کچھ جمہوریت کے بارے میں

جمہوریت انگریزی لفظ Democracy کا اردو ترجمہ ہے۔ اس لفظ کے دو جزو ہیں : Demo بمعنی "Lower Classes" (نچلے طبقات، یعنی عوام) اور Cracy بمعنی "Rule of" (حکمرانی)۔ پورے لفظ کا مطلب ہؤا: نچلے طبقات یعنی عوام کی حکمرانی۔ اسکی وضاحت جمہوریت قائم کرنے والوں کے ایک مشہور مقولے سے ہوتی ہے، جو یہ ہے۔ Govt by of the people, by the people, for the people۔ اسکا آسان مفہوم یہ ہؤا: “عوام کے فائدے کے لیئے عوام کی حکومت“۔ اس مفہوم کو سامنے رکھتے ہوئے کیا ہم کہ سکتے ہیں کہ پاکستان میں جمہوریت ہے؟ ہرگز نہیں۔ عوام کی حکمرانی صرف ووٹ دینے کی حد تک ہے اور اس میں بھی وہ آزاد نہیں، طرح طرح کے دباؤ اور تعصبات کا شکار ہیں۔ ووٹ دینے کے بعد اُنکی حکمرانی ختم ہو جاتی ہے اور جنکو ووٹ دیا گیا وہ ‘نورا کشتی‘ ختم کرکے آپس کے گٹھ جوڑ سے مطلق العنان حکمراں بن جاتے ہیں اور عوام کو اپنی رعایا بنالیتے ہیں۔ پھر یہ گٹھ جوڑ عوام کو لوٹنے کے لئے قانون سازی کرتا ہے اور ہر طریقے سے Status-Quo (حالات کو جوں کا توں) قائم رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ اسمیں انگریزوں کے زمانے کے سودی نظام کو قائم رکھنا بھی شامل ہے، جو ہمارے تمام مصائب کی جڑ ہے۔

ویسے تو ریاستِ پاکستان کا ہر محکمہ عوام کی دولت کی لوٹ مار میں لگا ہؤا ہے لیکن حد تو یہ ہے کہ جنکو عوام ووٹ دیکر اپنا نمائندہ بناتے ہیں وہ بھی عوام کو ہر ممکن قانونی اور غیر قانونی طریقے سے لوٹتے ہیں، جنمیں سے چند یہ ہیں:
١- آمدنی کے علاوہ اخراجات پر بھی اونچی شرح سے ٹیکس لگاکے۔
٢- خکومت کے کنٹرول کی اشیاء انتہائی مہنگی کرکے۔
٣- حکومت کے تمام اداروں میں کرپشن کو کنٹرول نہ کرکے۔
٤- اپنی کرنسی سودی نظام کو سود پر چلانے کے لئے عطا کر کے۔
٥- اپنی کرنسی سودی نظام سے بطور سودی قرض لےکر اور اس قرض کو معہ سود عوام سے ادا کرواکے۔
٦- بجٹ اور قرض کا بڑا حصہ اپنی عیاشیوں پر خرچ کرکے اور اسکا بوجھ ‘منی بجٹوں‘ کی شکل میں عوام پر ڈال کے۔
٧- اللہ تعالٰی نے پاکستان کو جو قدرتی اور دوسرے وسائلِ آمدنی عطا کئے ہیں اُن سے فائدہ نہ اُٹھا کے۔
٨- ترقیاتی کاموں کے لئے مختص رقوم خرد بُرد کرکے۔
٩- وزیروں کے کمیشن کے حصول کے لئے پاکستان کو نقصان پہنچانے والے، بیرونی سودے کرکے۔
١٠- سفارتخانوں سے کام نہ لیتے ہوئے بیرونی دوروں میں مالی وسائل برباد کرکے، جسکا بوجھ بالاٰخر عوام پر پڑتا ہے۔

غرضیکہ “ہمہ تن داغ داغ شُد پنبہ کُجا کُجا نہم“، (پورا جسم زخموں سے بھرا ہؤا ہے، کہاں کہاں مرہم پٹّی کی جائے)۔ جسکے جتنے زیادہ اختیار ہیں، وُہ اتنا بڑا لُٹیرا ہے۔ اور سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ وہ لوٹ کا مال پاکستان میں لگانے کے بجائے، جس سے روزگار کے مواقع پیدا ہوتے، پاکستان سے باہر بھیج دیتے ہیں اور بھر کشکول لیکر انہی باہر والوں سے قرض کی بھیک مانگنے پہنچ جاتے ہیں، جس سے IMF کی حکمرانی قائم ہوتی ہے اور پاکستان کی سلامتی خطرے میں پڑتی ہے۔ اگر پاکستان میں غداری کا کوئی قانون ہوتا اور اس قانون پر عمل کروانے والی قوت ہوتی تو ان لوگوں کو ووٹ دینے کے بجائے پھانسی دی جاتی۔

اس ناچیز کا مشورہ یہ ہے کہ محبِّ وطن قائدین موجودہ قوانین کے تحت الیکشن کرانے کے خلاف تحریک چلائیں اور مطالبہ کریں کہ الیکشن قوانین تبدیل کرکے، افراد کے بجائے پارٹیوں کو ووٹ دیئے جائیں، حاصل شُدہ ووٹوں کے تناسُب سے اُنہیں اسمبلی میں سیٹیں دی جائیں اور سیاسی پارٹیوں کو اپنے ممبرانِ اسمبلی کا تقرر اور انہیں معزول کرنے کا اختیار دیا جائے۔

ظفر عمر خاں فانی
About the Author: ظفر عمر خاں فانی Read More Articles by ظفر عمر خاں فانی: 38 Articles with 38919 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.