دھرنوں کی سیاست معیشت کواربوں کا مالی نقصان

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد دھرنوں اور مارچ کی سیاست کی زد میں ہے حکومت اوراپوزیشن ایک آواز ہیں اوردیگر سیاسی جماعتوں بھی اب دھرنا کرنے والوں سے ہم آواز نہیں ہیں۔ ایک ماہ سے اسلام آباد میں یہ دھرنے جاری ہیں۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات میں مصروف ہیں۔ ان کی کوشش اور خواہش یہی ہے کہ دھرنے کا اختتام پرامن اور نتیجہ خیز رہے۔ دارالحکومت اسلام آباد کے مرکز میں دھرنا دینے والے احتجاجی لیڈر عمران خان روز نت نئے اعلانات کرتے ہیں۔وہ اپنی دھواں دار تقاریر میں ارباب اقتدار وسیاست کی بدعنوانیوں اور گذشتہ سال منعقدہ عام انتخابات میں مبینہ دھاندلیوں کے انکشافات کرتے رہتے ہیں۔ ایک ماہر جادو گر اور شبعدہ باز کی طرح وہ اپنے سامعین ،ناظرین، اور دھرنا کے شرکا کو ہر روز ایک نئے اعلان ، انکشاف اور خوشخبری کی امید دلاتے ہوئے، اگلے دن کسی نئے انکشاف کرنے کا اعلان کرتے ہیں۔ پارلیمینٹ ہاؤس کے سامنے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے اس دھرنے کو جز وقتی (پارٹ ٹائم) دھرنا بھی کہا جاتا ہے، جہاں شام کو لوگ راگ رنگ اور موج میلے کے لئے اکھٹے ہوجاتے ہیں۔ اس آزادی تحریک اور مارچ کو ایک ماہ کی مدت گزر چکی ہے۔ عمران خان اسے اقتدار کی جنگ نہیں ہے بلکہ حاکم اور محکوم کی جنگ کہتے ہیں۔ اورجبرو استبداد کے خلاف سخت جنگ لڑنے کا اعلان کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ عوام کو لوٹنے والے لوگ اب ان کے پْرامن دھرنے کے خلاف صف آرا ہوچکے ہیں۔ وہ اپنے اس مطالبے پر بھی ڈٹے ہوئے ہیں کہ وزیراعظم نواز شریف انتخابات میں دھاندلیوں پرمستعفی ہوجائیں۔ وہ وفاقی وزرا کے اس دعوے کو بھی تنقید کو نشانہ بناتے ہیں ۔ جس میں انھوں نے کہا تھا کہ عمران خان اور ان کے احتجاجی اتحادی ڈاکٹر طاہر القادری کے دھرنے کے نتیجے میں قومی معیشت کو ایک کھرب روپے کا نقصان پہنچ چکا ہے۔عمران خان سول نافرمانی کے لئے اور بجلی کے بل ادا نہ کرنے کا بھی کہتے ہیں ۔ حالانکہ انھوں نے خود اسلام آباد کے علاقے بنی گالا میں واقع اپنے گھر کا بجلی کا بل ادا کردیا ہے۔البتہ لاہور کے گھر کا بل ادا نہیں کیا ہے۔عمران خان اور ان کے انقلابی لیڈر ڈاکٹر طاہر القادری ایک جانب تو ڈی چوک اور شاہراہ دستور پر دھرنا دینے والے اپنے حامیوں سے تندوتیز تقاریر کررہے ہیں اور دوسری جانب ان کے مذاکرات کاروں کی وفاقی وزرا کے ساتھ بات چیت بھی جاری ہے۔فریقین کے درمیان اب تک مذاکرات کے چودہ ادوار ہوچکے ہیں لیکن ان میں کوئی نمایاں پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ وزیرخزانہ اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان پانچ نکات پر اتفاق رائے ہوچکا ہے۔صرف وزیراعظم نوازشریف کے استعفے پر اختلاف ہے اور حکومت اس پر کوئی بات نہیں کرے گی جبکہ پی ٹی آئی وزیراعظم کے استعفے پر ہی اصرار کررہی ہے۔اس دھرنے کا سب سے بڑا نقصان ملکی معیشت کو پہنچا ہے۔ جس ے مہنگائی، بے روز گاری، اور بے یقینی میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ دھرنے کے باعث اسٹیل مل جیسے ادارے کے معاملات ٹھپ ہوکر رہ گئے ہیں۔ اور کہا جارہا ہے کہ اس ادارے کو اب تک مجموعی طور پر دو سو باون ارب روپے کا نقصان ہوچکا ہے، جس میں نواز دور کے پینتیس ارب روپے کا نقصان بھی شامل ہے۔ دوسری جانب سیاسی افق پر چھائے کالے بادل اسٹاک مارکیٹ اورقومی معیشت پر اثر انداز ہورہے ہیں۔ تاجر ، کاروباری برادری تذبذب کا شکار ہے، جس سے کاروبار پر بھی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ اسٹاک مارکیٹ جھٹکے کھا رہی ہے۔ اس ہفتے مندی غالب رہی ہے۔ مارکیٹ کو فائینل راونڈ تک ایک اور جھٹکے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ملک میں جاری سیاسی افراتفری کے سبب معیشت کو خدشات لاحق ہیں جس کا اظہار تاجر اور صنعت کار برادری کرچکی ہے، اسٹاک مارکیٹ کے سرمایہ کار بھی دھرنے اور احتجاج کی سیاست کے موڈ کودیکھ کر فکر مند دکھائی دے رہے ہیں، سرمایہ کاروں کے اعتماد میں کمی کے سبب مارکیٹ ایک بارپھر زبردست مندی کا شکار ہوئی اور مندی کے سبب مارکیٹ میں سرمایہ کاروں کے اربوں روپے ڈوب گئے جبکہ کاروباری حجم بھی کم ترین سطح پر دیکھا گیا۔ اسلام آباد کا ڈی چوک جسے دھرنے کا مرکزی مقام قرار دیا جارہا ہے، میڑو بس کے سلسلے میں اس کی کھدائی مزید گہری ہوتی جارہی ہے، ان یہ پروجیکٹ بھی ایک ماہ تاخیر کا شکار ہوگیا ہے۔ اسلام آباد میں آرٹیکل 245 نافذ کرکے پاک فوج کو خصوصی اختیارات سونپ دیئے گئے ہیں۔ لیکن فوج اور دیگر ادارے کوئی کاروائی کرتے نظر نہیں آتے۔ اسٹاک مارکیٹ معیشت کا بیرومیٹر کہی جاتی ہیں، ان کی اونچ نیچ سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ سرمایہ دار کیا سوچ رہا ہے۔ مارکیٹ کی سرگرمیاں مندی کا شکار ہیں۔ تاجر وں کا کہنا ہے کہ ملک میں بڑھتی بدامنی‘ افراتفری‘ محاذ آرائی اور بے یقینی کی فضا نے کاروبار بری طرح متا ثر کیا ہے۔ کاروباری سرگرمیاں ساٹھ فیصد کے قریب متاثر ہوئی ہیں اور توانائی بحران اور دیگر عوامی سے مشکلات کے شکار تیس چالیس فیصد تاجر اپنی تجارتی حیثیت برقرار نہیں رکھ سکے ہیں اور معیشت بڑی تیزی سے سکڑ اور بیروزگاری بڑھ رہی ہے۔ ان ذرائع کا کہنا ہے کہ دھرنوں کی سیاست معیشت کیلئے نہایت نقصان دہ ہے۔ سیاسی انتشار اور محاذ آرائی کی بجائے حکومت اور اپوزیشن افہام و تفہیم سے مسائل حل کریں۔ عوام اور تاجروں کا تحفظ اور معاشی سرگرمیوں کا فروغ مضبوط حکومتی عزم اور اپوزیشن کے مثبت رویے سے ہی ممکن ہے۔پاکستان آج کل ایک ایسے دوراہے پر کھڑا ہے جہاں ایک طرف عالمی اقتصادی بحران نے ہماری معاشی بنیادوں کو ہلانا شروع کر دیا ہے اور دنیا کے ترقی یافتہ ممالک نے اپنے آپ کو کسی اور بحران سے بچانے کے لئے پاکستان سمیت تمام ترقی پذیر ممالک کو دئیے جانے والے قرضوں، مراعات اور ان سے درآمد کئے جانے والے مال کی ڈیمانڈ میں کمی بڑھا دی ہے، جبکہ دوسری طرف سیاسی عدم استحکام، سوات ، فاٹا کے حالات اور سب سے بڑھ کر ’’دھرنا‘‘ کی سیاست نے معاشی سرگرمیوں میں رہی سہی جان بھی نکال کر رکھ دی ہے۔ کہا جارہا ہے کہ سال رواں کے آئندہ مہینوں میں صورتحال مزید پریشان کن ہو سکتی ہے۔ پاکستان کے ساڑھے سولہ سے سترہ کروڑ عوام کی اکثریت جس میں اٹھارہ سال سے چالیس سال کی عمر کے نوجوانوں کی تعداد 45 فیصد سے 50 فیصد کے درمیان ہے ۔ ان نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ تاجر اور عوام ملکی معیشت کا پہیہ چلتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں لیکن بجلی، گیس کا ٹیرف اور لوڈ شیڈنگ کی رکاوٹ اور اس پر بڑھتا ہوا سیاسی عدم استحکامعوام کو پریشان کیئے ہوئے ہے۔ معیشت کے عدم استحکام کی وجہ سے غربت کی شرح 28 فیصد سے بڑھ کر 40 فیصد کے قریب پہنچ چکی ہے یعنی ساڑھے چھ کروڑ سے زائد افراد غریبوں کی صف میں شمار ہو چکے ہیں۔ پولیس نے سیکڑوں کنٹینر پکڑ کر اسلام آباد میں کھڑے کر دیئے۔کنٹینرز دنیا بھر میں تجارت کے لئے استعمال کیئے جاتے ہیں۔ لیکن ہم نے ان کا عجب استعمال کیا ہے۔ تاجروں کو ان کنٹینرز پر بھاری رقوم ادا کرنی پڑتی ہے۔ سینکڑوں کنٹینرز راستے میں رکے ہوئے ہیں۔ٹرانسپورٹرز کے مطابق 600کے قریب کنٹینرز پورٹ پر پڑے ہوئے ہیں جن میں نیٹو افواج کے لیے کھانے پینے کی اشیا اور دیگر ضروری سامان ہے۔اس کے علاوہ براستہ پاکستان افغانستان کو جانے والی اشیا کی ترسیل بھی غیر یقینی صورتحال کے باعث شدید متاثر ہوئی ہے۔ اسلام آباد کی بہت سی تاجر تنظیموں اور تاجربرادری نے تحریک انصاف کے آزادی مارچ اور عوامی تحریک کے انقلاب مارچ کا کسی قیمت پربھی حصہ نہ بننے اور مکمل طور پر الگ رہنے سمیت کاروباری مراکز کھلے رکھنے کا فیصلہ کیاہے اورحکومت سے آزادی اورانقلاب مارچ کے دوران تجارتی مراکز کی سکیورٹی سمیت تاجر برادری کو تحفظ فراہم کرنے کی حکمت عملی اپنانے کا مطالبہ کیاہے تاکہ تاجربرادری معمول کے مطابق اپنی تجارتی سرگرمیاں جاری رکھ سکے۔ عمران خان کو تاجروں کی حمایت میں نمایاں کمی ہوئی ہے۔ اسلام آباد کے مکین طاہر القادری کے احتجاجی دھرنے کے دوران بھی شدید متاثر ہوئے تھے۔ بیشتر دکانیں، دفاتر، بازار، اسکول اور تعلیمی ادارے ایک ماہ سے بند پڑے ہیں۔ وفاقی دارالحکومت کے باسیوں اور باالخصوص ڈی چوک سے متصل رہائشی علاقوں اور ہوسٹلوں کے مکین تذبذ ب کا شکار ہیں۔ ملک کی معیشت کو کروڑوں روپے کا یومیہ نقصان پہنچ رہا ہے۔ ایک دوسرے کی حکومتوں کو گرانے کی سیاست کا ملک کسی طرح بھی متحمل نہیں ہوسکتا۔مارچ اور دھرنوں کے بارے میں پاکستان کے عوام کی اکثریت کوئی اچھی رائے نہیں رکھتی۔ پاکستان کے بڑے بڑے بزنس مین اور ٹائیکون حضرات بھی پہلے سیاسی قیادت کے کردار اور پالیسیوں پر ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر جھگڑے کرتے تھے۔ اب وہ کھل کر ان معاملات کے بارے میں اظہار خیال کر رہے ہیں۔ ہماری سیاسی قیادت کو چاہئے کہ الزامات کی سیاست سے نکل کر ملکی سیاسی امور مثبت انداز میں چلانے کی فکر کریں، کیونکہ اس وقت پاکستان کی سلامتی کو لاحق خطرات میں کمی نہیں اضافہ ہو رہا ہے۔ ان خطرات کا مقابلہ کرنے کیلئے بد اعتمادی کے ماحول سے نکل کر صرف ملک و قوم کی فکر کرنے کی ضرورت ہے-
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 386269 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More