لیڈیز فرسٹ

وہ دونوں ایک دوسرے کے عشق میں بری طرح مبتلا تھے لیکن ان دونوں کے والدین ان کی شادی کے بے حد خلاف تھے۔ وجہ نہ جانے کیا تھی۔ لیکن ان دونوں کا گھر بسانے کا خواب پورا ہوتا نہ دکھائی دے رہا تھا۔ آخر دونوں نے بیک وقت خودکشی کا ارادہ کیا۔ و ہ دونوں پہاڑ کی چوٹی پر پہنچے۔ راوی لکھتا ہے ، مقررہ پہاڑ کی چوٹی پر پہنچنے کے بعد لڑکے پر خوف اور رقت نے غلبہ پا لیا ۔ اس کے لئے اپنی محبوبہ کی خودکشی کا منظر دیکھنا ممکن نہ رہا ۔ اسے ڈر تھا کہ پہاڑ کی چوٹی سے کھائی تک گرنے کے درمیانی عقفے کے اندوہناک منظر اور اسی چیخیں سن کر وہ خودکشی سے پہلے ہی مر جائے گا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ پہلے چھلانگ لگائے گا۔ لڑکا آنکھیں بند کرکے کھائی میں کود گیا۔ لڑکی کے لئے اس کی آخری حالت قابلِ دید اور قابلِ رحم تھی اپنے دوست کی آخری چیخوں کے بعد اس کا وہاں کھڑا رہنا مشکل ہو گیا۔ اس نے اپنے قدم پیچھے کی طرف اٹھائے اور اپنی جان گنوانے کے بجائے واپس چل دی۔ اور والدین نے جہاں کہا شادی کر لی اور اپنا گھر بسا لیا۔ سیانوں کے لئے وہ واقعہ باعث عبرت تھا انہوں نے فیصلہ کیا کہ اب جو بھی کام ہوگا عورت کو اس پر پہلے عمل کر نا ہوگا۔ سیانوں کا یہ مشاھدہ اس قدر مقبول ہوا کہ آج ہر طرف لیڈیز فرسٹ والا مقولہ قابلِ عمل ہے۔

آج کل لیڈیز فرسٹ کا مقولہ پوری طرح جناب عزت مآب طاہر القادری اور کپتان صاحب نے اپنے اصول کا حصہ بنا رکھا ہے۔ اسلام آباد کی شاہراہ دستور جو آج کل شاہراہ آزادی اور شاہراہ انقلاب میں تبدیل ہو چکی ہے پر دور دور تک خواتین ہی خواتین نظر آتی ہیں۔ انقلاب کی شیدائی اور آزادی نسواں کی حامی خواتین فرنٹ لائن پر ناچتی گاتی دھمال ڈالتی وکٹری کے نشان بناتی خواتین ۔ انقلابی خواتین کا جوش و جذبہ بھی کچھ کم نہیں۔ اپنے پیرومرشد کی ایک آواز ہر لبیک کہنے والی ان خواتین نے چھوٹے چھوٹے بچے گود میں اٹھا رکھے ہیں، سروں پر پارٹی لپیٹے، ہاتھوں میں انقلابی رنگوں کی چوڑیاں سجائے ہفتوں سے کھلے آسمان تلے بیٹھی ہیں۔ یہ تمام خواتین لیڈیز فرسٹ والے مقولے پر عمل کرتے ہوئے فرنٹ لائن پر بیٹھی ہیں۔ لیڈیز فرسٹ کا یہ اصول عموماً معاشرے میں یہ سمجھ کر بولا جاتا ہے کہ اس میں خواتین کا احترام پیشِ نظر ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ میل ڈومیننٹ اس معاشرے میں عورت کے احترام کا جو حال ہے وہ سب پر عیاں ہے۔

عموماً یہ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ غریب خواتین جو گاؤں دیہاتوں میں رہتی ہیں یا جاگیرداری نظام سے وابستہ ہوں ۔ وہ صنفِ کرخت کی طر ف سے حقوق کی پامالی کا شکار زیادہ ہوتی ہیں جب کہ شہروں اور پڑھے لکھے علاقوں میں رہنے والی پڑھی لکھی خواتین بہت دبنگ ہوتی ہیں اور اپنے حقوق کے لئے لڑتی ہیں، مردوں کے شانہ بشانہ چلتی ہیں۔ آزادانہ اظہارِ خیال کے لئے ان کو سوچنا نہیں پڑتا وہ جابز کرتی ہیں، گاڑی چلاتی ہیں، اونچے اونچے عہدوں پر بینکوں، اسکولوں اور ہاسپٹلز میں فائز ہیں۔

خواتین ائیر ہوسٹس سے لے کر ا سمبلی کی نشستوں تک بر اجمان ہیں۔ ہوائی جہاز اْڑانے سے لے کر کھیل کے میدانوں تک کتنی ہی خواتین اور لڑائیاں ہیں جنہوں نے اپنی مہارت کا لوہا منوایا ہے ۔ مارننگ شو کی ہوسٹس سے لے کر اینکر پر سنز سے لے کر تیز تیز بولتی ہیں۔ خواتین بلاشبہ اب یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ انہوں نے ملکی معیشت سے لے کراسمبلی کی نشستوں تک مردوں کے شانہ بشانہ کام کیا ہے اور یہ خواتین کا حق ہے کہ وہ یہ کام کریں اور ان نشستوں، پوسٹوں اور عہدوں تک پہنچنے کے لئے وہ کن کن مشکل مرحلوں سے گزری ہوں گی، یہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔

یہ معاشرہ میل ڈومننٹ ہے لہذا اسکا اظہار جاء بجاء ہر جگہ کیا جاتا ہے۔ چاہے وہ سَتی کی جاہلانہ رسم ہو ، ونی ہو، کاروکاری ہو یا پھر انتہائی ماڈرن ایجوکیٹڈ خاتون کے لئے sexual harassment ہو۔ ہر جگہ استعمال صنف ِ نازک کا ہی کیا جاتا ہے جیسا کہ آج کل دھرنوں اور آزادی مارچ میں کیا جارہا ہے۔ چہار اطراف عورتیں ہی عورتیں نظر آتی ہیں فرنٹ لائن پر بھیجنا ہو تو ان کا استعمال کیا جاتا ہے۔ طرح طرح کے گانے گا کر اسطرح سے ہاتھ نچا نچا کر اور دھمال ڈال کر کون سی آزادی کا مظاہرہ جاری ہے کون سا انقلاب لایا جارہا ہے پوری دنیا یہ تماشے ٹیلی ویژن اسکرینوں کے ذریعے دیکھ رہی ہے۔ سختیاں جھیل رہی ہیں۔ ننھی بچیاں روڈ کنارے سونے کے لئے مجبور کر دی گئیں ہیں اور جو دہ صنفِ کرخت اپنی دل ربا تقریروں سے ان کو جوش دلا رہے ہیں، ان کے اپنے بچوں مزے سے بیرون ملک ہیں تعلیم حاصل کر رہے اور نرم و گرم بستروں میں سو رہے ہیں۔

اگر لیڈیز فرسٹ والا مقولہ اتنا ہی صائب ہے تو اب تمام صنف کرخت کو پیچھے چلا جانا چاہیئے اور اعنان حکومت دھرنے اور آزادی مارچ کے تمام تر فیصلے کرنے کا اختیار صنف نازک کو سونپ دینا چاہیئے۔ یقینا اس بے یقینی کی کیفیت کا کوئی نہ کوئی حل نکل آئے گا۔ صنف کرخت اپنی اپنی اناوں کی ٹوپیاں پہلے معمولی معمولی باتوں کو مونچھ کا مسئلہ اتنا پیچیدہ نہیں ہوتا جتنا کہ رائی کا پہاڑ بنا دیا جاتا ہے۔ کوئی اپنے خول سے باہر نکلنے کو تیا ر نہیں ہے۔ ہر کوئی اپنی ضد کا غلام ہے اکثر توڑ دیتی ہے جبکہ لچک راستہ فراہم کرتی ہے اور اس تمام منظر نامے میں ہر طرف سے صرف اکڑ ہی اکڑ ہے کوئی لچک نہیں دکھائی جارہی۔ خدارا ہوش کیے ناخن لیں اور جلد از جلد مسئلے کا کوئی حل تلاش کر لیں تاکہ آئینی اور قانونی دائرے میں رہتے ہوئے پائیدار امن کا حصول ممکن ہو سکے ورنہ پھر لیڈیز فرسٹ پر آگئیں تو مسئلہ کا حل فوراً نکل آئے گا۔
یہ بات نئی نسل کو سمجھانا پڑے گی
عریانی کبھی بھی ثقافت نہیں ہوتی
سر آنکھوں پر ہم اسکو بٹھا لیتے ہیں اکثر
جس کے کسی وعدے میں صداقت نہیں ہوتی
Nusrat Sarfaraz
About the Author: Nusrat Sarfaraz Read More Articles by Nusrat Sarfaraz: 42 Articles with 44612 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.