جیسے عوام ویسے حکمران

یہ بات درست ہے کہ ہمارے حکمران بہت اچھے نہیں ہیں ،سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا حکمران عوام کی امنگوں کی ترجمانی کرتے ہیں یا نہیں؟جب ہم کسی امیدرار کوصرف اس لیے ووٹ دیتے ہیں کہ وہ ممبر اسمبلی بن کر ہمارے جائز ناجائزکاموں کو سپورٹ کرئے گا اور قانون کی گرفت سے بچائے گا تو پھر وہ حلقے کے ترقیاتی کام نہیں کرواتا یا ملک کی تراقی میں کوئی کردار ادا نہیں کرتا توہمیں کوئی حق نہیں پہنچتا کے ہم اسے برا بھلا کہیں۔کیونکہ ان کاموں کی اہلیت تو ہم نے اس میں ووٹ دینے سے پہلے دیکھی ہی نہیں تھی ۔جب ہم نااہل لوگوں کو منتخب کرکے اسمبلی بھیجتے ہیں توپھر یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ صرف حکمران ہی نااہل نہیں بلکہ عوام بھی (ڈیش ڈیش ) ہیں،حکمران کسی اور دنیا کی مخلوق نہیں بلکہ وہ بھی ہم میں سے ہی ہیں۔اس لیے صرف حکمرانوں کو بد عنوان اور کرپٹ کہنے یا ثابت کرنے سے عوام کی ذمہ داریاں کم نہیں ہوتی بلکہ ایسے حالات میں عوام کی ذمہ داریاں اور بھی بڑجاتی ہیں،بد قسمتی سے پچھلے 67سال سے پاکستانی عوام نے ہر حکمران کو غلط کہنے کے سوا کچھ نہیں کیا۔کتنی حیرت کی بات ہے کہ جن حکمرانوں کو پاکستانی عوام غلط کہتے ہیں وہی لوگ بار بار الیکشن جیت کر پاکستان پر حکومت کرتے ہیں ۔عوام جن کو غلط کہتے ہیں ووٹ بھی انھیں کو ہی دیتے ہیں ۔جب منتخب کرنے والوں کے قول وفعل میں تضاد ہو گا تو پھر کیسے ان کے منتخب کیے ہوئے لوگ سچے اور ایماندار ہوسکتے ہیں ۔ پھرکسی ملک یا کسی ریاست کو چلانے کے لیے صرف حکمران ہی توکاقی نہیں ہوتے بلکہ عوام پر بھی حکمرانوں سے زیادہ ذمہ داریاں عائد ہوتیں ہیں کرڑوں لوگوں پر چندحکمران تب ہی کامیابی سے حکومت کرسکتے ہیں جب وہ عوام کے صحیح ترجمان ہوں اورجہاں جمہوریت ہو وہاں صحیح ترجمان تلاش کرنا عوام ہی کے اختیار میں ہوتا ہے ۔پاکستان کے عوام اگرچہ اپنے ہی منتخب کئے حکمرانوں کو برا سمجھتے ہیں، برا سمجھنے کے باوجودمیری قوم کا حال یہ ہے کہ اپنی جیب میں انھیں برے حکمرانوں کے وزٹینگ کارڈ رکھنے میں فخر محسوس کرتے ہیں اور خاص طور پر سیاسی ورکر اُن کا تعلق چاہے کسی بھی پارٹی سے ہووہ اپنے آپکو خدا کی اعلیٰ مخلوق سمجھتے ہیں ۔جس کے پاس کسی mpaکارڈ ہووہ اپنے آپکوہی mpaسمجھتا ہے اوراس حساب سے اگرکسی کے پاس mnaکاکارڈہوتووہ بھی خود کوہیmnaسمجھتا ہے۔میرے ہم وطن جن حکمرانوں کوان کے دور حکومت میں بہت برا سمجھتے ہیں الیکشن کے دنوں میں انھیں کے نعرے لگاتے نظرآتے ہیں جن کو، کرپٹ ،چورلٹیرے اور غدارکہا ہوتا ہے الیکشن کے دنوں میں انہی لوگوں کے ساتھ تصویریں بنوا کر اپنی بیٹھک کی دیواروں پربڑے بڑے فریموں میں بڑے ہی فخر سے آوزاں کرتے ہیں۔ پاکستان میں اس شخص کوبڑا لیڈر سمجھا جاتا ہے جوچوروں ،ڈاکوں ،منشیات فروشوں ،کی پشت پناہی کرے اور جورشوت خوروں کو اچھی طرح ڈیل کرسکے اور جس کی برادری بڑی ہو ۔اس طرح بڑی برادریوں سے تعلق رکھنے والے کرپٹ سیاست دان ا لیکشن میں کامیاب ہوتے ہیں۔جس برادری کا ایک فرد mpaیاmnaبن جاتا وہ ساری برادری اپنی گاڑیوں پرmpaاورmnaلکھی نمبرپلیٹ لگاکراختیارات کا غلط استعمال کرتے ہیں ۔ان حالات میں ہر خاص وعام کی دلی خواہش ہے کے وہ کسی نہ کسی طرح سرکاری عہدے پر فائز ہوجاے تاکہ وہ اپنے آپ میں سرکار ہوجاے ۔ اقتدار کی بھوک ہمارے معاشرے کی رگوں میں اس قدر سرایت کر گئی ہے کہ قوم کا ہر فرداپنے آپکوراتوں رات بغیر محنت کئے بڑھا آدمی بنانا چاہتا ہے ہماری چھوٹی سی ننھی سی تمنایہ ہوتی ہے کہ ہم کم ازکم ملک کا، صدر،وزیراعظم،وزیراعلیٰ،یا پھر کم ازکم کوئی نا کوئی وزیربن سکیں ۔ اور یہ سارے عہدے ہم ملک وقوم کی خدمت کرنے کے لیے نہیں بلکہ اپنی شخصیت کا قد بڑا کرنے کے لیے حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔جس قوم کاہر فرد صرف اپنے لیے ہی سوچتا ہو اس کے حکمران کس طرح ملک و قوم سے مخلص ہوسکتے ہیں۔جس ملک کی عوام کے نزدیک سرکاری آفیسر بننے کا مقصد ملک و قوم کی ترقی کی بجائے اپنی عیاشیوں کے لیے خوب دولت کمانا ہو اس ملک میں صرف آفیسر شاہی ہی ترقی کرتی ہے ۔اس ملک کے حکمران عوام کوسستی روٹی ، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی صورت بھیک اور اس سے ملتی جلتی کئی اور سہولتیں تو دے سکتے ہیں لیکن باعزت روزگار ،مفت انصاف اور صحت و تعلیم کی سہولیات فراہم نہیں کرسکتے ۔میرے نزدیک زیادہ دکھ کی بات یہ ہے کہ وطن عزیز میں بسے والے لوگ ان بنیادی سہولتوں کی بجائے ووٹ بیچ کر چند روپوں کے عوض اپنے ضمیر کے ساتھ ساتھ اپنی آنے والی نسلوں کا بھی سودا سستے داموں کرنے میں خوشی محسوس کرتے ہیں ۔عوام اس قدر بے حس ہوچکے ہیں کہ پہلے اپنی مرضی سے خوشی خوشی اپنے آپ کو سستے داموں فروخت کرتے ہیں ۔بعد میں خریدار کوبراکہنے لگتے ہیں ۔جو لوگ ووٹ نہیں بیچتے وہ ان لوگوں کو اپنے ووٹ کا حق دار سمجھتے ہیں جن کا تعلق وڈیرا ,سرمایہ دار،جاگیرداریاٹاؤٹ قسم کے خاندان سے ہو،اکثرلوگوں کا خیال ہے کہ سیاست شریف آدمی کا کام نہیں ،سیاست تو بس بدمعاش قسم کے لوگوں کاکام ہے وہ اس لیے کہ ایسے لوگوں کے پاس دولت و جاگیر زیادہ ہوتی ہے ۔دس ،بیس گاڑیاں ہروقت ان کے گھر کے باہر کھڑی رہتی ہیں اور شریف آدمی کے پاس ایک بھی گاڑی نہیں ہوتی ،شریف آدمی کے بارے میں لوگ کہتے ہیں کہ وہ کیا سیاست کرے گا اس کو توکبھی تھانے نہیں دیکھا،اس کا تو خاندان بہت چھوٹا ہے ،وہ تو کسی سے لڑائی میں بھی نہیں جیت سکتا تو الیکشن کیا جیتے گا،اسے دے کر تو ووت ہی ضائع کرنے والی بات ہوگی۔اس کے مقابلے میں کھڑا امیدوارزیادہ مضبوط ہے اس کے پاس سرمایہ بھی ہے اوربرادری بھی بڑی ہے ۔تھانے ،کچری کے معاملات بھی اچھی طرح سمجھتاہے اور بجلی و گیس کے کام بھی کروا سکتا ہے ۔مختصر یہ کہ عوام کو تمام تر خوبیوں کامالک جاگیردار قسم کا امیدوار ہی نظر آتا ہے۔کچھ لو گ اس کی جاگیر سے متاثر ہوکراورکچھ پیشے لے کر اسے ووٹ دے دیتے ہیں ۔جس کے بعد ہوتا کیا ہے ۔وہ الیکشن جیت جاتا ہے ۔اب غور کریں جس نے الیکشن جیتنے کے لیے دو ،چارکروڑ یا اس بھی زیادہ خرچ کیا ہوگا وہ پانچ سال اپنے پیسے پورے کرے گا یا ملک وقوم کی خدمت ؟پھر جب عوام کا منتخب نمائندہ اپنے پیسے پورے کرنے کے لیے لوٹ مار کرتا ہے تو عوام اسے برا کہتے ہیں ۔بے شک لوٹ مار کرنے والا ملک وقوم کا دشمن ہے لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ اسے لوٹ مار کی اجازت کس نے دی ؟کس نے اسے اتنا طاقتور بنایا کے وہ سرعام کرپشن کرے ؟سب سے اہم سوال کہ وہ طاقت ہے کون سی؟میرے نزدیک وہ طاقت ہے عوام کے ووٹ کی اور اس حساب سے اسے لوٹ مار اور کرپشن کی اجازت عوام ہی نے دی ہوتی ہے۔سیاست دان ایسے ہی تو نہیں کہتے کہ طاقت کا سرچشمہ عوام ہے۔قارئین محترم ہم کتنے نادان ہیں اپنی طاقت کا استعمال اپنے ہی خلاف کرتے ہیں ۔ہمیں اس بات کا ہوش ہی نہیں کہ جس شخص کو ہم ووٹ دے رہے ہیں وہ اس کا اہل ہی نہیں ،اسے تو لوٹ مار اور کرپشن کے سوا کچھ آتا ہی نہیں ،وہ کس طرح غریب عوام کے مسائل حل کرے گا جب اس نے کبھی غربت دیکھی ہی نہیں ،کبھی غریبوں کے پاس بیٹھا ہی نہیں۔جولوگ منہ میں سونے چمچ لے کرپیدا ہوتے ہیں وہ کیا جانے کہ دو سیر آٹے کی قیمت کیا ہے ،جس کی ماں کو جہیز میں دو چار کلو سونا ملا ہو اسے کیا پتہ کہ غریب کی بیٹی صرف اس لیے گھر بیٹھی بوڑھوی ہوجاتی ہے کونکہ اس کے پاس جہیز دینے کے لیے پیسے نہیں ہوتے :جاری ہے
Imtiaz Ali Shakir
About the Author: Imtiaz Ali Shakir Read More Articles by Imtiaz Ali Shakir: 630 Articles with 511244 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.