دو رائے

کسی نے کہا کہ یہ نہ دیکھو کہ پانی کا گلاس آدھا خالی ہے اور پھر اسی نے کہا کہ یہ دیکھو کہ پانی کا گلاس آدھا تو بھرا ہوا ہے اور کسی دوسرے نے کچھ کہا نہیں بلکہ کیا اور یوں کیا کہ پانی دیکھنے کی بجائے پانی کا گلاس اٹھا کر منہ سے لگا یا اور غٹا غٹ پانی پی لیا اس سب کا فائدہ یہ ہوا کہ گلاس پھر پانی ڈالنے کے قابل ہو گیا اور بحث کرنے والے میں سے ایک شخص کی پیاس بجھ گئی۔ اور پھر دوبارہ سے بحث کرنے کی تیاری پکڑ لی گئی۔

خدا نے انسان کو تیار کیا تو آنکھوں دو سے نوازا اور اور دماغ ایک سے نوازا شاید حکمت یہ تھی کہ آنکھوں ہی آنکھوں میں کیا قیامت ڈھائی جاتی ہے اور دو آنکھیں دس افراد کو زیر کر سکتی ہیں اسی لئے دماغ ایک ہی ہونا چاہئے کہ انسان اچھی طرح سے سوچ بچار کر سکے اور ایک یکسوئی کے ساتھ سوچ سکے اور کنفیوژن اور الزام تراشی سے بچا جاسکے۔ لیکن اگر دیکھا جائے تو چاند دور سے چاہے کتنا ہی روشن کیوں نہ لگے مگر یہ حقیقت ہے کہ اسکی روشنی جو ہے وہ سورج سے ادھار لی روشنی ہے۔

روشنی اور اجالا جب انسان کے دماغ کی اندرونی سطحوں تک پہنچنے لگے تو انسان میں اور کچھ نہ سہی مگر دوسروں کا دوسرا کا نقطہ نظر برداشت کرنے کی صلاحیت آجاتی ہے۔ جس طرح دوسروں کو ہم بحیثیت ایک دوسرا انسان دیکھتے ہیں بالکل اسی طرح ایک دوسرے انسان کی رائے بھی دوسری ہی ہوگی اور ہر معاملے میں ہر یک کی رائے الگ ہونا بالکل نیچرل سی بات ہے۔

بات یہی ہے کہ آج تک یہ کنفیوژن ہے کہ ٹماٹر سبزی ہے یا پھل اسی طرح بہت سے معاملات میں کوئی بھی فریق غلط یا درست یا با لکل ہی غلط اور بالکل ہی درست نہیں کہا جاسکتا اس کی وجہ چھوٹی سی یہ ہے کہ ہر انسان کے سوچنے اور غورو فکر کرنے کا انداز الگ ہوتا ہے اور یہ سوچنے کا الگ اندازاسس بات سے متاثر ہوتا ہے کہ آُ پکی علمی سطح اور آپکی میل ملاپ کی سطح بھی کس حد تک اور کس کس سے ہے کیونکہ یہ سب چیزیں اور پہلو ہی آہستہ آہستہ زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں اور آپکی زندگی اور اس پر اثر انداز ہونے والی سوچ بناتے ہیں۔

زندگی اور زندگی کے حالات خاص طور پر سیاسی گرما گرمی کے ساتھ جڑے ہیں سیاسی قائد کی کال پہ جانثار کچھ بھی کرنے کو تیار رہتے ہیں۔ افراد کی سوچ کہ وہ کس پارٹی یا کس شخصیت کے ساتھ خود کو وابستہ کرتے ہیں بلاشبہ ایک فرد کا ذاتی معاملہ ہے اور اس رائے اور جزبات کو کسی ایک شخصیت کے ساتھ منسلک کرنے سے آس پاس کے لوگوں اور انسان کی اپنی زندگی میں بھی اس حد تک فرق نہیں پڑتا جس حد تک ہمارے ہاں یہ فرق زندگی پر اثر انداز ہوتا ہوا سمجھا جاتا ہے سب سے بڑی بات یہ ہے کہ انسان کا گالم گلوچ کرنا اور سیاسی وابستگیوں کے خاطر مار پیٹ تک اتر آنا سمجھ سے بالاتر ہے۔

پھر اس ضمن میں سب سے افسوسناک پہلو کہ جب ایک فرد کی سیاسی وابستگی کو کسی اور معنوں میں دیکھا جائے اور مخالف پارٹی کے ساتھ رشتہ مطلب وفاداری رکھنے پر قطع تعلق تک کرنا موزوں سمجھ لیا جائے اب کوئی یہ بتائے سیاسی قائدین نے تو وقت کے ساتھ ساتھ بدلتے اور ادلے بدلے رہنا ہے کبھی ایک کے ساتھ تو کبھی دوسرے کے ساتھ تو انکی خاطر اپنے دوستوں تک سے لڑائی کر لینا کہاں کی دانشمندی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
sana
About the Author: sana Read More Articles by sana: 231 Articles with 272549 views An enthusiastic writer to guide others about basic knowledge and skills for improving communication. mental leverage, techniques for living life livel.. View More