نئی نسل کے ہاتھوں میں ڈنڈے دیے جا سکتے ہیں تو کتابیں کیوں نہیں

نئی نسل کے ہاتھوں میں ڈنڈے دیے جا سکتے ہیں تو کتابیں کیوں نہیں،قلم دے کرپاکستان کو ترقی یافتہ کیوں نہیں بنایا جا سکتا

کسی بھی ملک و قوم کا قیمتی سرمایہ نوجوان ہوتے ہیں۔ ان کو جذبے، صلاحیتوں اور آگے بڑھنے کی امنگ سے لبریز ہونے کی وجہ سے معاشرے کا سب سے فعال طبقہ تصور کیا جاتا ہے۔ نوجوان جس مقصد کے لیے میدان میں نکل آئیں تو آخری دم تک مقصد حاصل کرنے کی جستجو میں لگے رہتے ہیں۔تحریکِ پاکستان اور قیامِ پاکستان میں نوجوانوں کا کردار اس کی ایک مثال ہے۔ پاکستان کی آبادی کا بڑا حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے ،اس کے باوجود پاکستان معاشی بدحالی کے بدترین دور سے گزر رہا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے نوجوان جو ملک و ملت کا معمار ہیں، انہیں خود اپنی اہمیت کا اندازہ ہی نہیں ہے۔وہ بے انتہا کنفیوژن کا شکار ہیں،ان کے مسائل سےمتعلق حکومتی یا اجتماعی سطح پر کوئی پالیسی ہے، نہ کسی کی نظر ۔ہاں اگر ان پرنظر ہے تو ان عناصر اور قوتوں کی ، جو ان کا استحصال کرکے اپنے مقاصد حاصل کرناچاہتے ہیں۔کوئی چاہتا ہے کہ نوجوان ‘جمہور’بن کر ان کو کوچہء اقتدار تک پہنچائے ،تو کوئی اُن کے کاندھوں پر چڑھ کر اقتدار کی دیواریں پھلانگنا چاہتا ہے،کوئی انہی کے ہاتھوں سے ان دیواروں کو زمین بوس ہوتے دیکھنا چاہتا ہے۔کوئی ان کے ہاتھ میں بندوق پکڑا دیتا ہے تو کوئی لاٹھی دے کر سرکاری اور غیرسرکاری املاک کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب دنیا میں علم کی روشنی بڑی آب وتاب سے پھیل رہی ہے ،اعدادوشمار پاکستان میں بالکل ایک الگ تصویردکھاتے ہیں۔ جنوری میں جاری ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 5.5ملین بچےاسکولوں سے باہر ہیں، جو نائیجیریا کے بعد دوسری بڑی شرح ہے۔ تعلیمی ادارے جن تک 68 فی صد آبادی میں سے محض مٹھی بھر لوگ پہنچ پاتے ہیں، وہ بجائے نوجوان نسل کو مثبت سمت دکھانے کے ان کو مزید تضاد کا شکار کر رہے ہیں۔اگر نوجوانوں کو یکساں اور بہتر نظامِ تعلیم مہیا کیا جائے تو یہ تضاد کسی حد تک کم کیا جا سکتا ہے۔ معیاری تعلیم کو محض کچھ طبقے تک محدود رکھنا، گورنمنٹ اور پرائیوٹ اداروں میں نصابِ تعلیم مختلف ہونا، یعنی ایک ہی معاشرے میں کئی طبقات کے ساتھ ساتھ تعلیمی ادارے بھی مختلف طبقوں کے لئے مخصوص ہیں اور یا ان کی فیسیں اتنی ذیادہ ہیں کہ چاہتے ہوئے بھی کم وسائل رکھنے والے طلباء کے لئے وہاں تعلیم حاصل کرنا ممکن نہیں ۔گورنمنٹ اور پرائیوٹ اداروں کی تفریق نے نوجوانوں میں مزید تضاد پیدا کردیا ہے۔مہنگائی، بے روزگاری اور غربت نوجوان نسل کو یہ سوچنے کی مہلت ہی نہیں دیتی کہ وہ کتنی بڑی قوت ہیں۔ ملک میں ہونے والی مختلف سرگرمیاں اور موجودہ غیر یقینی حالات،بڑھتی ہوئی مہنگائی،روزگار کی فکر،میں جو پڑھ رہا ہوں آگے کام آئے گا یا نہیں؟میرا مستقبل کیا ہوگا ؟ آج کے نوجوانوں کی سوچ کا محور یہی ہے۔ ایک نوجوان تعلیم مکمل کرنے کے بعد جب ڈگری حاصل کرتاہے تووہ بیشمارٹیسٹ دے کر اورانتھک محنت کے بعدحاصل کرتاہے۔لیکن اس کے باوجود اس ملک میں نوکریاں صرف اُنہی نوجوانوں کوملتی ہیں جن کی جیبیں گرم ہوں، یااُن کے پاس کوئی بھاری بھرکم سفارش ہو ،پھر چاہے وہ اس نوکری کے اہل ہوں یانہ ہوں ان کو باآسانی نوکری مل جاتی ہے۔ان تمام باتوں کے حوالے سے ایک دیانت دار طالب علم کو موقع نہیں ملتا کہ اپنی بات کسی اور تک پہنچا سکے۔وہ ان سب معاملات پر سوچتا ہے۔ بات کرنا چاہتا ہے۔ اپنی بات دوسروں تک پہنچانا چاہتا ہے۔ کبھی کبھی یہ صورتحال بھی اس کو مزید پریشان کر دیتی ہے کہ اس کی کوئی نہیں سنتا۔ ا ن تمام اسباب کے باعث جرائم کی شرح بڑھ رہی ہے، کیونکہ درست سمت نا ملنے کے سبب اکثر نوجوان غلط راستوں کا انتخاب کرلیتے ہیں۔تعلیمی اداروں میں طلباء تنظیموں کی جگہ سیاسی تنظیموں نے لے رکھی ہیں، جو اپنی اپنی ضروریات کے تحت ان نوجوانوں کی صلاحیتوں اور جذبات کو استعمال کرتے ہیں۔ کتنے ہی نوجوان طلباء جامعات میں ان تنظیموں کی خاطر اپنی جان گنوا چکے ہیں، مگر اب بھی انہیں کوئی درست راہ دکھانے والا نہیں ہے۔ نوجوان نسل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس میں مستقل مزاجی نہیں ہے۔ ان کے پاس آج کے دور کا کوئی رول ماڈل نہیں ہے۔سیاست، کھلاڑی، استاد، ڈاکٹر جس سے بھی متاثر ہو تے ہیں وہ بدعنوان ہی نظر آتے ہیں۔ نوجوانوں میں بے پناہ صلاحیتیں موجود ہیں۔ تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کی صلاحیتوں کو نکھارا جائے۔ ہم کھوکھلی جڑوں پر عمارت تعمیر کر رہے ہیں اور اس سے توقع کررہے ہیں کہ وہ ملک کا بوجھ اپنے کاندھوں پر اٹھائے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام طبقات کے لیے یکساں اور بہتر نظامِ تعلیم اپنایا جائے، تاکہ عمارت کی بنیادیں مضبوط ہو سکیں۔ہمارے ملک میں قابل لوگوں کی کمی نہیں ہے ، قابل نوجوان اگر میرٹ کی بنیاد پر ملک کے نظام کا حصہ بن جائیں تو یقیناً پاکستان ترقی کی نئی راہوں سے ہمکنار ہوگا ۔ نوجوان تو خام مال ہیں! آپ ان سے کچھ بھی بنالیں، بس منصوبہ بندی اور اخلاص نیت کی ضرورت ہے۔ بقول شاعر
زرا نم ہو تویہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

مٹی وہی ہے اب چاہے آپ ببول کے کانٹے بوئیں، یا بارآور فصل۔فیصلہ کرنا ہے کہ ہم نے اس زمین میں کیا کاشت کرنا ہے۔ نوجوانوں کے ہاتھوں میں ڈنڈے دے کر توڑپھوڑ کرائی جاسکتی ہے تو ان کے ہاتھ میں قلم دے کرپاکستان کو ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں بھی ڈالا جاسکتا ہے اس بات کو تسلیم کرلینا چاہئے کہ ملک کی موجودہ صورتحال میں نوجوان نسل کے حوصلوں سے ہی انقلاب برپا ہوسکتا ہے بشرطیکہ پہلے نوجوانوں کواُن کے حقوق فراہم کئے جائیں اورآگے بڑھنے کے مواقع بھی دئیے جائیں تاکہ نوجوان نسل اپنی قابلیت اور ذہانت کے بل بوتے پر دنیا میں ترقی کی ایک نئی مثال رقم کردے۔
samina shah
About the Author: samina shah Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.