آنے والا ہے، ٹوئٹر کا ’’لائی ڈیٹیکٹر‘‘

سوشل میڈیا جہاں تفریح کے ساتھ معلومات اور خبریں فراہم کر رہا ہے، وہیں اس کے ذریعے جھوٹ اور افواہیں پھیلانے کا مکروہ عمل بھی جاری ہے۔

اکثر یہ ہوتا ہے کہ مخصوص مفادات کے حامل گروہ، جن میں سیاسی، مذہبی، مخصوص افکار کے حامل، کاروباری مفادات رکھنے والے اور محض تفریحاً افواہ پھیلانے والے، سب ہی قسم کے گروہ شامل ہیں، جعل سازی اور دروغ گوئی سے کام لیتے ہوئے کوئی پوسٹ بناتے اور پھیلاتے ہیں۔ بعض اوقات ایسی پوسٹس سنگین نوعیت کے واقعات کا بھی سبب بن جاتی ہیں، جیسے گذشتہ دنوں پاکستان کے ایک واقعے کی تصویر کے بھارت کے کسی شہر میں مسلمانوں کے ہندو لڑکے پر تشدد کے جھوٹ کے ساتھ پھیلایا گیا، جس پر فسادات بھڑک اٹھے تھے۔

ان ویب سائٹس میں ٹوئٹر سرفہرست ہے جن کے ذریعے خبریں اور معلومات تیزی سے دنیا بھر میں پھیلتی ہیں۔ چناں چہ اسی ویب سائٹ کے ذریعے جھوٹا مواد اور افواہیں بھی پھیلائی جاتی رہی ہیں۔

اب تک تو یہ ہوتا رہا، مگر اب بہت جلد ایک ’’لائی ڈیٹیکٹر‘‘ تکمیل کے مراحل میں ہے۔ یہ سوفٹ ویئر یا سسٹم ابھی تیاری کے مراحل میں ہے، اور اسے خاص طور پر سوشل نیٹ ورکنگ سائٹ ٹوئٹر کے لیے بنایا جارہا ہے۔ یہ سوفٹ ویئر ٹوئٹر پر دی جانے والی کسی پوسٹ کے اپ لوڈ ہونے سے پہلے ہی اس کا فوری طور پر تجزیہ کرکے اس کے بارے میں بتاسکے گا کہ اس میں جو کچھ دکھایا یا بیان کیا گیا ہے وہ سچ ہے یا جھوٹ پر مبنی۔ اس سوفٹ ویئر کے ذریعے یہ بھی معلوم کیا جائے گا کہ اس سوشل نیٹ ورکنگ سائٹ پر موجود کوئی اکاؤنٹ محض جعلی پوسٹس کرنے ہی کے لیے تو نہیں بنایا گیا۔

سوشل میڈیا کے حوالے سے بنائے جانے والے اس لائی ڈیٹیکٹر کی تخلیق کا مقصد حکومتی اداروں، خاص کر قانون نافذ کرنے والے اداروں اور ایمرجینسی سروسز کی مدد کرنا ہے۔

اس لائی ڈیٹیکٹر کے پروجیکٹ کی شروعات 2011میں برطانیہ میں ہونے والے فسادات کے پیش نظر ہوئی، جو Mark Duggan نامی ایک شخص کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت سے شروع ہوکر پورے ملک میں پھیل گئے تھے۔ ان فسادات کے پھیلنے کا بنیادی سبب سوشل میڈیا اور موبائل ڈیوائسز قرار پائی تھیں، اس لیے انھیں ’’بلیک بیری رائٹس‘‘ (BlackBerry riots) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ پروجیکٹ یونی ورسٹی آف واروک میں سوشل انفارمیٹکس کے پروفیسر روب پروکٹر سے متاثر ہے، جنھوں نے 2011ء میں لندن میں ہونے والے فسادات کے دوران ٹویٹر کے ذریعے پھیلنے والی افواہوں کا تجزیہ کیا تھا۔

لندن کے چڑیا گھر سے جانوروں کو آزاد کروانے اور ’’ لندن آئی‘‘ کو نذر آتش کرنے کی خبریں افواہیں ثابت ہوئی تھیں۔ پروکٹر کی تحقیق کے دوران یہ بات بھی سامنے آئی تھی کہ ٹوئٹر خود بھی افواہوں کے خاتمے کے لیے کام کرتی ہے۔ اس کام کے لیے باقاعدہ ملازمین موجود ہیں، مگر انسانوں کے مقابلے میں یہ سوفٹ ویئر انتہائی کم وقت میں یہ کام انجام دے سکے گا۔

اس سلسلے میں تحقیقی کام برطانیہ کی یونی ورسٹی آف شیفلڈ میں Dr Kalina Bontcheva کی زیرسربراہی جاری ہے۔ نئے ٹوئٹر کے حوالے سے تحقیقی کام میں برطانیہ کی پانچ جامعات اور چار مختلف کمپنیوں سے وابستہ محققین تندہی سے مصروفِ عمل ہیں۔ اس ضمن میں ٹوئٹر اور فیس بک سمیٹ مختلف سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا جارہا ہے۔


Dr Kalina Bontcheva کہتے ہیں کہ یہ سسٹم کسی پوسٹ کے ذرائع کی درجہ بندی کرتے ہوئے اس پوسٹ کی اتھارٹی تک رسائی حاصل کرے گا۔ یہ سسٹم نیوز آؤٹ لیٹس، صحافیوں، ماہرین، چشم دید گواہ اور ایسے اکاؤنٹ جو خودکار طریقے سے پوسٹ تشکیل دے دیتے ہیں، کی درجہ بندی کرکے پوسٹ کی حقیقت کا پتا لگائے گا۔

اس کے علاوہ یہ سسٹم جھوٹ پر مبنی پوسٹ دینے والے اکاؤنٹ کے بارے میں تحقیق اور تجزیہ کرکے یہ پتا لگائے گا کہ کیا یہ اکاؤنٹ حقیقی ہے یا صرف افواہیں پھیلانے کے لیے بنایا گیا ہے۔

یہ پروجیکٹ جسے افواہوں کے پھیلاؤ کے حوالے سے شہرت رکھنے والے یونانی دیومالائی کردارPheme کا نام دیا گیا ہے، امید کی جارہی ہے کہ اس کے ذریعے جھوٹ اور افواہوں پر مبنی پوسٹس کے تدارک کیا جاسکے گا۔

اس طرح یورپی ماہرین سوشل میڈیا خاص طور پر ’ٹوئٹر ورلڈ‘ کو جھوٹ سے پاک بنانے کے منصوبے پر کام کر رہے ہیں۔ Pheme کے نام سے زیر تکمیل یہ پروجیکٹ خبروں کے مآخذ، ٹوئٹس کے ذریعے ہونے والی بات چیت، اور ٹوئٹس میں استعمال کی جانے والی زبان کا تجزیہ کرتے ہوئے معلومات کے صحیح اور غلط ہونے میں تمیز کرسکے گا۔ شیفلڈ یونی ورسٹی میں ٹیکسٹ مائننگ کی ماہر Kalina Bontcheva کا کہنا ہے کہ یہ سوفٹ ویئر ہیجان انگیز زبان اور احساسات کی شناخت کرسکے گا جو عام طور پر لوگ مبالغہ آرائی کے دوران استعمال کرتے ہیں۔ محققین اس امر کا تعین کرنے کے لیے تاریخی معلومات کا بھی جائزہ لے رہے ہیں کہ ماضی میں ٹوئٹر کے ذریعے کون کون سی اہم افواہیں پھیلیں، اور ٹوئٹر کے کون سے یوزر ’اسپام بوٹ‘ ہوسکتے ہیں۔ اسپام بوٹ سے مراد ٹوئٹر کے وہ اکاؤنٹ ہیں جنھیں کوئی انسان نہیں بل کہ مشینیں آپریٹ کرتی ہیں۔

فسادات کے دوران یہ سوفٹ ویئر خبروں اور افواہوں میں فرق کرنے میں ممدومعاون ثابت ہوگا۔ اس کے علاوہ طبی معلومات کی صحت کی تصدیق اور مختلف بیماریوں سے متاثر ہونے والے علاقوں کے بارے میں بھی اس کے ذریعے درست معلومات یوزرز تک پہنچ سکیں گی۔ محققین کا کہنا ہے کہ اس سوفٹ ویئر کو زیادہ سے زیادہ مؤثر بنانے کی کوشش کی جائے گی۔

سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے، انھیں باہم مربوط کرنے اور ایک دوسرے کو سمجھنے میں مدد دینے کا ذریعہ ہے۔ یوں اس کی حیثیت محض تفریح کے ذریعے کی نہیں رہتی، بل کہ یہ دنیا کو پُرامن بنانے اور لوگوں کو ایک دوسرے سے مکالمے کے راستے پر لانے کا بھی وسیلہ ہے۔ تاہم ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو اس میڈیا کو نفرت اور تشدد کو ہوا دینے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ معاملہ سوشل ویب سائٹس کے ذریعے اشتعال انگیز مواد پھیلانے تک محدود نہیں ہے، بل کہ جعلی وڈیوز اور تصاویر کے ذریعے جھوٹ پر مبنی مواد پھیلایا جاتا اور متعلقہ فریقین کے مشتعل کیا جاتا ہے۔

خاص طور پر ایسے وقت میں جب کوئی ملک یا سماج کسی بھی قسم کے فسادات کا شکار ہو، اس قسم کا جھوٹا اور افواہوں پر مبنی مواد آگ اور بارود ثابت ہوتا ہے۔ چناں چہ اس ضمن میں سوشل ویب سائٹس کو، ٹوئٹر کے حوالے سے زیرتکمیل سوفٹ ویئر کی طرح، کوئی میکنیزم تیار کرنا ہوگا، جس کے ذریعے جھوٹ اور افواہوں کا سدباب کیا جاسکے اور انھیں پھیلنے سے روکا جاسکے۔
Sana Ghori
About the Author: Sana Ghori Read More Articles by Sana Ghori: 317 Articles with 281912 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.