نواز شریف کا وقت ختم ہوگیا…………؟

کیا نواز شریف نے فوج کو بینچ میں ڈال کر درست فیصلہ کیا ہے؟ سیاسی معاملات سیاسی سطح پر ہی حل کرنا چاہیے تھا۔ فوج کا وسیلہ آخری آپشن بھی نہیں ہونا چاہیے تھا۔ کیونکہ جب سیاست دان سیاسی معاملات میں فوج کو لایا جاتا ہے۔تو معاملات سیاستدانوں کے ہاتھوں سے نکل کر فوج کے ہاتھ چلے جاتے ہیں۔دھرنے والوں کے مطالبات کے آگے سرنگوں ہونا ہی تھا تو ان دھرنوں کے گوجرانوالہ پہنچنے سے پہلے ہوجاتے…… جس طرح سابق حکمران آصف علی زرداری نے انکے لانگ مارچ کے گوجرانوالہ کراس کرنے سے قبل ہی ججوں کو بحال کر کے خود کو اور جمہوریت کو محفوظ بنا لیا تھا۔

شائد آصف علی زرداری کی طرح میاں نواز شریف اور انکے رفقائے کار کو حالات کی سنگینی کاادراک نہیں …… چودہ اگست کو جب یہ انقلاب اور آزادی مارچ لاہور سے روانہ ہوئے تو لوگوں نے کہا کہ کچھ نہیں ہوگا ۔یہ مولوی اور ممی ڈیڈی بچے مری کی سیر وغیرہ کرکے واپس آجا ئیں گے۔لیکن میں نے ایسا سوچنا اور سمجھنے والوں پر طنز کرتے ہوئے لکھا تھا کہ معاملے کو اتنا آسان نہ سمجھا جائے۔ ماڈل ٹاون سانحہ ایسا ہی رونما نہیں ہوا……اس کے پیچھے ہوم ورک ہوا ہے۔دوسرا اسلام آباد میں داخل ہونے سے لیکر انہیں بتدریج آگے جانے دینا بھی حکمت عملی کا حصہ تھا۔

میری باتوں کی تصدیق نواز شریف کی آرمی چیف سے ملاقات میں اس وقت ہوگئی جب آرمی چیف نے وزیر اعظم نواز شریف سے ضامن اور ثالث بننے کے لیے سانحہ ماڈل ٹاون کی ایف آئی آر درج کرنے کی شرط رکھی……شائد اس وقت حالات کی سنگینی کا میاں نواز شریف کو اندازہ ہو گیا ہو۔ لیکن تیر کمان سے نکل چکا تھابقول میر تقی میر
میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب ……اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں

منتخب جمہوری حکومت کا ان حالات میں فوج کی طرف دیکھنا میری سمجھ سے بالاتر ہے۔کہ پارلیمنٹ انکے ساتھ کھڑی ہے۔ تمام سیاسی جماعتیں انکی پشت پر بھی نہیں شانے سے شانہ ملائے چل رہی ہیں……پھر کیا قیامت ٹوٹ پڑی تھی کہ میاں نواز شریف نے آرمی چیف کی دہلیز پر سجدہ ریز ہونا پسند کیا؟میری خیال میں مسلم لیگ سولو فلائیٹ کی بجائے سابق آصف علی زرداری کی مفاہمت کی سیاست کو آگے بڑھاتے تو اس قدر جلدی یہ دن نہ دیکھنے پڑتے؟ عمران خاں کو نائب وزیر اعظم بنا لیا جاتا اور پارلیمنٹ میں موجود دیگر جماعتوں (ماسوائے پیپلز پارٹی)کو اقتدار میں حصہ دار بنا لیا جاتا تو کسی کو کسی کے کھیل میں استعمال ہونے کی نوبت یا ضرورت ہی نہ پڑتی۔

میں بھی کیا پاگل ہوں بھلا ایسا کرنے کا شریف برادران کو مشورہ کون دیتا؟مسلم لیگ نواز کے اندر ایک بھی اعتزاز احسن نہیں ہے، سبھی تو جی حضورئیے جمع ہیں۔ سب نے یک زبان انہیں مشورہ دیا ہوگا کہ ’’ میاں صاحب گھبرانے اور ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے آنے دو انہیں اسلام آباد بس ایک ہفتہ میں تھک ہار کر واپس گھروں کی راہ لینے پر مجبور ہوجائیں گے۔اگر نواز شریف کی قربت میں ایک بھی اعتزاز احسن یا میرے جیسا شخص موجود ہوتا تو انہیں بتاتا کہ میاں صاحب! عمران کے چند حلقوں میں ووٹوں کی تصدیق کے مطالبات تسلیم کر لیے جائیں……یا انہیں مشورہ دیا جاتا کہ میاں صاحب آپ وزارت عظمی کا خیال دل و دماغ سے نکال دیں اور کسی اور رہنما کو اس منصب پر بٹھا دیں اور خود ایوان صدر میں گاو تکیہ لگالیں۔

سانحہ ماڈل ٹاون کی ایف آئی آر کے اندراج کو آسان نہیں لیا جانا چاہئیے کیونکہ اب ایف آئی آر میں نامزد وزراصاحبان ملک سے بھی باہر نہیں جا سکیں گے۔میں تو اسے بھی حکمرانوں نے انتہا کی حماقت کی کہ جونہی ایف آئی آر کا مطالبہ سامنے آیا تھا تو انہیں بلا چوں چرا ایف آئی آر درج کرکے اسکی کاپی درخواست دھندگان کے حوالے کردینی چاہیئے تھی۔ اور خود عدالت سے رجوع کرکے ریلیف حاصل کرتے۔ مگر ایسا نہیں کیا گیا۔اس معاملے کو بے جا طول دینے کا بھی فیصلہ کوئی اچھا اقدام نہیں قرار دیا جا سکتا۔

اب آرمی چیف کے حوالے سے عمران اور قادری کی ملاقات کو متنازعہ بنانے کی ایک کوشش کا آغاز ہو گیا ہے۔ اگر فوج کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آر کی جانب سے وضاخت آ گئی کہ دھرنے والوں سے ملاقات کرنے کی ہدایت وزیر اعظم نے براہ راست کی تھی تو پھر وزیر اعظم کی حثیت پر سوالیہ نشان کھڑا ہو جائے گا۔جس سے فوج اور پارلیمنٹ کے آمنے سامنے کھڑے ہونے کے امکانات پیدا ہو نے کے خدشات کا احتمال ہے۔ دھرنے والے اسمبلی فلور پر وزیر داخلہ چودہری نثار علی خاں اور وزیر اعظم نواز شریف کے بیان کو جھوٹ قرار دیتے ہوئے ہے مطالبہ کردیا ہے کہ جھوٹا شخص وزیر اعظم کے عہدے پر فائز نہیں رہ سکتا……پہلے امید پیدا ہو چکی تھی کہ وزیر اعظم اور انکے بھائی کے مستعفی ہونے سے ملک غیر آئینی اقدامات سے محفوظ رہے گا مگر اب ایسا لگتا ہے کہ کچھ نہ کچھ انہونی ہوکر رہے گی۔وزیر اعظم نے ایسا کیوں کیا؟ میرا خیال ہے کہ وزیر اعظم نے سیاسی قوتوں کے دباو میں آ کر یوٹرن لیا ہے۔ جو انہیں مشکلات سے نکالنے کی بجائے مذید مشکلات کا شکار کرنے کا باعث بن رہا ہے۔

اب اگر حکومت اسلام آباد کو دھرنے والوں سے واگزار کرانے کے لیے طاقت کا استعمال کرنے کا راستہ منتخب کرتی ہے تو تب بھی خون خرابہ ہوگا۔اور اگر مستعفی ہوکر نئے انتخابات کرانے کا اعلان کرتی ہے تو بھی حکمرانوں کی ’’سدھروں اور آرزووں ‘‘کا خون خرابہ ہوگا۔ کھیل اب نواز شریف کے ہاتھ سے نکل چکی ہے۔اب تھرڈ ایمپائر فیصلہ کریگا…… مجھے خدشہ ہے کہ لانگ مارچ اور آزادی مارچ کہیں لیفٹ رائیٹ مارچ میں نہ بدل جائے۔اور ملک ایکبار پھر آمریت کے سیاہ بادلوں کے منحوس سائے میں آئے۔
Anwer Abbas Anwer
About the Author: Anwer Abbas Anwer Read More Articles by Anwer Abbas Anwer: 203 Articles with 143955 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.