جوشِ خطابت ۔ ۔ ۔

اللہ تعالٰی عمران خان کو عمرِ خضر عطا فرمائے۔ وہ قوم کی اخلاقی تربیت کرتے ہوئے اس کو سچ بولنے کی تلقین کر رہے ہیں جس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ ان کی یہ ترغیب ہی ہے جو ہم کو ان کے بارے میں بھی کچھ کہنے کا حوصلہ دیتی ہے. اور جسے ہم سچ سمجھتے ہیں اس کو منظرِ عام پر لانا اپنا فرض سمجھتے ہیں کہ شاید اس قوم کے لئے کچھ سود مند ہو۔ گو کہ ہم جانتے ہیں کہ اس بے حس‘ ریاست اور اپنے مستقبل سے لاتعلق قوم کو کچھ کہنا سننا بھینس کے آگے بین بجانے سے کچھ کم نہیں۔ لیکن کیا کریں اپنی فطرت کا کہ یہ کہے بغیر رہنے نہیں دیتی۔

پچھلے دنوں جوشِ خطابت میں خاں صاحب نے انکشاف کیا کہ شوکت خانم ہسپتال کے لئے وہ سب سے بڑے ڈونر تھے۔ لیکن اب اور دوسرے ان سے آگے نکل گئے ہیں۔ انہیں لوگوں میں سے ایک جنہوں نے بہت بڑی رقم ہسپتال کو دی تھی ان کے پاس آئے اور ان سے اپنی والدہ کے لئے داخلہ کی سفارش کے لئے کہا۔ خاں صاحب نے مجمع کو بتایا کہ انہوں نے جب سے ہسپتال بنایا ہے کسی کے لئے آج تک سفارش نہیں کی۔ ان صاحب کا مسئلہ ہسپتال کا ایک قانون بنا ہوا تھا جس کے تحت ایک خاص عمر سے بڑھ جانے کے بعد ہسپتال ان مریضوں کو علاج کے لئے داخلہ نہیں دیتا اور ان کی والدہ کی عمر اس حد سے پانچ سال زیادہ ہو چکی تھی سو ان کو بھی انکار کر دیا گیا ۔ ۔ ۔ پھر خاں صاحب نے فرمایا کہ کیونکہ انہوں نے بہت بڑی رقم ہسپتال کو دی تھی اس لئے میں نے ان کی والدہ کے لئے ہسپتال کو سفارش کی۔ لیکن ان کی درخواست کو بھی مسترد کر دیا گیا۔ اور اس بات کو انہوں نے فخریہ بتایا کہ ہسپتال نے انہیں بھی انکار کردیا۔

حکمرانوں کے پہچان ان کے دعوؤں اور نعروں سے نہیں ان کے طرزِ عمل سی کی جاتی ہے۔ اس واقعہ میں ایک سبق پوشیدہ ہے۔ شوکت خانم ہسپتال میں بقول خاں صاحب ستر فیصد غریب مریضوں کا علاج کیا جاتا ہے۔ خاں صاحب نے آج تک کوئی سفارش نہیں کی تھی تو بہت اچھا کیا تھا کیونکہ قانون عمل کرنے کے لئے ہوتے ہیں توڑنے کے لئے ہیں۔ اور اگر محسوس ہو کہ وہ عدل و انصاف کے تقاضے پورے نہیں کر رہے تو پھر بھی انہیں توڑا نہیں جاتا ان کو تبدیل کیا جاتا ہے۔ یہ تھی پہلی قابلِ اعتراض بات کہ خاں صاحب جو قانون کی بالا دستی کی بات کرتے ہیں یہ کام ان کو نہیں کرنا چاہئے تھا۔ دوسری قابلِ اعتراض بات پہلی سے کہیں بڑھ کر ہے اور یہ کہ اگر انہوں نے کسی مریض کی سفارش کی بھی تو ایک ایلیٹ کلاس کے مریض کی۔ کسی غریب لاوارث کی نہیں۔ اور اس سفارش کی وجہ بنی اس شخض کا ہسپتال کو ایک خطیر رقم امداد میں دینا۔

ہمارے جیسے کچے ذہن کا شخص یہ سوچنے میں حق بجانب ہوگا کہ کل کلاں کو عمران خان کو حکومت مل گئی اور وہ وزیراغطم منتخب ہو گئے تو دنیا کی دولت پہ قابض ملٹی نیشل ادارے اور دوسری طاقتیں پیسے کے بل بوتے پہ معلوم نہیں کون کون سے قانون توڑنے پہ آپ کو مجبور کر دیں اور اپنے مفاد کے حصول کے لئے آپ سے کس کس قسم کی سفارشات کروا لیں۔

عمران خان قوم کو اللہ کی کتاب سے اس کے فرمان اور احادیثِ مبارکہ سنا کر پوری کوشش کر رہے ہیں کہ وہ سیدھے رستے پر آجائے۔ تو اس واقعہ کے حوالے سے خاں صاحب کو ہم بھی ایک حدیث کا مفہوم پیش کردیں ۔ ۔ ۔ جب مسلمانوں کو پانی کی شدید قلت تھی تو اللہ کے بنی ﷺ نے خطبہ دیا کہ ہے کوئی جو مسلمانوں کے لئے اللہ کی رضا کی خاطر کنواں خرید دے لیکن اس شرط پہ کہ اس کے ڈول کو کسی عام مسلمان کے ڈول پر پانی لینے کے لئے فوقیت نہ ہو۔ تو عثمان رضی اللہ تعالی عنہہ نے یہودی سے کنواں خرید دیا اور ان کے ڈول کو کسی کے ڈول پر فوقیت نہ تھی جبکہ اس سے مسلمان اور غیر مسلم سب بن مول پانی لیا کرتے تھے۔

خاں صاحب یاد رکھیں زبان سے نکلے الفاظ کمان سے نکلا تیر ہوتے ہیں۔ غلط وقت پر اور غلط جگہ نکل جائیں تو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ اپنے خطاب میں جوش کے بجائے ہوش کو ترجیح دیا کریں۔ اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو!

Dr. Riaz Ahmed
About the Author: Dr. Riaz Ahmed Read More Articles by Dr. Riaz Ahmed: 53 Articles with 40481 views https://www.facebook.com/pages/BazmeRiaz/661579963854895
انسان کی تحریر اس کی پہچان ہوتی ہےاس لِنک کو وزٹ کرکے بھی آپ مجھ کو جان سکتے ہیں۔ویسےکراچی
.. View More