اردو‘ رسم الخط کے مباحث اور دنیا کی زبانیں

لسانی کی عصبت کی کئی سطعیں ہوتی ہیں۔ مثلا

١- کسی غیر ملکی زبان کے مقابلہ میں‘ ملک کی مجموعی زبان کو ترجیع دینا‘ انسانی فطرت کا
خاصہ ہے۔
٢- اندرون ملک اپنی علاقائی زبان میں اظہار خیال‘ ہر کسی کو پسند کرتا ہے۔
٣- بیرون ملک‘ شخص کتنا بھی پڑھا لکھا ہو‘ اپنی زبان بولنے والے سے‘ اپنی زبان میں بات کرکے
خوشی محسوس کرتا ہے۔ وہاں مذہب‘ نظریہ‘ علاقہ وغیرہ ثانوی حیثیت اختیار کر لیتے ہیں۔
٤- ایک ملک یا خطہءارض کے لوگ بدیس میں وہاں کی زبان جانتے ہوئے بھی علاقے کی مجموعی
زبان میں گفتگو کرکے سکون محسوس کرتے ہیں۔
٥- اندرون ملک اپنے علاقہ سے ہٹ کر‘ کسی دوسرے علاقے میں‘ اپنے علاقہ کے شخص سے مل
کر‘ اپنے علاقے کی زبان بولنا پسند کریں گے۔
٦- اپنے ہی علاقہ میں‘ احساس کہتری کے باعث حاکم زبان بول کر‘ احساس برتری کا مظاہرہ کریں
گے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ملکی یا علاقائی زبان میں حاکم زبان کے موقع بےموقع الفاظ کا باکثرت
استعمال کرتے ہیں۔ ان کے اس فعل کو‘ نفرت کی نگاہ سے دیکھا جائے گا۔ انہیں پٹھو کہتے‘
جھجھک محسوس نہیں کی جائے گی۔
٧- مہاجر کو علاقائی یا ملکی زبان بولنا پڑتی ہے‘ جوں ہی ایک علاقہ کے دو مہاجر‘ آپس میں ملتے
ہیں‘ اپنے پچھلے علاقہ کی زبان میں گفت گو کرکے خوشی محسوس کرتے ہیں۔
٨- بیرون ملک‘ وہاں کے باشندے سے رابطے اور معاملات کے لیے‘ حاکم زبان‘ جو دونوں کے لیے قابل ترجیع نہیں ہوتی‘ لیکن باامر مجبوری‘ بین الااقومی حاکم یا مستعمل زبان میں بات چیت کرنا پڑتی ہے۔

غرض اس طرح کے بے شمار امور‘ اشخاص اور زبانوں کی زندگی کا خاصہ اور لازمہ رہتے ہیں۔ اس عصبت کی بنیادی وجہ یہ ہوتی ہے‘ کہ شخص کو اپنی زبان میں اظہار خیال میں‘ آسانی محسوس ہوتی ہے۔ اسی طرح‘ ملک کے کسی دوسرے علاقے میں‘ ملکی زبان جو بڑی حد تک مانوس ہوتی ہے‘ میں گفت گو کرنے میں دشواری محسوس نہیں ہوتی۔ غیر ملکی زبان میں‘ اعلی سطح کی مہارت رکھتے ہوئے بھی‘ گفت میں لذت اور آسانی اپنی علاقائی یا ملکی زبان میں‘ محسوس ہوتی ہے‘ اور اسے شخص کی فطرت ثانیہ کا درجہ دینا کسی طرح غلط نہ ہو گا۔

ان میں سے‘ کوئی بھی صورت رہی ہو‘ زبانوں کے لیے‘ غیر صحت مند نہیں ہوتی‘ بلکہ زبانوں کے ابلاغ کو‘ وسعت میسر آتی ہے۔ ان کے ذخیرہءالفاظ میں‘ ہر چند اضافہ ہی ہوتا ہے۔ نئے لہجے‘ نئے تلفظ‘ نئے‘ نئے‘ اسلوب وغیرہ جنم لیتے ہیں۔ لفظوں کو نئے معنی میسر آتے ہیں۔ نئے استعمال دریافت ہوتے ہیں۔ نئے محاورے ترکیب پاتے ہیں۔ اپنی بات کو مثالوں سے واضح کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔

بوبو‘ غیر مقامی خواتین کے لیے بولنے میں آتا رہا ہے‘ حالاں کہ بنیادی طور پر یہ اپنی اصل میں بوبئی تھا۔
خصم‘ غریب‘ عزیز اپنے اصل معنی ہی کھو بیٹھے ہیں۔
حور احوال اوقات واحد استعمال ہوتے ہیں۔
جاپانی میں‘ جان نے سان کی صورت اختیار کرلی۔ کامی بیوی کے لیے مستعمل ہو گیا۔ کاواساکی اور سوزوکی‘ سواری کی چیز کے لیے مستعمل ہو گیے۔
ودوا کے لیے وڈڈو‘ دن کے لیے ڈان رواج پا گیے۔
خوش نے خس یا کھس ‘ طعنہ نے تانو‘ حوصلہ نے ہونسلو کا روپ لے لیا۔
ضرور سے جرور‘ حضور سے حجور یا حاجور‘ خرابی سے کھرابی بن گیے۔
سی ڈی سے سی ٹی مستعمل ہو گیا۔
سنٹ ایٹم سے سینٹی رواج پا گیا ہے
ووٹران‘ سپٹران‘ ایڈوائساں عام سننے کو ملتی ہیں۔
کتا‘ انسڑومنٹ کے لیے مستعمل ہو گیا ہے۔
پلاس پانا عمومی اورعوامی محاورہ ہے۔
انگریزی الفاظ سے اردو مصادر جڑ کر محاورے بن گیے ہیں۔
بدیسی اصطلاحات‘ مرکبات کی صورت میں رواج رکھتی ہیں۔

یہ معاملہ‘ کسی ایک زبان یا بولی تک محدود نہیں۔ ان معاملات میں وہ ہی زبان بڑھ کر ہو گی‘ جس کی ذاتی آوازیں زیادہ ہوں گی۔ اس ذیل میں‘ زبانوں کی لچک پذیری کو بھی‘ کسی سطح پر نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ اگر زبانوں کا تقابلی مطالعہ کیا جائے‘ تو یہ امر ہر شک سے بالا ہو کر سامنے آئے گا کہ لچک پذیری میں دنیا کی کوئی زبان اردو کے مقابل کھڑی نہیں ہو پاتی۔

اردو کی ذاتی آوازیں: الپ پران‘ مہاپران اور علامتی آوازوں پر مشتمل ہیں اور یہ ساٹھ سے زیادہ ہیں۔
اردو اور پنجابی کے سوا دنیا کی کسی زبان کے تین رسم الخط موجود نہیں ہیں۔
الفاظ گھڑنے اورہ بنانے میں دنیا کی کوئی زبان اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔
آواز یا شکل میں تبدیلی آ جائے تو الگ بات ہے آوازوں کی کمی کے باعث مترادف آوازوں کے استعمال کی ضروت پیش نہیں آتی۔
مرکب آوازیں اور سابقے لاحقے دنیا کی تمام زبانوں سے زیادہ ہیں۔
مفرد آواز کے لیے مرکب آوازیں بنانا نہیں پڑتیں اور یہ طور مستعمل بھی نہیں اور ناہی اس کی کبھی اور کہیں ضرورت محسوس ہوتی ہے۔

یہ امور باطور مثال عرض کیے گیے ہیں‘ ورنہ ان کو کئی دوسرے حوالوں سے دیکھا جا سکتا ہے۔ اب اس ذیل میں‘ ایک دوسرا حوالہ عرض کرتا ہوں۔ بہت سے ناخواندہ حضرات‘ اس زبان کو سمجھتے ہیں اور بڑے شوق سے‘ اس زبان کی فلمیں اور ڈرامے دیکھتے ہیں‘ خبریں سنتے ہیں‘ تقریریں سنتے ہیں۔ گلی میں چیزیں بیچنے والوں سے‘ خواتین اشیاء خرید کرتی ہیں۔ خاں صاحب اردو میں‘ اپنے لہجہ میں بات کر رہے ہوتے ہیں‘ جب کہ خواتین پنجابی میں‘ سودے بازی کر رہی ہوتی ہیں۔ اردو اور پنجابی‘ خاں صاحب کی زبانیں نہیں ہیں۔ اردو اور پٹھان کا لہجہ‘ خواتین کا نہیں ہوتا۔ اس حقیقت کے باوجود‘ رابطے میں بہت کم دشواری پیش آتی ہے۔ یہ ہی صورت‘ اردو زبان کے حوالہ سے‘ دوسری ولائتوں میں موجود ہے۔

اردو میں کہی گئی بات سمجھ میں آجاتی ہے لیکن بولنا نہیں آتا اور ناہی اردو یا دیوناگری میں لکھنا آتا ہے ایسی صورت میں وہ بات اور اس کا جواب رومن خط میں لکھ سکتے ہیں۔ گویا رابطہ منقطع نہیں ہو پاتا یا رابطے میں دشواری پیش نہیں آتی۔

اردو میں کہی گئی بات‘ سمجھ میں آجاتی ہے‘ لیکن بولنا نہیں آتا اور ناہی اردو‘ دیوناگری یا رومن میں لکھنا آتا ہے‘ ایسی صورت میں وہ بات اور اس کا جواب اپنی زبان کے خط میں لکھ سکتے ہیں‘ یا اس بات کا مفہوم‘ جواب‘ رائے وغیرہ کا اپنی زبان میں اظہار کر سکتے ہیں۔

سمجھ لیتے ہیں بول لیتے ہیں اردو میں لکھ بھی لیتے ہیں

سمجھ لیتے ہیں بول لیتے ہیں دیو ناگری میں لکھ بھی لیتے ہیں۔

دیوناگری اور اردو رسم الخط والوں کے لیے رومن خط موجود ہے۔

کسی زبان سے متعلق‘ کوئی بھی ایک سکل رکھنے والے کو‘ اس زبان سے علحیدہ نہیں کیا جا سکتا۔ وہ اس زبان سے متعلق شخص ہو گا۔ اسے اس زبان کی گنتی میں رکھنا ہی مبنی بر انصاف ہو گا۔

اب اس معاملے کو ایک اور زاویے سے دیکھتے ہیں۔
دنیا کی بہت ساری زبانوں کے الفاظ اس زبان میں‘ اس زبان کی ضرورت‘ مزاج‘ لسانی نظام‘ مفاہیم اور اشکالی تبدیلیوں کے ساتھ داخل ہو گیے ہیں۔ اردو میں ان کے استعمال کرنے کا ہرگز مطلب یہ نہ ہو گا کہ اردو خواں اس زبان کی گنتی میں آ جاتے ہیں۔ یہ چیز اردو مں کوئی نئی نہیں۔ حاکم زبان‘ انگریزی کا ذاتی سرمایہ گیارہ فیصد سے زیادہ نہیں۔
کاواساکی بولنے سے کوئی جاپانی یا جاپانی زبان کا خواندہ نہیں ہو جائے گا۔
ٹرابلات‘ ممکنٹی گڑبڑیشن انگریزی الفاظ نہیں ہیں‘ اردو کی حرف کاری کا ثمرہ ہیں۔
اسامی باطور واحد‘ اسامیاں باطور جمع‘ عربی نہیں ہیں‘ یہ اردو کی اپنی سحرکاری ہے۔
جلوس‘ اپنے عربی تلفظ کے ساتھ رواج میں ہے‘ لیکن اصل معنویت کھو بیٹھا ہے‘ اس لیےاسے عربی لفظ نہیں کہا جا سکتا۔
تابع دار عام رواج میں ہے‘ اور اسے غلط سمجھا جاتا ہے‘ حالاں کہ یہ دار کے حوالہ سے مغالطہ ہے۔ دار‘ داری سے ہے۔ ایک طرح سے یہ مترادف ہیں۔ اس مرکب میں‘ لفط تابع کا استمال کرنے والا عربی کا خواندہ نہیں۔
سی ٹی باطور تلفظ انگریزی نہیں۔ سیٹیاں باطور جمع اور تلفظ انگریزی نہیں ہیں۔
لفظ دفتر معنویت کھو بیٹھا ہے‘ اس لیے اسے ترکی یا فارسی قرار نہیں دیا جا سکتا اور ناہی اس کے استعمال کنندہ ترک یا فارس کا کہا جا سکتا ہے۔
پاؤلینی‘ پاوا لےنی مستعمل ہو گیا ہے‘ اور کوئی نہیں جانتا یہ چینی اسم اور شخص کا نام ہے۔
ہزاروں بدیسی الفاظ‘ مختلف حوالوں سے‘ اردو کے استعمال میں ہیں‘ انہیں استعمال کرنے والوں کو‘ متعلقہ دیس کی زبان کا خواندہ‘ قرار نہیں دیا جا سکتا۔
کسی بھی زبان کی‘ کوئی ایک سکل کا جانو ہی‘ اس زبان کا خواندہ کہلا سکتا۔
اردو کی کوئی مفرد آواز‘ الپ پران ہو کہ مہاپران یا علامتی آواز‘ دوہری آواز نہیں رکھتی۔ دوہری آواز‘ کسی بدیسی کے لیے‘ پریشان کن ہوتی ہے۔ مثلا ایس اور سی کی دوہری آوازیں‘ پریشانی کا سبب بنتی ہیں۔
put' but
میں یو کی دو آوازیں ہیں۔
city سیٹی
cat کیٹ۔
سی کاف اور سین کی آواز دے رہا ہے
sercice سروس
malysia ملیشیا
ایس‘ زیڈ کی آواز بھی دیتا ہے
ایس سین‘ اور ذ یا ز آواز بھی دے رہا ہے۔

دوہری آواز‘ اہل زبان کے لیے کوئی مسلہ ہو‘ یا نہ ہو‘ دیگر ولائتوں کے لوگوں کے لیے مسلہ ضرور ہے
یہ ہی صورت حال مرکب آوازوں کی ہے‘ مثلا تلفظ
sichuaishan ہے
ہیں۔ situation لکھتے
کسی بدیسی کا اسے سی ٹیوٹی اون تلفظ کرنا کس طرح غلط ہو گا۔ مستعمل اور غیر مستعمل سے تو اہل زبان ہی آگاہ ہوتا ہے۔

جملہ معروضات کا مقصد یہ ہے کہ اردو اپنے لسانی نظام کے حوالہ سےخوب ترین ہے۔ استعمال کنندگان کی تعداد کے حوالہ سے‘ چینی زبان کے قریب ترین ہے۔ موجودہ دور کی‘ بہترین زبان کو بولتے وقت‘ احساس برتری ناسہی احساس کہتری محسوس کرتا بھی اچھا نہیں لگتا۔ اتنی بڑی‘ اور بہترین زبان کو‘ دنیا میں بہترین مقام‘ اس لیے نہیں مل سکا‘ کہ اسے دونمبر قیادت دستیاب ہوتی رہی ہے۔ اگر اسے‘ ایک نمبر قیادت میسر آ گئی ہوتی‘ تو اس کی ابلاغی حیثیت‘ مزید بہر ہوتی۔ اس میں جتنا بھی کام ہوا ہے‘ اردو سے محبت کرنے والوں کی‘ شخصی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔

کاش! کوئی اس معاملے کو سنجدگی سے لے۔ اہل اقتدار تو کسی درخواست کا جواب تک نہیں دیتے‘ اور یہ عدلیہ کا معاملہ ہی نہیں۔ اہل دانش خطوں کے مباحث میں الجھے ہوئے ہیں۔ انگریز نے تو انسانی تقسیم کے لیے‘ اس زبان کو دو خطوں میں تقسیم کیا تھا۔ رومن ذاتی غرض کے لیے رائج کیا تھا‘ لیکن آج یہ خط برصغیر کے انسانوں کی قربت کیا‘ آدھی انسانی برادری کو قریب کر گیا ہے‘ گویا اس خط کے حوالہ سے تعدادی فائدہ ہوا ہے۔ اہل اقتدار کچھ نہیں کریں گے‘ اور ناہی‘ یہ ان کی ضرورت ہے‘ ہاں اہل دانش‘ معاملے کو سنجیدہ لیں‘ اور تین خطوں کے مباحث کے دائرہ سے باہر نکلیں۔
maqsood hasni
About the Author: maqsood hasni Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.