پروفیسر انیس زیدی ۔ایک شخصیت ایک مطالعہ

(گورنمنٹ کالج برائے طلبہ ناظم آباد کے سابق طالب علم اور گورنمنٹ نیشنل کالج کے سابق پرنسپل سے ایک مکالمہ۔
اس گفتگو میں جویکم مارچ ۲۰۰۸ء کو ہوئی کالج کے استاد محمد عاصم بھی شریک گفتگو تھے۔ یہ مکالمہ گورنمنٹ کالج برائے طلبہ ناظم آباد کے مجلہ ’’روایت‘‘ کے گولدن جوبلی نمبر ۸۰۰۲ء میں شائع ہوا)

تعارف :
گونمنٹ کالج برائے طلبہ ، ناظم آباد کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس مادر علمی نے بے شمار گوہر یکتا پیدا کیے جنہوں نے نہ صرف کراچی بلکہ پاکستان میں اپنے اپنے شعبوں میں کار ہائے نمایاں انجام دیے ۔پروفیسر انیس زیدی ان میں سے ایک ہیں ۔زمانہ طالب علمی میں انیس احمد تھے اب انیس زیدی کے نام سے معروف ہیں۔ استاد ہونا ان کی پہچان ہے، لیکچرر سے پروفیسر تک کے منازل طے کرتے ہوئے گورنمنٹ نیشنل کالج کے پرنسپل ہوئے۔ ادبی، سماجی و ثقافتی محفلوں میں شروع ہی سے نمایاں کردار اداکرتے رہے ، عملی زندگی میں آپ کی ان خوبیوں میں مزید نکھار آگیا،بہترین مقرر ، شاعر، ادیب ہونے کے ساتھ ساتھ جس محفل میں آپ ہوں ماحول خوشگوارہوجاتا ہے۔ مزاح ان کی شخصیت کا ایک اہم عنصر ہے، اپنے مزاحیہ فقروں ، دلچسپ باتوں سے محفل کو بور نہیں ہونے دیتے۔ دوران گفتگو موضوع کی مناسبت سے شعر بھی سناتے ہیں۔مجلسی انسان ہیں۔ کراچی کی ادبی ثقافتی، سماجی محفلوں میں کبھی کمپیئر ،کبھی منتظم ، کبھی مقرراور کبھی عام سامع کی حیثیت سے نظر آتے ہیں۔

پروفیسر انیس زیدی ۱۹۶۰ء سے ۱۹۶۴ء تک گونمنٹ کالج برائے طلبہ ، ناظم آباد کے طالب علم تھے ۔آپ نے اس کالج سے انٹر اور بی اے کیا۔ انیس زیدی صاحب نے جب اس کالج میں ایک طالب علم کی حیثیت سے قدم رکھا تو کالج کی عمر صرف چار برس تھی۔ انیس زیدی صاحب اپنے زمانہ طالب علمی کو اس دور کو کالج کا ’’گولڈن پیریڈ‘‘ کہتے ہیں۔ ہم نے پروفیسر انیس زیدی صاحب سے یہ گفتگو بطورخاص ان کے زمانہ طالب علمی کے حوالے سے کی۔ آپ کی گفتگو سے اس دور کی شخصیات جن میں کالج پرنسپل، اساتذہ اور طالب علموں کے بارے میں اہم اور دلچسپ باتیں سامنے آئیں۔

انٹر ویو کے دوران پرفیسر انیس زیدی بھی اپنے ماضی کی یادوں میں گم ہوتے دکھا ئی دیے ، کسی کسی وقت جذبات میں بھی آئے ، آپ کا حافظہ ماشاء اﷲ غضب کا ہے، کالج کے اساتذہ کے بارے میں ، اپنے ہم جماعت ساتھیوں کے بارے میں ، چار سال کے دوران رونما ہونے والے واقعات کے بارے میں انہوں نے تفصیلی گفتگو کی،اپنا نقطہ نظر خوبصورتی کے ساتھ بیان کیا۔بات میں وزن پیدا کرنے کے لیے انگریز فلاسفر ، شاعروں کے اقوال اور خوبصورت اشعار بھی سناتے رہے۔آج کی گفتگو میں پروفیسر انیس زیدی ایک مختلف شخصیت نظر آئے جن کی گفتگو میں مزاح بہت کم اور سنجیدگی زیادہ تھی۔شا ید اس کی وجہ یہ رہی ہوگی کہ آج وہ اپنے آپ کو ۴۸ سال پہلے والا انیس ا حمد محسوس کررہے ہوں گے جس نے میٹرک کرنے کے بعد ۱۹۶۰ء میں اس کالج میں قدم رکھا ہوگا۔کالج کا زمانہ کسی بھی طالب علم کے لیے سب سے یادگار زمانہ ہوتا ہے۔ جب وہ اپنے آپ کو بڑا محسو س کرتا ہے۔ یعنی وہ اسکول کے ماحول کو خیر باد کہہ کر ایک نئی زندگی میں قدم رکھتا ہے ۔ہم نے اس گفتگو میں کالج کی پچاس سالہ تاریخ کے ابتدائی خد و خال کو یکجا کرنے کی کوشش کی ۔

سوال : اپنی پیدائش، ابتدائی تعلیم اور بچپن کے بارے میں کچھ بتائیں ؟
جواب : میں ۱۵ فروری ۱۹۴۵ء کو کانپور (ہندوستان )میں پیدا ہوا، آبائی وطن فتح پورہسوہ ہے۔ ابتدائی تعلیم والدہ سے حاصل کی ، میری تر بیت و تعلیم میں میری والدہ کا بنیادی کردار ہے ۔ انہوں نے میری نہ صرف عملی تر بیت کی بلکہ ’چکر ورتی‘ جیسی کتب بھی میں نے اسی دور میں پڑھ لی ۔ رسالہ ’آستانہ‘ مستقل میرے مطالعہ میں رہتا تھا ، اخبار جنگ اور اکابرین کی تحریریں میرے مطالعہ میں رہتیں، مولانا ابو لکلام آزادکی نگارشات نظروں سے گزریں،میری طبیعت میں شرارت کے ساتھ ساتھ سیاسی و سماجی پس منظر کو جاننے کی جستجو پائی جاتی تھی۔ میں اخبارات میں سیاسی بیانات کو بہت غور سے پڑھا کرتا تھا۔ ۱۹۵۶ء میں جب میں چھٹی کلاس میں تھااور عمر کوئی ۱۱ برس کی رہی ہوگی سوئس کینال کا مسئلہ سامنے آیا، امریکہ اور برطانیہ کے مظالم کے خلاف مظاہرے ہورہے تھے تو میں نے جوشیلے انداز میں لوگوں کو اس کی مذمت کرنے کی ترغیب دی۔سیاسی جماعتوں کے جلسوں میں بھی شرکت کی اس زمانے میں برداشت ، تحمل اور اختلاف رائے کا احترام دیکھاجوموجودہ زمانے میں نا پید ہے۔اس زمانے میں کراچی کاجہانگیر پارک اور آرام باغ اجتماعات کا مرکز تھے، زیادہ تر سیاسی جلسے انہی جگہوں پر ہوا کرتے تھے ۔ ہم برنس روڈ پر رہا کر تے تھے۔ ایک واقعہ آپ کو سناؤں جس سے مجھے اختلاف رائے کا احترام اور برداشت و رواداری کا عملی مظاہرہ دیکھنے کو ملا۔ ری پبلکن پارٹی کی حکومت تھی ، ڈاکٹر خان صاحب (۱۸۸۲ء۔۱۹۵۸ء)، خان عبد الغفارخان کے بھائی ، پیشے کے اعتبارے ڈاکٹر تھے ۱۹۳۰ء میں عملی سیا ست میں آئے ، صوبہ سرحدمیں کانگریس کی طرف سے پہلی کانگریسی وزارت انہوں نے قائم کی تھی، قیام پاکستان کے بعد ان کی وزارت برطرف کردی گئی ،۱۹۵۵ء میں وہ مغربی پاکستا ن کے وزیر اعلیٰ تھے۔ نشتر پارک کے ایک جلسے میں جب تقریر کرنے کے لیے کھڑے ہوئے تو ایک لڑکا جو سامنے ہی بیٹھا تھا کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا کہ آپ لوگ کانگریسی ہو، پاکستان دشمن ہو،وغیرہ وغیرہ، رضاکاروں نے اس لڑکے کو پکڑ کے بٹھا نا چاہا۔ ڈاکٹر خان نے رضاکاروں کو منع کیا اور اس لڑکے کو اسٹیج پر بلایا اور کہا کہ تمیں جو کچھ کہنا ہے ما ئک پر کہو تاکہ سب سن سکیں، اس لڑکے نے اپنی بات کہی، ڈاکٹر خان نے بہت ہی تحمل سے اس لڑکے کی بات سنی اور اپنی تقریر میں اس کاجواب دیا،اس واقع سے جو اہم بات میں بتا نا چا ہتا ہوں وہ یہ کہ اس زمانے میں ہمارے اکابرین میں ، سیاست دانوں میں کس قدر برداشت اور اختلاف رائے کا احترام تھا وہ اب ناپید ہو گیا ہے یہی وجہ ہے کہ آج ہم بے شمار مسائل کا شکار ہیں۔میری باتیں طویل ہوگئیں آپ نے سوال کیا تھا کہ تعلیم کہاں سے حاصل کی، قیام پاکستان کے بعد ہم لوگ کراچی آئے اور ’’گورنمنٹ بوائز اسکول ‘‘ سمر سٹ اسٹریٹ صدرسے ۱۹۶۰ء میں میٹرک کیا۔

سوال : میٹرک کرنے کے بعد آپ نے گونمنٹ کالج ناظم آباد میں داخلہ لیا۔انٹر اور بی اے اس کالج سے کیا ، چار سال آپ نے اس کالج میں
گزارے، اس دور کا حال خاص طور پر پرنسپل، اساتذہ اور اپنے طلبہ ساتھیوں کے بارے میں تفصیل سے بتا ئیں؟
جواب : اس زمانے میں گورنمنٹ کالج ناظم آباد واحد گورنمنٹ کالج تھا جہاں آرٹس فیکلٹی میں بی اے کرایا جاتا تھا باقی سارے آرٹس کالج پرائیویٹ تھے۱۹۶۰ء میں میٹرک کرنے کے بعد اسی سال میں نے اس کالج میں فرسٹ ائر میں داخلہ لیا۔ سیاسیات، تاریخ اور نفسیات میرے اختیاری مضامین تھے۔میں جب اس کالج میں آیا تو پروفیسر عبدالباطن کالج کے پرنسپل ( ۲۰ ستمبر ۱۹۵۹ء۔۶ جون ۱۹۶۱ء) تھے ،وہ کالج کے اولین پرنسپل ڈاکٹر اطہر رشید (۲۰ نومبر ۱۹۵۶ء۔۱۹ ستمبر ۱۹۵۹ء ) کے بعد پرنسپل بنے تھے۔اساتذہ میں پروفیسر احمد سعید صاحب، پروفیسرسید محمد سبطین صاحب،اسلم فرخی صاحب، مسز سومرو صاحبہ ، پروفیسرمیزان الرحمان صاحب ، ڈاکٹر احمد صاحب ،انجم اعظمی صاحب ، شاہد عشقی صاحب ، ڈاکٹر عبدالسلام صاحب، مسیح الدین صدیقی صاحب، احسن صاحب انگریزی کے استاد تھے اور سجاد ساجد صاحب اس وقت لائبریرین تھے۔

میرا زمانہ طالب علمی اس کالج میں چار سالوں پر محیط رہا ہے۔ جیسا میں نے پہلے کہا اس وقت پروفسیر باطن صاحب پرنسپل تھے ان کے بعد پروفیسر محمد عبد الرؤف پرنسپل ہوئے ، پھرڈاکٹر صفدر حسین صاحب پرنسپل ہوئے، ڈاکٹر گیلانی کے بعد ڈاکٹر صفدر دوبارہ پرنسپل ہوئے جہاں تک اس دور کے طلبہ کا تعلق ہے تو آپ کو ایسے ایسے نام نظر آئیں گے جنہوں نے زندگی کے تقریباً تمام ہی شعبوں میں کارہائے نمایاں انجام دئے ، وہ اپنے اپنے شعبوں کے معروف ترین لوگوں میں سے ہیں۔ان میں امیر حیدر کاظمی(سیاست داں پی پی پی)، لاکھانو خان بلوچ، علی یاور، علی حیدر، صابر نقوی، محمد فاروقی، سید احمد فاروقی، فرقان احمد فاروقی، سحر انصاری (جو اس وقت انور مقبول انصاری تھے)، نفیس صدیقی(سیاست داں پی پی پی)، ایم کیو ایم کے شعیب بخاری، شہنشاہ حسین، سینیٹر احمد علی، انور مقصود، شکیل احمد (معروف ٹی وی آرٹسٹ)، قمرمسعود، مسرور احسن(سیاست داں پی پی پی)، حسن فیروز، احمد دارا ، منور حسن ( جماعت اسلامی)، اور دیگر شامل ہیں۔

اسا تذہ طلبہ سے قریبی، دوستانہ، مشفقانہ تعلق رکھا کر تے تھے ، دونوں کے مابین خوشگوار ہم آہنگی تھی۔۱۹۶۲ ء کی طلبہ تحریک عروج پر تھی۔ طلبہ اپنے استادوں کا حد درجہ احترام کیا کرتے تھے۔ ایک واقعہ سنیے کہ ڈاکٹر باطن جب پرنسپل تھے ۔ احتجاجی جلسہ کے نتیجے میں کالج کے گیٹ پر پولس آگئی ، وہ چند طلبہ کو گرفتار کرنا چاہتی تھی۔ باطن صاحب کو جب اس بات کا علم ہوا تو وہ اپنے آفس سے نکل کے مین گیٹ پر پہنچے اور پولس کے سامنے کھڑے ہو کر کہا کہ ’’مجھے گرفتارکر لومیں اپنے طلبہ کو تمہارے حوالے نہیں کرونگا‘‘۔

زم ادب کے نگراں انجم عظمی صاحب ہوا کرتے تھے۔مسیح الدین صدیقی صاحب انگریزی ادبی سوسائٹی کے سرپرست تھے۔کالج میں ادبی، ثقافتی ، سماجی سرگرمیاں زور و شور کے ساتھ پورے سال جاری رہا کرتی تھیں۔ مشاعرہ ، ادبی محفلوں کا انعقادمعمول کی بات تھی ، مباحثے ، مذاکرے، معلومات عامہ کے پروگراموں میں طلبہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کرتے تھے۔میں بزم ادب کا سیکریٹری بھی رہا، انجم عظمی اور اسلم فرخی صاحب جیسے استاد ہماری سر پرستی و رہنمائی کیا کرتے تھے۔ ہم نے اپنے ان کابرین سے بہت کچھ سیکھا ، اس دور میں ہفتہ طلبہ بڑی شان و شوکت سے منا یا جاتا تھا، پورے ہفتہ مختلف مقابلوں کے پروگرام جاری رہتے، ایک مجلہ ’’المنورہ‘‘ جاری کیا گیا تھا۔ میں ادب کی جانب مائل ہوچکا تھا۔ مجلہ کی ادارت و اشاعت میں بھر پور کردار ادا کیا۔ میری ایک نظم جو گورنمنٹ کالج سے متعلق تھی اس مجلہ میں شائع ہوئی تھی میں وہ نظم آپ کو ’’گولڈن جوبلی نمبر ‘‘ کے لیے دونگا۔اس دور میں کراچی کی سطح پر ایک Inter Collegiate Body, (ICB)ہوا کرتی تھی جسے کراچی کالجوں کی یونین کے منتخب عہدیدارمنتخب کرتے تھے، ہر کالج کا صدر، سیکریٹری جنرل ووٹر ہوا کرتا تھااور یونین کے منتخب نمائندے ہی اس انتخاب میں حصہ لے سکتے تھے۔ گورنمنٹ کالج کے طلبہ نے اس باڈی میں ہمیشہ کلیدی کردار ادا کیا۔ ۱۹۶۳ء میں مشرقی پاکستان میں طوفان آیا، بہت تباہی و بربادی ہوئی ، پورے ملک سے امداد جمع کی گئی، گورنمنٹ کالج کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس کالج کے طلبہ نے امدادی مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور امدادی سامان لے کر طلبہ کا ایک وفد گورنمنٹ کالج کے صدرِ یونین کی قیادت میں مشرقی پاکستان گیا۔ ہم طلبہ نے ایک lending library بھی قائم کی تھی جس کے قیام اور ترتیب میں اس وقت کے لائبریرین سجاد ساجد صاحب نے ہماری رہنمائی کی تھی۔کتابوں کی نمائش کے علاوہ آرٹس و کرافٹ کی نمائش کا اہتمام کالج میں کیا جاتا تھا۔اس زمانے میں این ایس ایف (NSF)طلبہ کی ایک مضبوط انجمن تھی۔۱۹۶۰ء میں ایس ایم جعفری اس کے نائب صدر تھے پھر شہنشا ہ حسین اس کے بعد امیر حیدر کاظمی منتخب ہوئے۔ لاکھانو خان بلوچ اس وقت وہ واحد طالب علم تھا جو شلوار قمیض میں کالج آیا کرتا تھا، ۱۹۶۴ء میں وہ طلبہ یونین کا صدر منتخب ہوا۔اس زمانے میں اس کالج کا طرّۂ امتیاز کالج کے طلبہ میں ذہنی بیدار ی پیدا کرنا تھا ، بلا امتیاز رنگ و نسل، زبان ، علاقہ سب کے ساتھ یکساں تعلق اور برتاؤروا رکھا جاتا تھا۔ لاکھا نو خان بلو چ اس وقت طلبہ یونین کے صدر منتخب ہوئے۔جب پرے کالج میں چند ہی سندھی طالب علم ہوں گے، لاکھانو بلوچ نیشنل اسٹو ڈینس فیڈریشن (NSF)کے امیدوار تھے۔

سوال : یہ فرمائیں کہ آپ اپنے دور میں اور موجودہ دور میں کیا فرق محسو س کرتے ہیں ؟
جواب : بات یہ ہے کہ اس زمانے میں طلبہ کے ہیرو، مشاہیر ، مفکر، آرٹسٹ، شاعر، ادیب ہوا کرتے تھے جب کہ آجکل صرف مشتہر رہ گئے ہیں۔ پہلے تصویرحقیقی بنادوں پر چھپتی تھی اب کوشش کرکے چھپوائی جاتی ہے ۔ اب آئیڈیل شوبزنس کے لوگ ہیں ، تفریح ضرور ہے لیکن معاشرے کی صورت گری نہیں، کم از کم مجھے آج نظر نہیں آتی۔اس وقت سب غریبوں کے دوست، خیر خواہ تھے اب نہیں ہیں،اس دور کے افراد کا کتاب سے رشتہ تھا اب طلبہ و نوجوان کتاب سے دور چلے گئے ہیں، ہماری لائبریریاں ویران ہو چکی ہیں، اساتذہ پریشان، اہل الرائے اور درد مند افراد مایوس اور بجھے بجھے ہیں ۔اس وقت اساتذہ طلبہ کے لیے امید کی شمع تھے۔ اُس وقت کا استاد معاشرے کو بدلنا چاہتا تھا ، اب ایسا نہیں ہے ۔ تحریر و تقریر‘ انسان دوستی کی بنیاد پر رہنمائی کی جاتی تھی ، تصادم نہیں ہوتے تھے، میرٹ کو اہمیت دی جاتی تھی آج میرٹ نام کی کوئی چیز نہیں۔ ہم ماہرین تو پیدا کررہے ہیں لیکن اچھے انسان نہیں۔

سوال : یہ فرمائیں کہ کیا اب ہم بہتری کی جانب لوٹ سکتے ہیں ؟
جواب : انقلاب مفکرین و اساتذہ ہی لے کر آتے ہیں اور طلبہ ہی انقلاب کا ہراول دستہ ہوتے ہیں۔میں ما یوس نہیں ہوں مجھے یقین ہے ہم اختلافِ رائے احترام بھی کریں گے اور اعتماد و تعاون کے ذریعہ ایک نئی دنیا کی تعمیر کریں گے۔

سوال : کالجوں کا سب سے اہم مسٗلہ کوچنگ سینٹرز یا ٹیوشن مافیا ہے ، طلبہ کالج کے بجائے کوچنگ سینٹر کو ترجیح دیتے ہیں ۔ اس رجحان کو کس طرح تبدیل کیا جاسکتا ہے۔
جواب : میری نظر میں اس کے ذمہ دار والدین ہیں۔ پہلے تعلیم کا مقصد ایک اچھا انسان بننا تھا آج تعلیم کا مقصد ایک ماہر کی تخلیق ہے۔ ہماری توجہ اس جانب نہیں کہ ہمارا بچہ معاشرے کا ایک ذمہ دار فرد بنے، ایک اچھا انسان بنے اس کے برعکس آج ہم یہ سوچتے ہیں اور اس پر عمل بھی کرتے ہیں کہ ہمارا بچہ کس طرح منافع بخش پیشے کا ماہر بن جائے۔ دوسرا بڑا مسئلہ بچوں کے تحفظ کاہے ، والدین بچوں کے تحفظ کے باعث نہیں چاہتے کہ وہ پہلے کالج جائے ، پھر کوچنگ سینٹر جائے، ہمارے کالج Registration Centre بن کر رہ گئے ہیں۔ آج تعلیمی اداروں میں طلبہ کی تنظیمیں سیاسی جماعتوں کی ذیلی تنظیمیں ہیں۔ ایسی صورت میں قوم کیسے بنے گی۔

سوال : یہ فرمائیں کہ تعلیمی اداروں میں مسائل اور اپنے زمانے کی باتیں آپ نے کیں ۔ کیا آپ نے بحیثیت پرنسپل اس بات کی کوشش کی کہ اس دور کی باتوں پر عمل درآمد کرایا جائے ، یا بہتری کے کیا اقدامات کیے؟
جواب : میں نیس کوشش کی کہ کالج کے تمام انتظامی اور تعلیمی معاملات کو خوش اسلوبی سے چلاؤں۔ طلبہ تنظیموں کے درمیان تصادم میرے زمانے میں نہیں ہوا، میں نے برداشت، تحمل پیدا کرنے کی پوری کوشش کی، کالج کی دیواروں پر طلبہ تنظیموں کے جھنڈے اور نعرے میرے دور میں نہیں لکھے گئے۔آج کے دور کا سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ طالب علم کی کوئی بات سنی نہیں جاتی ، میں جب پرنسپل تھا تو بھی کلاس میں جایا کرتا تھا تاکہ ان کے مسائل از خود معلوم کرسکوں۔ میں نے کوشش کی طلبہ کی ہم نصابی سرگرمیاں کالج میں ہوتی رہیں اور ہوئیں۔ طلبہ یونینوں پر عائد پابندیوں سے بہت زیادہ نقصان ہوا ہے ‘
انہیں بحال ہونا چاہیے۔

سوال : کوئی ناقابل فراموش واقع بیان کرنا چاہیں ؟
جواب : ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی اور اس کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو کا شہید کیا جانا میری زندگی کے ناقابل فراموش واقعات ہیں۔آپ نے یہ شعر
پڑھا ؂
کوئی اور تو نہیں ہے پس خنجر آزمائی
ہم ہی قتل ہورہے ہیں ہم ہی قتل کررہے ہیں

سوال : نوجوان نسل کو کوئی پیغام دینا چاہیں گے ؟
جوا ب : میرایہ مقام تو نہیں ، نوجوانوں سے یہ کہنا چاہوں گا کہ غیبت بدگمانی سے ہر قیمت پر بچیں‘ ہر قسم کا تعصب اور اپنی بات پر نامناسب اصرار انسانی معاشرہ مین نفاق پیدا کرتا ہے۔ حالات یقینا بہتر ہوں گے کیونکہ نوجوان تو تازہ ہوا کا جھونکا ہوتے ہیں اوران کی محنت ، اخلاص یقینی طور پر معاشرہ میں خوشگوار تبدیلی لائے گا ؂
خزاں رکھے گی درختوں کو بے ثمر کب تک
گزر ہی جائے گی یہ رُت بھی حوصلہ رکھنا
یکم مارچ ۲۰۰۸ء
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1279671 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More