چلی ہے رسم کے کوئی نہ سر اٹھا کر چلے۔۔

اس ملک کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ یہاں انصاف ملتا نہیں ٗبِکتا ہے۔خریدا جاتا ہے۔آپ چاہے جتنے بھی مظلوم ہوں ٗ جتنا بھی ظلم ہوا ہو ٗآپ مارے مارے پھریں گے مگر انصاف نہیں ملے گا۔آپکو انصاف خریدنا پڑے گا۔پہلے ظلم سہو۔پھر چپ کر کے بیٹھ جاؤ یا مر جاؤ۔بس یہ ہی ہے ایک عام آدمی کا مقدر اس ملک میں ۔وہ ملک جسے خدا کے اس دین کے نام پر بنایا گیا تھا ٗجس میں عدل و انصاف ایک بنیادی ستون ہے۔موجودہ ملکی صورتحال میں آپ اپنے سب سیاسی غیر سیاسی تعلقات کو بالائے طاق رکھیں ٗاور لمحے بھر کو سوچیں کہ جس جگہ آج منہاج القرآن کے کارکن ان ۴۱ لاشوں کے انصاف کے لیے بیٹھے ہیں ۔وہاں ہو سکتا ہے کل کو آپکی ماں بیٹھی ہو ٗآپکے بے گناہ خون کے انصاف کیلئے۔بات منہاج القرآن کی نہیں ۔بات طاہر القادری کی بھی نہیں ۔بات حق کی ہے۔۴۱ لاشوں سے ٗ۱۴ خاندانوں پر ظلم نہیں ہوا۔یہ صرف اس ظلم کے انصاف کی بات نہیں ۔یہ اس روایت کو ختم کرنے کی کوشش ہے ٗجسے بادشاہ سلامت اور ان کے خاندان نے کبھی سپریم کورٹ پر حملہ کر کے ٗکبھی بیکری والوں کو پٹوا کر ٗکبھی گلو بٹوں کی پرورش کر کے ٗ اور اب ۴۱ لاشیں گرا کر جلا بخشی۔یہ اس اسلام آباد میں بیٹھے لوگ اس روایت کیخلاف سر اٹھا رہے ہیں کہ جو کرنا ہے کر لو ٗقاتل تو دندناتے پھریں گے۔طاہر القادری وہاں اپنے لیے نہیں بیٹھا ۷۱ دنوں سے ٗوہ میرے اور آپکے لیے ہے۔ان ۴۱ خاندانوں کے لیے ہے۔ کیونکہ پے در پے وار کر کہ اسی ظلم کی ریت کو پختہ کیا جا رہا ہے ۔آپ نہیں جانتے ٗ یا جانتے ہیں مگر بولتے نہیں۔اگر اب ان ظالم ہاتھوں کو نہ روکا گیا تو آنے والے وقت میں ایک دن خون میرا اور آپکا بھی ہوگا۔اور ناحق ہوگا۔اب آپ کسی اور کیلئے آواز مت اٹھائیے ٗکل کو کوئی آپ کیلئے بھی نہیں اٹھائے گا۔وہ لوگ وہ جو وہاں دن رات ٗدھوپ بارش میں صرف انصاف کیلئے بیٹھے ہیں وہ یہ نہیں جانتے کہ جب ظالم صاحبِ اقتدار بھی ہو تو انصاف نہیں ملتا۔ انہیں بھی نہیں ملے گا۔کوئی جائے۔۔انہیں اٹھائے ۔بتائے ۔۔کہ جس انصاف کو وہ مانگنے آئے ہیں وہ اس دنیا میں نہیں ملنا۔ان خداؤں سے نہیں ملنا۔وہ چلے جائیں ۔خدا کی بارگاہ میں مانگ لینا انصاف۔مگر یہاں ۔۔یہاں اپنی جان بھی جائے گی۔بادشاہ سلامت لوگوں کو خریدنا جانتے ہیں ٗاور جو بکتے نہیں انہیں مار دینا جانتے ہیں ۔۔کوئی ان کو سمجھائے کہ انصاف اس ملک میں نہیں ہے۔۔عورتوں کے اوپر گولیاں چلا کر ٗ لوگوں کے منہ پہ فائر کر کے ٗپھر گلو بٹ جیسے ٹاؤٹ استعمال کر ٗپھر انہیں جیل سے رہا کروا کر ایک ہی پیغام عام کیا جاتا ہے ،کر لو جو کرنا ہے۔۔غریب کیا کرے بیچارہ اس ملک میں ۔مر ہی سکتا ہے۔مر ہی جاتا ہے۔نا جرم معلوم۔۔نہ وجہء قتل۔۔نہ سزا سنائی۔۔نہ شنوائی۔۔بس مار ڈالا۔۔بس مار ڈالو۔۔

یہ دونوں ٗ عمران خان اور طاہر القادری جہاں کھڑے ہیں وہ وہاں تک نہیں جاتے تھے۔مگر انہیں مجبور کیا گیا۔طاہر القادری اپنی جائزFIRکے لیے دو ماہ اور عمران خان نے ۴۱ ماہ انتظار کیا۔دونوں نے انصاف مانگا۔نہیں ملا۔ دونوں در در پھرے ٗہر دروازہ کھٹکھٹایا۔عمران خان کی کہانی بھی مختلف نہیں ۔وہ بھی انصاف مانگنے کھڑا ہے۔حق مانگنے کھڑا ہے۔انصاف کے نام پر بننے والی تحریکِ انصاف کو جب کہیں انصاف نہ ملا تو یہ دونوں عوام کو منصف بنا کر سڑکوں پہ نکل آئے۔انہوں نے بہت کوشش کی کہ ان کی سن لی جائے ٗمگر ایونوں میں بیٹھے فرعونوں نے ان کی شنوائی نہیں ہونے دی۔ ٹھیک کہتے ہیں ’’لوگ وکیل کرتے ہے ٗمیاں جی سیدھا جج ہی کر لیتے ہیں ۔‘‘ بریف کیس والے جج کیا انصاف دیں گے ؟انصاف تبھی تو بیچا جاتا ہے۔یہ نظام ۔۔یہ بڑا ظالم نظام ہے۔یہ کچھ نہیں دیتا۔۔اس نظام نے جہانگیر ترین کے ۲ کروڑ لیکر بھی انصاف نہیں دیا۔۔اس نظام نے حامد زمان کے ۷۵ لاکھ لیکر بھی انصاف نہیں دیا۔اس نظام نے طاہر القادری کے کندھے پر ۴۱ لاشیں ڈال کر بھی اسے انصاف نہیں دیا۔یہ نظام انصاف کو ایک عام آدمی کی پہنچ سے بہت دور لے جا کر ٗJusticeکو Luxuryبنا دیتا ہے ٗ جو صرف امیر کے حصے میں آتی ہے۔یہ اسی نظام کو بدلنے چلے تھے ٗمگر آج خون میں نہائے ہیں۔اسی نظام کو بدلنے آج پورا پاکستان سڑکوں پر ہے۔یہ نظام آپکے سامنے خون کر کے ٗآپکا حق چھین کر ٗآپکی جیتی ہوئی بازی میں آپکو مات دے کر ٗپھر سینہ تان کر کہتا ہے نہیں ملنا انصاف۔کرو جو کرنا ہے۔جن کے ساتھ ظلم ہوتا ہے نا۔وہ کسی سے ڈرتے نہیں ہیں۔جن کے دامن بے داغ ہوتے ہیں وہ بھی نہیں ڈرتے۔اسی لیے خان اور طاہرالقادری نڈر ہیں ۔جن کے ہاتھوں پہ خون نہیں ہوتا وہ جدہ جا کر نہیں بیٹھتے۔جن کے دامن پاک اور ضمیر زندہ ہوتے ہیں وہ لوگوں کے ٗاپنے حق کیلئے سڑکوں پر نکلتے ہیں ۔اس ظلم کی گندی بستی میں ان دنوں نے ہر ممکن راستہ اپنایا۔لیکن ان کی نہیں سنی گئی۔ ہر دروازہ کھٹکھٹایا۔۔مگر نہیں سنی گئی۔۔ ہر ممکن کوشش کی کہ ہم وہ واپس لیں جو ہم سے چھینا گیا ہے۔مگر نہیں ملا۔۔تب کسی نے نہیں سنی۔یہ آخری رستہ تھا۔یہ آخری منزل تھی ٗجب اس راہ پہ نکلے تو تب کہا گیا کہ بات سنی جائے گی۔۔مگر اب توبہ کا وقت ختم ہو چکا ہے۔۔اب وقتِ حساب ہے۔یہاں سے آگے کچھ نہیں ہے۔وہ یہاں لڑنے نہیں آئے ٗ جھوٹ اور دھاندلی پر قائم ہونے والی اس جھوٹی بادشاہت کو مٹانے آئے ہیں ٗ وہ حق لینے آئے ہیں جو اس ہجوم میں کھڑے ہر شخص نے انہیں دیا تھا ٗ صرف اپنا وہ حق واپس چاہتے ہیں ۔۔مگر اب ایسا نہیں ہوگا۔ اب وقتِ حساب آ پہنچا ہے۔اب عام آدمی جانتا ہے کہ اس کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔جو چھینا گیا تھا ٗوہ واپس لینے کیلئے ہر پاکستانی آج عمران خان کے ساتھ اور نہتے خون کے بدلے کے لیے طاہر القادری کے ساتھ کھڑا ہے۔

جب وہاں ۷۱ دن بعد بھی انصاف نہیں دیا گیا۔اور وہ لوگ وہاں سے جانے کو تیا ر بھی نہیں تو بادشاہ سلامت ٗجو ساری زندگی اس ملک کی فوج کی مخالفت کرتے رہے ٗان کا Defence Ministerقومی اسمبلی میں کھڑا ہو کر فوج کو لعن طعن کرتا ہے ٗاسی فوج کے پاؤں پڑ جاتے ہیں کہ مصالحت کروائی جائے ۔جب وہ مصالحت کی کوشش کرتے ہیں تو بادشاہ سلامت بھری ا سمبلی میں کیسے ڈنکے کی چوٹ پر جھوٹ بولتے ہیں کہ ہم نے فوج سے کوئی درخواست کی ہی نہیں۔۔اس بات کے جواب میں عاصم باجوہ کی TWEETمیاں صاحب کے منہ پر جوتا رسید کرتی ہے۔۔اس عزت افزائی پر بھی چین نہیں آتا تو جناب حواریء داخلہ آکر فرماتے ہیں کہ فوج نے بیان میری مرضی سے جاری کیا۔اس کے جواب میں ISPRایک بار بھر ٹھنڈی جوتی ان کے چہرے پر یہ کہ کے رسید کرتا ہے کہ فوج آرمی چیف کے علاوہ کسی سے مشاورت نہیں کرتی۔اور جنابِ منتخب وزیرِ اعظم میں غیرت اتنی کہ جھوٹ پہ جھوٹ۔۔اور شرم نام کو نہیں ۔بھرے بازار میں رسوا ہوتے ہیں اور ڈھٹائی ایسی کہ مانتے بھی نہیں ۔شرم تو ویسے بھی ہے ہی نہیں ۔ہوتی تو ۴۱ لاشیں گرانے کے بعد اب اسلام آباد کو فلسطین نہ بنایا جاتا۔نہتے لوگوں پر گولیاں نہ چلائی جاتیں ۔ظلم یہ نہیں کہ آپ ظالم ہیں ۔ظلم یہ ہے کہ آپ جھوٹے ہیں اور سب جانتے ہوئے بھی ڈٹے ہوئے ہیں ۔ڈھٹائی سے۔۔ ظلِ الہیٰ بندے مارنا آسان ہے۔لاشیں گرانا بھی آسان ہے۔مگر حضور لاشیں اٹھانا کیسا لگتا ہے یہ آپ تب جانیں گے جب آپ حمزہ اور سلیمان کی لاشیں اٹھائیں گے۔۔بادشاہ سلامت۔۔جب انسان خود کو خدا سمجھتا ہے نا تو نہیں سمجھ لگتی۔۔تب ایسے ہی انسان لوگوں کو مارتا ہے ٗجانیں لیتا ہے۔۔مگر فرعون کو بھی ایک خاص وقت تک مہلت ملی تھی۔آپکی بھی مہلت ہے۔توبہ کا وقت ملے گا نہ موقع۔بس رسی کھینچنے کی ضرورت ہے۔۔اور پاکستان کو انتظار ہے اس وقت کا جب ربِ کعبہ کو جلال آئے گا۔۔جب یہ نہتے ٗ نا حق خون آپکے گلے پڑیں گے۔۔جب مظلوم کا خون چیخے گا۔۔حضور مجھے اس گھڑی کا انتظار ہے بس۔۔جب ڈوری کھینچی جائی گی۔۔جب تخت گرائے جائیں گے۔۔جب تاج اچھالے جائیں گے۔۔

Fahad Malik
About the Author: Fahad Malik Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.