دما دم مست قلندر

کل میرے ایک تاجر دوست نے کہا حکومت کے خلاف دھرنے ناکام ہوگئے ہیں اب لوگوں کو گھرلوٹ جانا چاہیے۔۔
’’میں ایسا نہیں سمجھتا۔۔۔میرا جواب تھا
’’وہ کیوں؟۔۔۔اس کا استفسار تھا
فرض کیا۔۔۔میں نے کہاایک شخص سے آپ کا لین دین تھا اس کا آپ سے جھگڑا ہو جائے اس کااصرارہو اس نے آپ سے پیسے لینے ہیں آپ کہیں نہیں۔۔۔میرے ذمہ کوئی لین دین نہیں۔۔۔ توتو میں میں سن کرساتھ کی دکانوں والے معاملہ سلجھانے آجائیں دونوں کی بات سنیں ابھی فیصلہ کی نوبت نہ آئے تو آپ دونوں میں لڑائی ہو جائے۔۔۔پڑوسی لوٹ جائیں گے کہ اپنی آپ نبیڑو۔۔۔۔آپ صاف انکاری ہو جائیں میں نے کوئی پیسے نہیں دینے تم سے جو ہو سکے کرلو۔۔۔فریق چپ چاپ چلا آئے وہ برا بھلا بھی نہ کہے آپ سے کوئی تقاضا بھی نہ کرے بس آپ کی دکان کے سامنے دھرنا دے کر بیٹھ جائے بھوک ،پیاس اور موسم کی پرواہ کئے بغیردھرنا دے کر بیٹھا رہے آتے جاتے لوگ اس سے پوچھیں سڑک پر کیوں بیٹھے ہو وہ چلا چلاکر آپ کی طرف اشارہ کرکے کہے اس نے میرے پیسے دینے ہیں مگر دیتا نہیں۔۔۔سچ بتائیں آپ کو ٹین شین ہوگی کہ نہیں۔۔۔۔تاجر دوست نے میری ساری بات سن کر ماتھے پر آئے پسینے کو پوجھتے ہوئے کہا ٹین شین تو ہوگی۔۔۔۔میں نے مسکراتے ہوئے کہا یہی ٹین شین دھرنے والے میاں نواز شریف کو دے رہے ہیں بات آئی سمجھ میں۔۔۔اس کے ساتھ ساتھ میں نہیں کہتا خود حکومت کے وزیر ،مشیر کہتے پھر رہے ہیں دھرنوں سے حکومت مفلوج ہوکررہ گئی ہے۔۔۔ملکی معیشت کا حال دن بہ دن پتلاہوتا جارہاہے۔۔۔مہنگائی میں اضافہ ہوتا جارہاہے۔۔۔ چین سمیت کئی ممالک کے سربراہوں کے دورے ملتوی ہو چکے ہیں اب معلوم نہیں عمران خان اور ڈاکٹرطاہرالقادری اپنے مطالبات تسلیم کروانے میں کامیاب ہوتے ہیں یا ناکام لیکن ایک بات ہے ان دھرنوں نے کچلے، سسکتے اور بلکتے عوام کو ایک نئی سوچ ضرور دی ہے ایک وقت تھا جب اس ملک میں ڈرائینگ روم کی سیاست کا دور دورہ تھا اس ماحول میں ذوالفقارعلی بھٹو نے عام آدمی کو سیاست سے روشناس کروایا عوام کو اپنے حقوق کااحساس ہوا اب عمران خان اور ڈاکٹرطاہرالقادری نے سیاست میں ایک نئے دور کا آغازکیاہے جو تہلکہ خیز ثابت ہو سکتاہے یہی تبدیلی کا آغازہے جب لوگ بھوک ،پیاس ،مشکلات اور موسم کی پرواہ کئے بغیربے سروسامانی کے عالم میں دھرنا دئیے بیٹھے ہیں تو گھروں میں بیٹھے عام آدمی کامتاثرہونا یقینی بات ہے ہمارے ملک کے بیشتر سیاستدان نسل درنسل اقتدارکے مزے لوٹ رہے ہیں سیاست بھی ان کے گھر کی لونڈی ہے موجودہ جمہوریت ان کی سب سے بڑی محافظ۔۔ عام آدمی کو دووقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں ان کے بچے پڑھ لکھ بھی جائیں تو نوکری کیلئے خجل خوار ہونا مقدر بن جاتاہے زیادہ تر معاشی غلامی میں ہیں جہاں لوگ اپنی مرضی سے ووٹ دینے پر قادر نہ ہوں تبدیلی کیسے آئے گی ؟ تبدیلی تو اندر سے آتی ہے ۔۔۔یہی کام اس وقت ڈاکٹرطاہرالقادری اور عمران خان کررہے ہیں جنہوں نے حکمرانوں کی کرپشن بے نقاب کرکے ان کا سوا ستیا ناس کرڈالاہے جن کو اندر کے خوف نے بے چین کررکھاہے شنیدہے وہی ہر قسم کی تبدیلی کے خلاف ہیں کیونکہ تبدیلی تو ان کے خلاف آناہے جن کی مزاحمت شدید ترہورہی ہے۔۔جو تمام کے تمام متحدہو تے جارہے ہیں دوسروں کیلئے سوچنا شیوۂ پیغمبری ہے درحقیقت یہی ہیرو کہلوانے کے حقدارہوتاریخ بتاتی ہے کسی نظریہ کیلئے قربانیاں دینے والے دنیامیں ہمیشہ زندہ رہتے ہیں ناموافق حالات، طاقت کا بے رحم استعمال اورریاستی جبر بھی ان کے ارادے متزلزل نہیں کرسکتا اور مشکلات بھی راستہ نہیں روک سکتیں ۔ غور سے دیکھا جائے تو پاکستان میں صرف دو ہی طبقے ہیں ایک بااختیار ۔۔۔ دوسرا بے اختیار لوگوں کا۔آج پاکستان کے بااختیار لوگوں کا ڈاکٹرطاہرالقادری اور عمران خان کے خلاف اتحاد ہوگیاہے لیکن دھرنے والے ان کو مسلسل ٹین شین دے رہے ہیں جب بھی تاریخ لکھی جائے گی تحریک ِ ِانصاف اور عوامی تحریک کی اس جدوجہد کیلئے لوگوں کی استقامت اور جرأت کو ہمیشہ یادرکھا جائے گا اس سے شعور و آگہی کے کئی سورج طلوع ہوں گے۔۔۔ عام آدمی جب یہ محسوس کرتاہے کہ موجودہ استحصالی نظام کو بچانے کیلئے سب متحدہوگئے ہیں اور وہ قومی و مذہبی رہنما جن کا ایک دن کے اخراجات لاکھوں میں ہیں وہ بھی سالانہ چند ہزار ٹیکس دیتے ہیں تو اس کا مطلب ہے پارلیمنٹ ان دو نمبر لوگوں سے بھری پڑی ہے جو اول درجے کے جھوٹے اور ٹیکس چورہیں حکمران تو محض اپنے اقتدارکو جمہوریت سمجھ کر تنقید کرنے والوں کوقابل ِ تعزیر سمجھنے لگتے ہیں۔۔۔عوام کی اکثریت کو ایک بات سمجھ نہیں آرہی حالانکہ یہ سامنے کی بات ہے۔۔۔آصف علی زرداری،مولانا فضل الرحمن،چوہدری برادران،آفتاب شیرپاؤ،چوہدری اعتزازاحسن اور دیگر کئی حلیف برملا کہہ رہے ہیں کہ عام انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے الطاف حسین سمیت دیگررہنماؤں کی بھی یہی رائے ہے الیکشن کمیشن کے کئی عہدیدار بھی تہلکہ خیز انکشاف کرچکے ہیں اب تلک جس بھی حلقہ میں ری کاؤنٹنگ ہوئی ہے ہزاروں ایسے ووٹوں کی نشان دہی ہوئی ہے جن کی تصدیق ہی نہیں کی جا سکتی اس کا مطلب ہے کہ عمران خان ، ڈاکٹرطاہرالقادری اور شیخ رشیدسچ کہہ رہے ہیں تو پھر حکمران کس جمہوریت کو بچانے کی بات کرتے ہیں عوامی تحریک کے قائد تو روزانہ آئین کی تشریح کرکے عوام کو نئی سوچ دے رہے ہیں ان کا کہنا بجا ہے کہ مکمل آئین کا نفاذ کیا جائے آئین کی پہلی100شقوں پر عمل ہو جائے تو پاکستان کے غریبوں کی حالت اور حالات بدل جائیں گے۔۔ عوام جب یہ دیکھتے ہیں کہ کسی معزز رکن نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں غربت ،مہنگائی ،بیروزگاری،کرپشن اور لوڈشیڈنگ پر بات کرنا پسند نہیں کیا۔۔۔کسی وزیر نے یہ بھی بتانا گوارانہیں کیا حکومت غربت کے خاتمہ کیلئے کیا کررہی ہیں۔۔۔ مہنگائی اور جرائم کی روک تھام کیلئے کیا ترجیحات ہیں؟ ترو عوام کا دل حکومت کی طرف سے کھٹا ہو جاتاہے۔اب تلک یہ ہوتا آیاہے جب بھی کوئی سیاستدان اقتدار میں آتاہے اس کے ارد گرد خوشامدی،درباری اور مفاد پرست قسم کے لوگ گھیرا ڈال لیتے ہیں جو درست بات بھی حکمر ان تک نہیں پہنچنے دیتے تکبر، رعونت،خوشامد اور خودپرستی کی وجہ سے وہ عوام سے دور جاتے ہیں میاں نواز شریف کے ساتھ بھی یہی کچھ ہورہاہے لیکن انہیں اس کا مطلق احساس نہیں اس قوم کو میاں نواز شریف سے بہت سی توقعات وابستہ ہیں لیکن لگتاہے میاں صاحب پہلے جیسے نواز شریف نہیں رہے ان کی موجودگی میں دھرنادینے والے کوخانہ بدوش، غدار، گھس بیٹھئے،لشکری اور دہشت گردکہنا کہاں کا انصاف ہے؟ اگر میاں نواز شریف کے ساتھیوں کو کچھ فہم و ادراک ہوتا توشروع دن سے ہی معاملات بہتر بنائے جا سکتے تھے حالات اس نہج پر کبھی نہ آتے اب بھی انقلاب اور آزادی مارچ کے جائز مطالبات مان کر ملک و قوم کو اس ازمائش سے بچایا جا سکتاہے احتجاجی سیاست کسی طور بھی فائدہ مند نہیں کیا وزیر ِ اعظم اس بحران کے حل کیلئے آپ کسی معجزے کے منتظرہیں:معجزے کاانتظار تو یقیناڈاکٹرطاہرالقادری اور عمران خان کو بھی ہے شاید اس لئے وہ کشیاں جلاکر ڈی چوک بیٹھے ہیں فی الحال تو وہ خاموش ہیں یہ خاموشی کسی طوفان کا پیش خیمہ بھی ہو سکتی ہے یہ دھرنا طول پکڑا تو وہ دن دور نہیں جب ایک بار پھر پارلیمنٹ اور وزیر ِ اعظم ہاؤس کی جانب قافلے رواں دواں ہوں گے اور اس مرتبہ شاید واقعی دما دم مست قلندرہو جائے اس صورت ِ حال سے بچناہی بہترہے حکومت، اپوزیشن، ڈاکٹرطاہرالقادری اور عمران خان سب جوش کے ساتھ ساتھ ہوش کا دامن نہ چھوڑیں تو یہ ان کے بہترین مفاد میں ہوگا۔
M. Sarwar Siddiqui
About the Author: M. Sarwar Siddiqui Read More Articles by M. Sarwar Siddiqui: 218 Articles with 159631 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.