبہ آزادی کو ہی جھٹلایا جانے لگا اور اس دیس کو اپنا حصہ قرار دیا جانے لگا اور اس سے بڑا تاریخی مذاق کیا ہو گا کہ ایک ایسا دیس جو ریجن میں پانچ ہزار سالہ تاریخ کا حامل ہو اسے چند برس پہلے وجود میں آنیوالے اپنا حصہ قرار دے رہے ہیں ۔

تاریخ نویسی میں یونانی و رومی اقوام کو سب پر سبقت حاصل رہی ہے اس کے مقابلے میں اگرقدیم ہندوستان دیگر علوم میں کمال کو پہنچا مگر تاریخ نویسی کا فن یہاں ناپید رہا ہے ،ہندوستان کے اہم سکالر’’ڈاکٹر رادھا کرشنن‘‘ نے کشمیر کی تاریخ نویسی کے بارے میں کہا تھا کہ بھارت کو اپنی تاریخ کا کھوج لگانے کے لئے رامائن و مہا بھارت کا سہارا لینا پڑھتا ہے جب کہ ’’کشمیر‘‘ ایک ایسا دیس ہے جسے اپنی ہزاروں سال پر ،محیط ریکارڈ شدہ تاریخ پر فخر کرنا چاہے ۔جب کہ ایک اور بھارتی مورخ’’جگ موہن‘‘نے کشمیری تاریخدانوں کوخراج عقیدت پیش کرتے ہوئے انہیں سات گروہوں میں تقسیم کیا ہے ،سنسکرت،کشمیری وقائع نگاری،سلطنت دہلی کی تواریخ،مغل مورخین ،متفرق،وسط ایشا کی تواریخ،صوفیائے کرام و یورپی سیاحوں کی تحریریں جو’’ کشور کشمیر‘‘ کی عظمت رفتہ بیان کرتی ہیں ،اور یہی نہیں بلکہ کئی شبعہ جات میں بھارت کو کشمیری تاریخ سے مدد لینا پڑھتی ہے یو ں مورخین کی بات سچ ثابت ہوئی کہ کشمیر نے ہندوستان کو تاریخ لکھنا سکھائی ہے۔

ایک عظیم کشمیری مورخ’’پنڈت پریم ناتھ بزاز ‘‘ اپنی ایک تصنیف ’’شیڈو آف رام راج اور انڈیا‘‘میں یوں رقم طراز ہیں !

برطانوی سامراج کی آمد سے قبل پندرہ صدیوں کے دوران ہندوستان چھوٹی بڑی کئی بادشاہتوں میں تقسیم تھا ۔جنمیں سے چند مستثنیات کو چھوڑ کر بقیہ سب بے لگا م قسم کے مطلق العنان حکمران تھے جن کی زبان سے نکلا ہر لفظ قانون کی حیثیت رکھتا تھا،شخصی آزادی کا تصور تک نہ تھا،عوام الناس کے لئے کوئی شہری حقوق نہ آج کل کے زمانے کی طرح انصاف کا کوئی تصور تھا ۔برطانوی حکومت نے نہ صرف یہ کہ تاریخ میں پہلی بار برصغیر ہندوستان کو متحد کر کے ایک مرکزی حکومت کے دائرے میں لایا بلکہ یہاں دیوانی و فوجداری قوانین نافذ کئے جو کہ سب لوگوں پر یکساں لاگو ہوتے تھے،انہوں نے ملک میں نظم وضبط قائم کیا روشن خیالی کو فروغ دیا سائنس و ٹیکنالوجی کو متعارف کرایا صنعتیں قائم کیں اور مغرب کی طرح خود مختار اداروں کا قیام عمل میں لا کر ایک جمہوری ریاست کی بنیاد رکھی ،قارئین کرام یہ سب اس ہندوستان میں ہوا جس میں ریاست جموں کشمیر شامل نہیں تھا ۔اس لئے کہ یہ دیس اس وقت ایک آزاد و خود مختار ملک تھا اور تاریخ سے ثابت ہے کہ ریاست جموں کشمیر’’ 9مارچ 1846سے 16مارچ 1846‘‘تک صرف سات ایام برطانیہ کے کنٹرول میں رہا ہے ۔اس کے بعد ’’معائدہ امرتسر‘‘ کے نتیجہ میں ریاست پر جموں کے ایک مقامی راجہ کی حکومت قائم ہوئی جو ہندوستان میں برطانوی راج کے خاتمے تک رہی ،اور اس طرح یہ دیس اپنی پانچ ہزار سالہ تاریخ میں کبھی کسی پڑوسی ملک کا آئینی حصہ نہیں رہا۔

زمانہ قدیم میں ریاست جموں کشمیر کو عہد بہ عہد مختلف ناموں سے پکارہ جاتا رہا ہے ۔

یونانی کشمیر کو ’’کیسپیریا (Kaspeiria) پکارتے تھے۔۔۔ھیروڈوٹس اور تائروس نے اپنے کلاسیکل لٹریچر میں اسے کیسپا تائروس(Kaspatyros) کا نام دیا ۔۔۔578ء میں چینی سیاحوں توینگ(To yeng)اور(Sung Yen)نے اسے (Shie Mi)کا نام دیا ہے۔631ء میں ھیون تسانگ(Hieun Tsang)نے اسے کیا شی می لو (Kia Shi Mi lo)کا نام دیا کشمیری اور گلگتی اسے کشیر(Kasheer)کہتے ہیں ۔تبتی زبان میں یہ کھچل(Khachal)کہلاتا ہے اور درد لوگ اسے کشروٹ (Kashrot)کہتے ہیں۔ اواخر میں اسے کاشو میربھی کہا جاتا رہا۔’’پولیٹیکل اینڈ کلچرل ہسٹری آف کشمیر جلد اول صفحہ 4۔

مختلف ادوار میں بدلتے حالات کے ساتھ ساتھ تمام ممالک کی سرحدیں بڑھتی اور گھٹتی رہی ہیں بلکل اسی طرح ریاست جموں کشمیر کی سرحدیں بھی بڑھتی سکڑتی رہی ہیں ۔دوسری اور تیسری صدی قبل مسیح میں راجہ دیانند اور راجہ سندیمان کے دور حکومت میں کشمیر کی سرحدیں شمال میں کاشغر و ختن و مغرب میں قابل و قندھار تک پھیلی ہوئی تھیں اور کشمیر کی معروف تاریخ کا آغاز 450قبل مسیح میں ہوا جب راجہ گونندہ نے متھرا تک اپنی مملکت کو وسعت دی اور پھر اس کے بیٹے دامودر کے دور میں قندھارا کشمیر میں شامل تھا ۔جب کہ 511عیسوی میں کشمیر کے چین کے شاہی دربار کے ساتھ مضبوط تعلقات کے شوائد ملتے ہیں ۔چینی سیاح ھیون تسانگ 629ء میں ٹیکسلہ سے ہوتا ہوا 631ء میں کشمیر پہنچا ،وہ یہاں دو سال گزارکے 633ء میں واپس گیا اور اس نے اپنے اس سفر نامے میں لکھا کہ ٹیکسلہ اس دور میں کشمیرراج میں شامل تھا ۔اس نے اپنے سفر نامہ میں مملکت کشمیر کا محیط 700فرسنگ2100)میل )بتایا ہے جبکہ موجودہ دور میں یہ لمبائی 1700میل بنتی ہے جسمیں 750چین سے600میل پاکستان سے300میل بھارت سے 50میل افغانستان سے ملتی ہے ۔مہاراجہ للتادت695ء تا732ء تک حکمراں رہا اس دور میں مملکت کشمیر مشرق میں قنوج ، جنوب میں گندھارا،مغرب میں پشاوراور شمال میں بخاراتک تھی،اور محمود غزنوی کے مورخ البیرونی کے مطابق کشمیری عوام ہر سال للتا دت کی فتوحات کی یاد میں جشن بنایا کرتے تھے ۔760ء میں چین کے شہنشاہ نے کشمیر کے بادشاہ چندر پیڈ کے لئے 500تھان ریشمی کپڑا بطور تحفہ بھیجا اور 773ء میں کشمیر نے باقائدہ اپنا سفیر چین میں بھیجا ۔

سلطان شہاب الدین 1360ء تا1378ء تک مملکت کشمیر کا حکمران رہا بر صغیر پر اس وقت فیروز شاہ کی حکومت تھی سلطان کی فتوحات کے دوران اس کا مقابلہ ستلج کنارے فیروز شاہ کی افواج سے ہوا ،فیروز شاہ شکست کھا گیا ،اور معائدہ کے مطابق ’’از کشمیر تا سر ہند مملکت سلطاب شہا ب الدین مسلم شد‘‘پھر اس کے بعد تاریخ کے نامور سلطان ’’زین العابدین ‘‘بڈشاہ کا دور شروع ہوا جو کشمیر کی تاریخ کا درخشاں ادوار میں سے ایک تھا ،ہر سو خوشحالی اور امن ہی امن تھا ،ارد گرد کے پڑوسی ممالک کی مدد کی جاتی تھی ،اس دور حکومت میں کشمیر کی سرحدیں مشرق مٖغرب شمال جنوب دور دور تک پھیلی ہوئی تھیں جب کہ بر صغیر چھوٹی چھوٹی ریاستوں اور راجواڑوں میں منقسم تھا ۔اور ایک ایسا دیس جس کی سرحدیں کہاں سے کہاں تک پھیلی رہی ہیں جس نے کتنے عروج دیکھے اور جو اپنے آزاد ی کے سنہرے ادوار میں علاقے کا سب سے زیادہ خوشحال ملک رہا ہوں جو ریجن میں پانچ ہزار سالہ ’’سب سے قدیم‘‘ بے مثال تاریخ کا حامل رہا ہو اور دنیاکی تاریخ جس دیس کی عظمت رفتہ کی گواہی دے رہی ہو ۔۔۔اسے یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے اس چھینے ہوئے غصب کئے ہوئے حق آزادی کے حصول کیلئے کسی بھی حد تک جانا پڑھے تو دریغ نہ کرے اور ریاست کے ہر فرد کو چاہیے کہ وہ اپنی تاریخ کا مطالعہ کرے تاکہ وہ جان سکے کہ ان آزاد ادوار اور آج کے زلت امیز دور کی زندگی میں کیا اور کتنا فرق ہے اوروہ قوتیں جوایسے قدیم اور تاریخ کے حامل دیس کو اپنا حصہ کہیں جن کی اپنی عمر ساٹھ ستر برس سے زائد ناں ہو تو یہ اس صدی کا بھیانک مذاق قرار پائے گا بلا شعبہ ریاست جموں کشمیر کے ہر فرد کو اپنے دیس کی تاریخ پر فخر ہونا چاہیے اور یہ بھی کہ ہم کسی سے کوئی بھیک نہیں مانگتے آزادی ہمارا حق ہے جسے ہم لے کر رہیں گے۔انشا ء اﷲ
Niaz Kashmiri
About the Author: Niaz Kashmiri Read More Articles by Niaz Kashmiri: 98 Articles with 74259 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.