بے وقت نکاح - حوا کی بیٹی کیلئے رحمت یا زحمت

نکاح ایک ایسا لفظ جس کے نتیجے میں لوگوں کے دل میں لڈو پھوٹنے لگتے ہیں اور خوشی محسوس ہوتی ہے لیکن یہ کیسا لفظ ہے جس نے اسے گھر کے چار دیواری تک محدود کردیا یہ وہ سوال تھا جسے ہر ثریا سوچتی رہتی تھی آج صبح سے ہی ثریا کا دل اداس تھا اس کی امی اوربہن بھائی شادی پر گئے ہوئے تھے اسی باعث اسے گھر کے کام کاج سے فراغت مل گئی اور کپڑے استری کرتے ہوئے اس کا دھیان اپنی معمولات زندگی پر چلا گیا - ثریا کادل آج بہت چاہ رہا تھا کہ اپنی سہیلی جو ان کے پرانے گھر کے ساتھ رہتی تھی کی شادی میں شرکت کیلئے جائے اس شادی میں سہیلی نے ثریا کو بھی مدعو کیا تھا اس کی امی نے ثریا کو ساتھ لے جانے کی حامی بھی بھری تھی کیونکہ اس کی سہیلی نے کہا تھا کہ میری شادی میں ضرور آنا ہے لیکن آج صبح ثریا کے منگیتر کا فون آگیا تو ثریا نے فون پر بتا دیا کہ وہ اپنی سہیلی کے گھر شادی میں شرکت کیلئے جارہی ہیں جس پر اس کے منگیتر نے غصے کا اظہار کیا اورکہا کہ کہیں پر جانے کی ضرورت نہیں - گھر ہی پر رہو جس کی وجہ سے اس کی ماں نے بھی ثریاکو ساتھ لے جانے سے منع کیا اورثریا گھر میں اپنی قسمت کے اس عجیب و غریب کھیل کو سوچ رہی تھی -

دو سال قبل میٹرک کی طالبہ ثریا اپنی امی کیساتھ شادی میں شرکت کیلئے گئی تھی جہاں پر اس کے امی کے رشتہ دار بھی آئے ہوئے تھے جہاں پر حسن نے اسے دیکھا اور پھر اپنی والدہ کو ثریا کے گھر رشتے کیلئے بھیج دیا - اس وقت وہ کالج میں ایڈمشن لے چکی تھی اور چھٹیوں کے بعد ثریا کی کلاسز شروع ہونا تھی لیکن اس دوران اس کی شادی کی بات چل گئی جس پر اس کی امی نے حسن کی والدہ سے کچھ وقت مانگا کہ وہ اس معاملے پر اپنے گھر والوں سے مشورہ کریگی ثریا کی امی تو رشتہ آنے پر خوش تھی کیونکہ حسن دبئی میں ملازمت کرتا تھا لیکن اسے یہ غم بھی تھا کہ ثریا کم عمر تھی اسی باعث ثریا کی امی نے اپنے شوہر سے بات کی جس پر ثریا کے والد نے سب کچھ اپنی بیوی کے ہاتھ میں دیتے ہوئے کہا کہ تم جانتی ہو میں مزدور پیشہ آدمی ہوںاگر اچھا رشتہ آتا ہے اور تم سمجھتی ہو کہ لڑکا بھی ٹھیک ہے تو ہاں کردو - جس پر ثریا کی امی تو خوش ہوگئی کیونکہ شوہر نے اسے اجازت دیدی لیکن پھر بھی اس نے ثریا کے نانی اور ماموں سے اس معاملے میں مشورہ مانگا جہاں پر ثریا کے نانی اور ماموں نے ثریا کے کم عمری میں شادی کی بات کو مسترد کردیا اور کہا کہ ابھی ثریا کی عمر شادی کی نہیں اور ثریا کی بات شادی نہیں کرنی لیکن نہ جانے کیوں ثریا کی امی اس بات کو نہیں سمجھی اور اس نے ثریا کے رشتے کی بات پر ہاں کردی-اس وقت حسن کی والدہ نے ثریا کی امی کو کہا تھا کہ ابھی صرف بات طے کرتے ہیں شادی بعد میں ہی ہوگی جس وقت ثریا چاہے گی-

ایک ہفتے بعد حسن کی امی بات طے کرنے آئی ثریاکے نانی اور ماموں اس رشتے پر ناراض تھے کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ ابھی ثریا کی عمر منگنی کی نہیں جس دن ثریا کی منگنی کی بات ہورہی تھی اس وقت ثریا بہت خوش تھی منگنی والے دن حسن کے گھر والوں نے منگنی میں نکاح کا تقاضا کیا اور منگنی کے دن ہی ثریا کا نکاح بھی حسن کیساتھ ہوگیا - جس میں یہ بھی طے پایا گیا کہ چونکہ نکاح ہوگیا ہے اس لئے اب تین ماہ کے دوران ثریا کی رخصتی بھی ہوگی - لیکن

منگنی کے دو سرے ہفتے جب ثریا کالج جانے کیلئے تیار ہورہی تھی اس دن حسن کے گھر والوں کا فون آیا کہ یہ ہماری بہو ہے اور ہمارے خاندان میں لڑکیاں کالج نہیں جاتی لہذا ثریا کالج نہیں جائیگی اس دن ثریا نے حسن سے فون پر بات کی کہ وہ کالج جانا چاہتی ہے لیکن حسن نے کہا کہ ابھی میری والد ہ کی بات مانو شادی کے بعد کالج میں داخلہ لے لینا سو ثریا نے طے شدہ داخلہ کے باوجود کالج جانا چھوڑ دیا اور اس کی امی نے حسن کے گھر جانے سے پہلے اس کی کندھوں پر گھر کی ذمہ داری بھی ڈال دی تاکہ ثریا کو شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑے اور پھرصبح سویرے سے رات تک گھر کے کام کاج نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا اور ثریا مشین کی طرح گھر میں کام کرتی رہی کیونکہ اس کی امی نے کہا تھا کہ حسن کے گھر جا کر ہماری ناک کٹوا مت دینا کہ اسے کچھ کھانا پکانا نہیں آتا -

کالج میں داخلے کے باوجود کلاسز نہ لینے پر ثریا کے سہیلیاں اسے کالج میں نہ آنے کا پوچھا کرتی تھی تو اس کا جواب بھی ثریا کے پاس نہیں ہوتا تھا نکاح کے تقریبا ایک ماہ بعد حسن کے دفتر میں کچھ مسئلہ ہوگیا جس کی وجہ سے اسے واپس فوری طور پر پہنچنے کا کہا گیا اور یوں حسن بھی ایک ماہ بعد دبئی اپنی ملازمت پر چلا گیا حسن نے فون پر ثریا کو یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ مقررہ تین ماہ میں واپس آئیگا جس کے بعد شادی ہوگی اور وہ کالج میں دوبارہ کلاسز لے سکیں گی اس دن ثریا بہت روئی تھی کہ اس کا منگیتر دبئی جارہا ہے نہ جانے کیوں وہ حسن کے دلاسوں پر یقین نہیں کررہی تھی لیکن مجبور تھی اور پھروہ حسن کے تین ماہ ختم نہ ہوئے ہر ماہ حسن کا فون آتا کہ انشاء اللہ جلد وہ آئیگا اور پھر تین ماہ ڈیڑھ سال میں بد ل گئے اور ثریا کی ماں اور گھر والے حسن کے دلاسوں کے انتظار میں رہ گئے- کہ وہ آئیگا اور پھر ثریا کی رخصتی ہوگی-

ثریا کی امی بھی ثریا کے سامنے شرمند ہ رہتی تھی کیونکہ ثریا کے معاملے میں اپنے خاندان کو بھی ناراض کیا تھا اورحسن کے گھر والے جو ہر مہینے آیا کرتے تھے حسن کی طرف سے بھیجے جانیوالے تحفے اور سامان بھی ثریا کیلئے لاتے لیکن ثریا کیلئے ان چیزوں کی کوئی اہمیت نہیں تھی کیونکہ نکاح کے بعد اس پر گھر کے دروازے سے نکلنا بند ہوگیا تھا کیونکہ اسے بتایا گیا تھا کہ جب شوہر چاہے تو اسے اجازت ہے وگرنہ نکاح کے بعد لڑکی کی اپنی مرضی نہیں ہوتی اور یوں ثریا ہر چیز سے کٹ ہو کر رہ گئی - اس کی سہیلیاں جو ہر وقت اس کے گھر آیا کرتی تھی اب انہوں نے بھی ثریا کے گھر آنا چھوڑ دیاکیونکہ وہ سمجھتی تھی کہ ثریا مغرور ہوگئی ہے اس لئے اپنے سہیلیوں کے گھر نہیں جاتی حالانکہ ثریا نکاح کی وجہ سے اپنے خاندان میں پائے جانیوالے اس روایت کی وجہ سے مجبور تھی اور پھر ثریا گھر ہی تک محدود رہ گئی اور اس کی زندگی اپنے گھر کی چار دیواری تک محدود رہ گی ڈیڑھ سال میں کئی مرتبہ خوشی عید کے مواقع آئے لیکن وہ گھر پر ہی رہی اب ثریا کے زندگی گھر کے چار دیواری میں ٹی وی دیکھنے اور گھر داری تک محدود تھی-

کپڑے جلنے کی بو نے ثریا کو چونکا دیا جس نے ثریا کو سوچوں کی دنیا سے نکال دیا اور جلدی سے استری ثریا نے اٹھا لی کیونکہ سوچوں میں گم ہونے کے بعد ثریا استری کرنا بھول گئی تھی اسی وجہ سے اس کے اپنے کپڑے جل گئے تھے ثریا نے اپنے استری سائیڈ پر رکھتے ہوئے آئینے میں اپنے آپ کو دیکھا تو اسے احساس ہوا کہ وہ رو رہی تھی نہ جانے کیوں شائد اسے کالج سے رہ جانے کا دکھ تھا شائد اسے اپنے ساتھ حسن کی بے حسی کا دکھ تھا یا اپنے گھر میں مقید ہونے کا دکھ تھا یا کم عمری میں نکاح کے اس بندھن کا دکھ تھا جس نے اسے خوشی کے بجائے گھر کی چار دیواری تک محدود کردیا ثریا نے جلدی سے آنسو پونچھ ڈالے اور گھر کی صفائی میں مصروف ہوگئی کیونکہ اس لفظ نے اور کچھ تو نہیں کیا تھا لیکن اسے پہلے سے ذمہ داریوں کا احساس دلایا تھا جس کیلئے وہ پوری طرح تیار بھی نہیں تھی-
 

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 589 Articles with 419332 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More