روضۂ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی منتقلی کی خبر بے بنیاد نہیں

 مسجدِنبوی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی توسیع کے نام پر گنبدِ خضریٰ کو منہدم اور روضۂ رسول صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی نا معلوم مقام پر منتقلی کی ایک سعودی نجدی مفتی کی تجویز کی خبر جب سے میڈیا میں آئی؛ مسلمانانِ عالم شدیدبے چینی اور اضطراب میں ہیں۔ اس ناپاک منصوبے اور سازش کو حجازِ مقدس کے مشہورسُنّی عالمِ دین و محققِ اہلِ سُنّت علامہ علوی مالکی علیہ الرحمہ کے شاگرد حضرت ڈاکٹر محمد عرفان علوی صاحب نے طشت از با م کیا۔انہیں کے توسط سے یہ خبر برطانوی اخبارات اور العربیہ ڈاٹ نیٹ پر شائع کی گئی۔ہندستان میں الحاج محمد سعید نوری صاحب نے بذاتِ خود اور دیگر ذرائع سے بھی اس خبر کی تصدیق کے لیے سعودی قونصل سے رابطہ کیا تو انہوں نے اس خبر تصدیق کی نہ ہی تردید۔ اس سے نجدیوں کے مذموم عزائم کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

خبر کے پھیلتے ہی عالمِ اسلام کی طرف سے شدید ردِ عمل کا اظہار کیا جانے لگا اور سعودی نجدی حکومت کی یہود نواز پالیسی سے عوامِ مسلمین آگاہ ہونے لگے اور سعودی نجدی حکومت کی مذمت ہونے لگی تو دو تین دن گزر جانے کے بعد سعودی حکومت کا وضاحتی بیان اُن ’’ریال خوردہ‘‘اردواخبارات میں شہ سرخی میں شائع ہواجنہوں نے تین دنوں تک اِس منصوبے سے متعلق کوئی بھی چھوٹی موٹی خبر یا مراسلہ تک لگانے کی زحمت نہیں اُٹھائی!…… اور وضاحتی بیان بھی کیا خوب تھا …… شہ سرخی تو یہ تھی کہ ’’ روضۂ رسول کی منتقلی کی خبر بے بنیاد ہے‘‘…… مگر وضاحت میں اس بات کا اقرار بھی کیا گیا کہ مسجد نبوی کی توسیع کے لیے گنبدِ خضریٰ کو مسمار کرنے اور روضۂ انور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو نا معلوم مقام پر منتقل کرنے کی ’’تجویز‘‘ سعودی حکومت کے ایک ’’ اسلامی اسکالر‘‘ نے دی تھی۔……اﷲ اکبر! گنبدِ خضریٰ کو شہیدِ کرنے اور روضۂ رسول کو نامعلوم مقام پر منتقل کرنے کی تجویز پیش کرنے والا بد بخت ان کے نزدیک ’’اسلامی اسکالر‘‘ ہے!

سعودی حکومت کا وضاحتی بیان آجانے کے بعد سعودی ریال پر پلنے والی جماعتوں کے منھ میں زبان آگئی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سعودی حکومت کی طرف سے وضاحتی بیان نہیں بلکہ نذرانہ آگیا ہے۔ اور سعودیوں کی طرف سے صفائی دینے والوں کی باڑھ لگ گئی۔ سعودیوں کی ظاہری خدمات اور حاجیوں کے فراہم کرنے والی آسانیوں کی دُوہائی دی جانے لگی۔ مگر یہ ناپاک اور کفریہ تجویز پیش کرنے والے نجدی مفتی کی جرأت اور گستاخی کو مجرمانہ انداز میں نظرانداز کیا گیا۔ہمیں حیرت تو اُن دیوبندی وہابی مقلدین پر ہوئی جو پورے بر صغیر میں غیر مقلدین وہابیوں کے خلاف تحریری و تقریر طور پر بر سرِ پیکار رہتے ہیں؛ آخر وہ لوگ کس مصلحت یا امید پر اس سعودی وہابی غیر مقلد مفتی کی خاموش حمایت کررہے ہیں؟کیا گنبدِ خضریٰ کو شہید کرنے اور روضۂ رسول کو نا معلوم مقام پر منتقل کرنے کی تجویز پیش کرنے والا شخص اور اس کی حمایت کرنے والے سعودی علما بشمول امامِ حرم گستاخیِ رسول کے مجرم نہیں؟ ……یقیناًمجرم ہیں……اور یقیناً قطعاً اجماعاً بارگاہِ رسالت مآب صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا جریح و گستاخ کافر و مرتد اور واجب القتل ہے۔اس لیے تمام اہلِ سُنّت ان گستاخوں کے قتل کا مطالبہ کر رہے ہیں جو حق بجانب ہے۔

گزشتہ ماہ فلسطین پر یہودی درندوں کے مظالم کے خلاف دوسعودی علما نے فلسطین کی حمایت میں دو جملے کہہ دیے تھے تو انہیں دوسرے ہی دن یہودی نواز سعودی حکمرانوں نے ملازمت سے برخاست کردیا تھا۔ مگر جب اسی حکومت کے ایک وہابی مفتی نے بارگاہِ رسول میں اتنی بڑی گستاخی کردی پھر بھی وہ شخص ان کی نظروں میں ’’اسلامک اسکالر‘‘ ہے اور اپنے عہدے پرفائز بھی ہے اور اس کی گردن پر اس کا سر بھی قائم ہے! …… جب کہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اگر سعودی حکومت اس ناپاک منصوبے میں شامل نہیں اور اسے متصور نہیں کرسکتی تو اسلامی قانون کی روٗ سے اس گستاخ وہابی مولوی کے سر کو قلم کردیا جاتا تاکہ مستقبل میں کوئی شخص اس قسم کی جرأت نہ کرسکے……مگر بے خودی یوں ہی نہیں، کچھ تو پردہ داری ضرور ہے کہ حجازِ مقدس پر ناجائزسعودی قبضہ کے بعد سے اب تک کئی مرتبہ پندرہ بیس سال کے وقفے سے ایسے منصوبے پیش کیے گئے۔ کچھ پر عمل بھی ہوا۔اس کا منہ بولتا ثبوت جنت البقیع اور جنت المعلیٰ کے اصحاب و اہلِ بیت رضی اﷲ عنہم کے مزارات ہیں جنہیں سعودی قبضہ کی پہلے ہی دہائی میں شہید کردیا گیا۔ اس کے بعد گنبدِ خضریٰ پر گولیاں برسائی گئیں،وہ رسولِ کریم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم جنہوں نے والدین کی عظمت و احترام کا درس دیا انہیں کی والدۂ ماجدہ رضی اﷲ عنہاکو (معاذاﷲ ) مشرکہ کہہ کر ان کے مزار کو شہید کردیا گیا اور اطراف میں کانچ کے ٹکڑے اور کانٹے بچھا دیے گئے تاکہ کوئی حاضرنہ ہوسکے۔ روضۂ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو وہابی کتابوں میں ’’صنم کدۂ اکبر‘‘ آج بھی لکھا جارہا ہے، گنبدِ خضریٰ کو شرک کا سب سے بڑا مرکز کہا اور لکھا جارہا ہے۔بارگاہِ مصطفی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا ادب و احترام اﷲ پاک نے بتایا؛اسی بارگاہ میں باادب کھڑے رہنے والوں کو مشرک بتایا جارہا ہے۔ اور یہ سب سعودی حکام اور وہابی علما کی مرضی سے ہوا اور ہو رہا ہے۔جس کی مذمت ہر غیرت مندمسلمان کرتا ہے اور حضور مفتیِ اعظمِ ہند علیہ الرحمہ کے اس شعر پر آمین بھی کہتا ہے کہ ع
ترے حبیب کا پیارا چمن کیا برباد
الٰہی نکلے یہ نجدی بلا مدینے سے
Waseem Ahmad Razvi
About the Author: Waseem Ahmad Razvi Read More Articles by Waseem Ahmad Razvi: 84 Articles with 121334 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.