ڈینگی کا موسم پھر آ گیا

جدید ترین’’امریکی تحقیق‘‘سے پتہ چلا ہے کہ انسانوں کا خون چوس چوس کر کچھ ڈینگی سیاسی بھی ہو جاتے ہیں ۔اِس لیے ہم نے بھی اِن کو دو حصّوں یعنی سیاسی اور غیر سیاسی میں تقسیم کر دیا ہے۔غیر سیاسی ڈینگی تو وہ تھے جو دو سال پہلے لاہورپر حملہ آور ہوئے اور بڑے بڑوں کے چھکّے چھڑا دیئے۔ ہسپتال مریضوں سے بھرگئے اور حکیموں، نیم حکیموں کی بھی چاندی ہو گئی۔انہی نیم حکیموں میں سے کسی ستم ظریف نے یہ مشہورکر دیا کہ پپیتے کے پتے ابال کر پینے سے ڈینگی کا مرض ختم ہو جاتا ہے۔ہمارے گھر کی بیرونی دیوار کے ساتھ ایک پپیتے کا بڑا خوبصورت درخت تھا۔جونہی اُس بَد بخت نیم حکیم کی بات ہَوا کے دوش پر سوار ہو کر لاہور کے گلی کوچوں میں پہنچی ہمارے گھر کے سامنے دِن رات سوالیوں کی بھیڑ نظر آنے لگی ۔سولہ فٹ اونچے پپیتے کے پتے ایک ایک کرکے جھڑتے چلے گئے اور جذبہء خدمت سے سرشار پپیتا گنجا ہوتا چلا گیا۔آخر کار نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ پپیتے کی چاند پر محض چندبال(پتے)ہی باقی رہ گئے۔پپیتے کو دیکھ کر مجھے یوں محسوس ہوتا جیسے وہ فخر سے گرد ن اکڑائے یہ کہہ رہا ہوکہ ’’دیکھا ، حضرتِ انسان کو آخر کار میری اہمیت کااحساس ہو ہی گیا۔‘‘ اس کی مقبولیت کو دیکھ کر میں من ہی من میں خوف زدہ بھی تھی کہ اگر ہمارے رہبروں کے کانوں میں اس کی مقبولیت کی بھنک پڑ گئی تو پھراس کی خیر نہیں اور خصوصاََ خادمِ اعلیٰ صاحب جو ڈینگی کی ’’ڈینگوں‘‘پر پہلے ہی تاؤ کھائے بیٹھے ہیں کہیں سارا غصہ میرے پپیتے پر ہی نہ اتار دیں ۔ویسے بھی میاں برادران مقبولیت کے میدان میں کسی کو آگے نکلتا دیکھ ہی نہیں سکتے۔شاید اسی بنا پر وہ اقتدار کی ساری ’’ریوڑیاں‘‘ ہمیشہ آپس ہی میں بانٹ کھاتے ہیں۔اسی لیے میں اپنے پپیتے کی مقبولیت پر خوش ہونے کی بجائے خوفزدہ تھی ۔ ایک دن جب میں سو کر اٹھی تو ایک دردناک منظر میری آنکھوں کے سامنے تھا،سولہ فٹ کے پپیتے کی جگہ ایک آٹھ فٹ کا ڈنڈا کھڑا میرا مُنہ چڑا رہاتھا۔میں نے آنکھیں مل مل کر دیکھا لیکن ہونی کو بھلا کون ٹال سکتا ہے ۔رات کے کسی پہر کسی’’ٹارگٹ کلر‘‘ نے پپیتے کے آخری چند پتّے اتارنے کی خاطر اسے جھکانے کی کوشش کی لیکن غیرت مند پپیتے نے جھکنے پر ٹوٹنے کو ترجیح دی۔میں نے سوچا ، اب یہ کس کام کا ؟لیکن باقی رہ جانے والا پپیتا تو اب بھی اسی شان سے تن کر کھڑا تھا۔

ڈینگی کی دوسری قسم ہمیشہ نیم سیاسی ہی رہتی ہے اِس لیے وہ بیرونی طاقتوں کی ہدایات اور ’’فارن فنڈنگ‘‘پر زندہ رہتی ہے۔اُسے ایک مخصوص ’’سکرپٹ‘‘دیا جاتا ہے جِس سے وہ سرِ مُو اِدھر اُدھر نہیں ہوتی۔آجکل ’’سیاسی ڈینگی‘‘ ایک دفعہ پھر حملہ آور ہوچکاہے۔ یہ’’ ڈینگی ‘‘اگر لاہور تک محدود رہتا تو خادمِ اعلیٰ اِس سے دو،دو ہاتھ کر لیتے ۔اُنہوں نے تو اِس کے گرد گھیرا بھی ڈال رکھا تھا لیکن کچھ’’نیم حکیموں‘‘کے بہکاوے میں آکر اُسے کھُلا چھوڑ دیا گیا اوراب یہ نیم سیاسی ڈینگی پارلیمنٹ کے آس پاس بھنبھناتا پھر رہا ہے جِس سے حکومت ’’وَخت‘‘میں پڑی ہوئی ہے ۔ یہ بھی سائنسی تحقیق ہی ہے کہ ڈینگی کی صرف مادہ کاٹتی ہے ، اور نَر اُس کی حفاظت کرتا ہے ۔مادہ بھی دِن کی روشنی میں ہر گز نہیں کاٹتی بلکہ ملگجا اندھیرا ہونے کا انتظار کرتی ہے۔میں نے دیکھا تو نہیں لیکن سُنا ہے کہ لاہور سے ہجرت کرکے اسلام آباد پہنچنے والے ڈینگیوں میں ’’مادہ ڈینگیوں‘‘کی بہتات ہے اوریہ ساری ’’ڈینگیاں‘‘ہر روزشام کو اکٹھی ہو کر خوب ہلّا گلّا کرتی ہیں جو رات گئے تک جاری رہتا ہے۔اِن ڈینگیوں نے حکومت کی ناک میں دَم توکر ہی رکھا ہے لیکن اب قوم بھی’’اوازار‘‘ہو گئی ہے کیونکہ خون تو ہمارا ہی چوسا جا رہا ہے جو ایک ہزار ارب روپے سے زائد کا چوسا جا چکا ہے۔ حکمران کہتے ہیں کہ اُنہیں مادہ ڈینگیوں پر رحم آتا ہے اِس لیے وہ کوئی ایکشن نہیں کرتے لیکن حکومت تو’’لکھنویت مزاج‘‘کبھی نہ تھی ،پھر یہ ’’لکھنویت مزاجی‘‘کا لبادہ اوڑھ کر اِن ڈینگیوں کو’’لاتوں‘‘کی بجائے ’’باتوں‘‘سے رام کرنے کی سعی کیوں؟۔اُسے یاد رکھنا چاہیے کہ ’’لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانا کرتے‘‘اوراُسے بالآخر لاتوں پر آنا ہی پڑے گالیکن اُس وقت تک شاید بہت دیر ہو چکی ہو گی۔اگر حکومت نے ایکشن نہ کرنے کا مصمم ارادہ کر ہی لیا ہے تو پھر ’’منت تَرلا‘‘کرکے اِن ڈینگیوں سے جان چھڑالے۔اگر یہ حربہ بھی ناکام ہو جائے تو پھر حکمران خاموشی کی ’’بُکل‘‘مار کر گھر چلے جائیں،قوم اِن ڈینگیوں سے خود ہی نپٹ لے گی۔

سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے دَور میں تولمحوں میں ’’از خود نوٹس‘‘ہو جایا کرتے تھے اور فیصلے بھی دھڑا دھڑ آتے ۔تَب ہم سوچا کرتے تھے کہ یہ جو ہماری اعلیٰ عدلیہ ہر کام میں ہاتھ ڈالتی چلی جا رہی ہے ،کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمارے پپیتے کے پتوں کی طرح اِس کے پات بھی ایک ایک کرکے جھڑتے چلے جائیں اور یہ بھی ایک دِن ہمارے پپیتے کی طرح ’’ٹُنڈ مُنڈ‘‘ اکیلی کھڑی رہ جائے۔لیکن ہم غلط تھے ۔ہمیں آج افتخار محمد چودھری بُری طرح یاد آ رہے ہیں کیونکہ سب کچھ آنکھوں کے سامنے ہونے کے باوجود اعلیٰ عدلیہ تاریخ پہ تاریخ دیتی چلی جا رہی ہے۔ ’’ڈینگی متاثرین‘‘میں وہ خود بھی شامل ہے لیکن پھر بھی وعدۂ فردا پہ ٹالتی رہتی ہے ۔اگر افتخار محمد چودھری ہوتے تو تحقیق کہ وہ اب تک کوئی نہ کوئی دھماکہ کر چکے ہوتے لیکن شریف النفس چیف جسٹس ناصر الملک نے صرف یہی کہنے پر اکتفا کیا کہ ’’اگر ہماری بات نہ مانی گئی تو پھر ہم آرٹیکل 190کا سہارا لیں گے‘‘۔ قوم یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ اس ڈینگی کا علاج ہمارے ان ’’نیم حکیموں‘‘ کے پاس نہیں ،ہر گز نہیں کیونکہ ’’امپورٹ‘‘کیے گئے اِس وائرس سے آہنی ہاتھوں سے ہی نپٹا جا سکتا ہے جس کے لیے حکومت تیار نہیں ۔اس لیے اب اِس وائرس کا علاج عدل کی نشتر زنی سے ہی ممکن ہے ۔ ایسے میں قوم اُمید بھری نظروں سے اُس کی طرف ہی دیکھ رہی ہے کیونکہ یہی ایک ادارہ ایسا بچا ہے جو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر سکتا ہے اور جِس کے فیصلوں پر قوم کی غالب اکثریت آج بھی اعتماد کرتی ہے۔ اگر اب بھی عدل کے ایوانوں میں ہلچل نہ مچی تو پھرکوئی نہ کوئی طالع آزما ایک دفعہ پھر سینہ تانے کھڑا ہو گا اور اُسے دَس بار وردی میں منتخب کروانے والے بھی ہزاروں مِل جائیں گے۔

Prof Riffat Mazhar
About the Author: Prof Riffat Mazhar Read More Articles by Prof Riffat Mazhar: 863 Articles with 551659 views Prof Riffat Mazhar( University of Education Lahore)
Writter & Columnist at
Daily Naibaat/Daily Insaf

" پروفیسر رفعت مظہر کالمسٹ “روز نامہ نئی ب
.. View More