عذرِ گناہ بدَ تر از گناہ

بہت پُرانے دور کا واقعہ ہے کسی سلطنت پر ایک ایسا بادشاہ حکمران تھا جس میں جاہ وجلال اور شان و شوکت کُوٹ کُوٹ کر بھرا ہوا تھالیکن پھر بھی وہ اہل فن و حکمت کا قدر دان تھا ۔علماء اور حکماء بمعہ وزراء سب کی دانشمندانہ باتیں سنتا اور ان کی دانش و حکمت سے مستفید ہوتا ۔بادشاہ کو اہلِ فن سے عقیدت کے جذبات رکھتا تھا لہٰذا وہ روزانہ دربار لگاتا اور اہلِ علم و دانش سے گفتگو کرتا۔

ایک دن بھرے دربار میں کسی وزیر نے بادشاہ کے سامنے یہ کہاوت پیش کر دی کہ ’’عذرِ گناہ بد تراز گناہ‘‘ بادشاہ نے جب یہ کہاوت سُنی تو فوراً انکار کر دیا کہ یہ کہاوت غلط ہے ایسا نہیں ہو سکتا کہ گناہ کر کے اسکا ایسا سبب بیان کیا جائے جو کہ گناہ سے بھی بڑھ کرہو۔ وزیر جس نے یہ کہاوت بادشاہ کے دربار میں پیش کی تھی اس نے لاکھ مثالوں اور تدبیروں سے بادشاہ کو سمجھانے کی کوشش کی مگر بادشاہ نہ مانا ۔وزیر بھی کچھ اپنی ہٹ کا پکا اور حکمت والا تھا ۔بدستور اپنی بات پر قائم رہا لہٰذا نتیجے کے طور پر بادشاہ پر شہنشاہت اور جاہ و جلال غالب آ گئی اور اس نے مذکورہ وزیر کو حکم دیا کہ تین دن کے اندر اندر اس کہاوت کا عملی ثبوت میرے سامنے پیش کر دو ورنہ تمہاری گردن اُتار دی جائے گی۔

وزیر باتدبیر بڑا پچھتایا کہ حکمت کی دکان چمکاتے چمکاتے اپنی گردن پھنس گئی اب اس کہاوت کا عملی ثبوت کہاں سے لایا جائے تذبذب اور پریشانی کے عالم میں دو دن گزر گئے۔ اس نے متعدد لوگوں سے مدد مانگی ۔ کئی علم والوں سے رہنمائی حاصل کی ۔ کتابیں کھنگالیں۔ ہزار طریقے سوچے مگر ثبوت نہ حاصل کر سکا۔ تیسرے اور آخری دن اُس نے پریشانی کے عالم میں سوچا کہ گردن بچانے کی خاطر بادشاہ سے معافی مانگ لی جائے لہٰذا وہ بادشاہ کے محل جا پہنچا۔ بحیثیت وزیر وہ بادشاہ سے ملنے محل کے اندر جا کر بھی ملاقات کا اختیار رکھتا تھا جب وہ محل پہنچا تو اُسے معلوم ہوا کہ بادشاہ سلامت غسل فرمانے میں مصروف ہیں لہٰذا وہ اُس سے کچھ دیر بعد ملاقات فرمائیں گے وزیر کے سر پر موت کی تلوار لٹک رہی تھی ۔کچھ دیر وہ پریشانی اور تذبذب کے عالم میں کھڑا رہا اچانک وزیر کے ذہن میں ایک ترکیب آئی اور اُس نے غسل خانے کی جانب دوڑ لگادی اندر سے پانی گرنے کی آواز آ رہی تھی وزیر کو پتہ چل گیا کہ اندر بادشاہ نہا رہا ہے۔ اُس زمانے میں غُسل خانوں کے دروازے نہیں ہوا کرتے تھے بس ایک موٹا سا پردہ لگا ہوتا تھا جس کی اوٹ میں لوگ غُسل کیا کرتے تھے ۔وزیر نے غسل خانے کے پردے کے پاس پہنچ کر زور سے پردہ سرکایا۔ بادشاہ نے جو پردہ سرکتا دیکھا تو جلدی سے کھانسا تاکہ باہر جو بھی ہے اُسے پتہ چل جائے کہ اندر بادشاہ نہا رہا ہے اور وہ اپنی اس حرکت سے باز آجائے مگر وزیر باز نہ آیا اور ایک بار پھر مزید زور سے پردہ ہلایا۔ جواب میں بادشاہ نے اور زور سے کھانسی کی تاکہ باہر موجود شخص یہ حرکت نہ کرے مگر چند ہی لمحوں بعد وزیر نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور تیسری دفعہ خوب زور سے پکڑ کر پردہ زور زور سے ہلایا ۔بادشاہ کی برداشت جواب دے گئی ۔ اور وہ زور سے چلایا ۔ کون کمبخت ہے؟ پتہ نہیں ہے یہاں بادشاہ نہا رہا ہے ۔ وزیر نے یہ سُنا تو چلا کر بولا اوہ بادشاہ سلامت! یہ آپ ہیں معاف کیجئے گا میں یہ سمجھا کہ ملکہ عالیہ صاحبہ نہا رہی ہیں اور اتنا کہہ کر وہاں سے رفو چکر ہو گیا۔۔

بادشاہ نے جب وزیر کی زبان سے ملکہ کا نام سُنا تو اُس کے ہوش اُڑ گئے وہ غصے سے کھولتا ہوا باہر نکلا۔ شاہی لباس زیب تن کر کے دربار میں پہنچا اور وزیر کو دربار میں حاضر ہونے کا حکم دیا۔ غلاموں نے وزیر کو زنجیروں میں جکڑ کر دربار میں پیش کر دیا ۔ بادشاہ وزیر سے مخاطب ہوا اور بولا اے بدنصیب تجھے اتنی ہمت کیسے ہوئی کہ تو ہمارے حمام تک آ گیا اور پھر تو نے یہ کیا کہا کہ اندر ملکہ عالیہ صاحبہ نہار ہی ہیں؟ اگر ملکہ نہا رہی ہوتی تو کیا تو بلا جھجھک اندر گھس جاتا؟ اب تجھے سزا سے کوئی نہیں بچا سکتا وزیر نے زیرِ لب اپنی ہنسی دبائی اور پھر جان کی امان کی التجا کے بعد بولا بادشاہ سلامت! معاف کیجئے گا مجھ میں اتنی ہمت نہیں کہ میں یہ بدتمیزی کر سکوں ۔بات بس اتنی ہے کہ دراصل یہ سارا واقعہ میری اس کہاوت کا ثبوت تھا کہ ’’عذرِ گناہ بد تراز گناہ‘‘ ایک تو میں نے آپ کی تنہائی میں دخل اندازی کی اور یہ جان کر بھی کہ آپ نہا رہے ہیں میں نے پردہ سرکایا اور پھر جب آپ نے غصے کے عالم میں فرمایا کہ اندر بادشاہ نہار ہا ہے تو میں نے اپنی غلطی ماننے اور تسلیم کرنے کے بجائے اپنی اس غلطی کرنے کا عُذر غلطی کرنے سے بھی زیادہ بڑا پیش کیا کہ معذرت بادشاہ سلامت میں سمجھا کہ اندر ملکہ عالیہ نہا رہی ہیں اب آپ خود بتائیے کہ یہ کہاوت عذرِ گناہ بدتراز گناہ صحیح ہے یا غلط؟

بادشاہ نے وزیر کا جواب سنتے ہی ندامت سے سر جُھکالیا اپنی کم علمی پر نادم ہو ااور وزیر کو آزاد کر کے بیش بہا انعام سے نوازا۔۔

حکومت ِ وقت نے بھی اپنی جلد بازی میں پہلے فوج کو ثالثی کا کردار ادا کرنے کا کہا پھر اسے اپنی غلطی محسوس کرتے ہوئے فوراً بیان بدل دیا کہ فوج سے ثالثی کا کردار ادا کرنے کا نہیں کہا عذرِ گناہ بدتراز گناہ بار بار بیانات میں تبدیلی گناہ سے بڑھ کر گناہ ثابت ہو گا۔ جلدبازی میں دئیے گئے تبدیل شدہ بیانات حکومتِ وقت کا سفینہ ڈبونے کا سبب بن سکتا ہے۔
٭٭٭٭٭
Nusrat Sarfaraz
About the Author: Nusrat Sarfaraz Read More Articles by Nusrat Sarfaraz: 42 Articles with 44269 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.