وجود زن

ا فسوس کہ یہ حقیقت تسلیم کر لینے کے با و جود کہ و جود زن سے ہی کا ئنا ت میں ر نگ بھرا جا سکتا ہے معا شرے میں تر قی و خو شحا لی کا بو ل با لا کیا جا سکتا ہے ا سی کے ہا تھ میں کسی قوم یا معا شر ے کا مستقبل ہے کسی قوم کا مستقبل سنوار نے کے لئیے جتنی ذم داری ایک مرد کے کند ھوں پر عا ئد ہو تی ہے ا تنی ہی ذمہ داری ا یک عورت پر بھی عا ئد ہو تی ہے اور اس میں بھی کو ئی شک نہیں ہے کہ ہر دور میں مر دانہ طا قت نے صنف نا زک کی صلا حیتوں کا استحصال کیا اس کے با و جود عورت نے معا شرے کی اصلا ح کے لیئے اپنے وجو د اور روح کی قر نا نیاں د ینے سے ا نکا ر نہیں کیا کیو نکہ عورت کبھی بھی ا پنی قر با نییوں کا سر ٹفیکیٹ نہی ما نگتی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مگر ا فسوس کہ دورحا ضر کی عورت لبرل ازم اور بو لڈ نیس کے نا م پر خو د ا پنی صلا حیتوں کا استحصا ل کر ر ہی ہے روز برو ز وہ ا پنی ذمہ دا ر یوں کو بھول کر مر دوں کے شا نہ بشا نہ کھڑی ہو نے کے نا م پر چکی پیسنے وا لی عورت چکی میں پستی چلی جا ر ہی ہے آج کی عورت ا پنا مقام پیدا کر نے کے بجا ئے مر دانہ روپ دھار کر اور مردوں کی ذمہ دا ریوں کو ا پنا کر نہ صرف ا پنے او پر ظلم کر ر ہی ہے بلکہ معا شرے کو بے راہ روی کی جا نب را غب کر نے میں بھی ا ہم کر دار ادا کر ر ہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خدا نخوا ستہ میرا مقصد اس د نیا کی تما م عورتوں کو اس صف میں شا مل کر نا نہیں ہے ا للّٰہ کے حکم اور کچھ نیک اور سمجھ دار لو گوں کی بدو لت خوا تین ابھی بھی راہ راست پر ہیں مگر خو ف اس با ت کا ہے کہ ماڈرن ازم ، سیکولر ازم اور لبرل ازم کے نام پر آزادی کا ڈھو نگ جس قدر ر چا یا جا رہا ہے پا کستان جیسے اسلامی معا شرے میں بھی تیزی سے ا یسی خوا تین کی شرح بڑ حتی جا ر ہی ہے جو ا سلام جیسے جدید نظر ئیے کو نا سمجھتے ہو ئے غیر ملکی این جیوز کے جال میں پھنستی جا ر ہی ہیں ا کثر غیر ملکی ا ین جیوز سوشل ورک کے نام پر نہ صرف ان پا ر سا خوا تین کو ور غلا ر ہی ہیں بلکہ چا در اور چار دیواری کیتقدس کو بھی پا مال کر ر ہی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چو دہ سو سال پہلے کی بات ہے عورت کو بیچا اور خر یدا جا سکتا تھا اسے تمام ر شتوں سے محروم کر د یا گیا تھا وہ ا نسان کے بجا ئے عو رت رہ گئی تھی محض ا یک عورتجسے استعما ل کیا جا تا تھا اور پھینک د یا جا تا تھا جسکی حیثیت ا یک ٹشو پیپر کی رہ گئی تھی جسے معا شرے میں کو ئی مقام حا صل نہ تھا نہ اس کا کو ئی گھر ہو تا تھا نہ جا ئیداد میں حصہ دار ٹھرا یا جا تا تھا و حشیانہ تشدد کیا جاتا اور جا نوروں سے بد تر سلو ک کیا جا تا بیٹی کو ظا لم ر سوم کے ہا تھوں مجبور ہو کر پیدا ہو تے ہی د فن کر د یا جا تا گو کہ ز ندہ ر ہنے کا حق بھی چھین لیا گیا تھا یہ جہا لت کا دور تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خدا کو اس کے حال پر ر حم آ گیا اوع ر حمت للعا لمین آپﷺ د نیا میں تشر یف لے آ ئے آپﷺ نے جہاں جہا لت کی دوسری بے شمار ر سموں کا خا تمہ کیا و ہیں عورت کو چار عظیم ر شتو ں سے نوا زا ماں کے قد موں تلے جنت رکھ کر ا سے وہ اعزاز بخشا جو د نیا کا کو ئی قا نون و مذ ہب نہ دے سکا تھا بہنوں کو بھا ئیوں کی عزت قرار د یا اور بیٹی سے محبت و شفقت کا بر تا و کر نے کی تلقین کی بیو ی کے حقوق ادا کر نا وا جب ہو ا اور جا ئیداد میں ہر طرف سے عورت کو حصّہ د لا کر مر دوں کے مسا وی لا کھڑا کیا عو رت کو ا ظہار رائے کا حق د یا علم حا صل کع نا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فر ض قرار دیا ا سے جا نو روں سے انسان یعنی ا شرف المخلو ق کے ر تبے پر فا ئز کیا اسکے علا وہ بے شمار ا حسا نات ہیں جو گنوا ئے نہیں جا سکتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سوال یہ پیدا ہو تا ہے کیا یہ سب فر سودہ خیا لات ہیں یا آج کے مغر بی افکارو خیا لات جو کہ جو کہ عورت کے با رے میں ا کثر سیمینارز اور کا نفر نسوں میں پیش کئیے جا تے ہیں جو ا یک عو رت کو مکمل تحفظ د ینے سے قا صر ہیں سوال یہ بھی پیدا ہو تا ہے کہ ملک میں لبرل ازم کے نام پر جو آ زادی کی فضا میڈیا کی تشہیر اور غیر ملکی این جیوز کی بھر پور کو ششوں سے پو رے ملک میں کسی و با ئی مر ض کی طر ح پھیل ر ہی ہے اسکی با قا ئدہ روک تھام کے لئیے کوئی تشہیر کیوں نہیں چلا ئی جا ر ہی کس وقت کا انتظار کیا جا رہا ہے جب پا نی سر سے گزر جا ئے گا -

جنا ب قا ر ئین ا کرا م یہ میرے ذا تی خیا لات نہی ہیں ا یک زما نہ گواہ ہے کہ قصور ان معصوم عورتوں کا نہیں ہے جو تما م تر سر گر میو ں اور سا زشوں سے نا واقف ہو تی ہیں قصور ان مر دوں کا ہے جن کو ان پر قوام بنا کر بھیجا گیا ہیجن پر ان کے تحفظ کی ذمہ داری عا ئد ہو تی ہے ا کثر د یکھا جا تا ہے کہ مو جا دہ حا لات کو د یکھتے ہو ئے کچھ غیر ت مند مرد خوا تین کے گھروں کو قید خا نے بنا کر رکھ دیتے ہیں جو کہ کسی طرح بھی مو زوں حل نہیں ہے ا نسان ایک متوازن ما حول میں ر ہنے کا عادی ہو تا ہے اور اسی میں معا شرے کی تر قی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جیسا کہ مغر بی معا شرہ پو ری طرح جہا لت کی لپیٹ میں آ تا جا رہا ہے اور ہما ری ما ئیں بہنیں اسکی ا ند ھی تقلید کر تے ہو ئے خود ایک اند ھے گڑ ھے میں گر تی جا ر ہی ہیں خدا را اسلام کا مطا لعہ تو کیجیئے اور ا س کو صحیع معنوں میں سمجھنے کے بعد یہ فیصلہ کیجیے کہ آ زادی لبرلازم ما ڈرن ازم اور آ زادی کیا ہے ہمیں کون بے و قوف بنا ر ہا ہے اور ہم کس کے نقش قدم پر چل نکلے ہیں خدا را اسکا فیصلہ ا پنے دل پر ہا تھ رکھ کر بہت ا نصاف سے کیجیے گا اور فیصلہ کر نے کے بعد ا آپس ا پنے مذ ہب اور تہذ یب و تمدن کو ا ختیار کر لیجیے کیو نکہ یہ ہی تر قی اور آ سا نی کا را ستہ ہے ا پنا مقام پیدا کیجیے ا ور اس کا ئنات میں ا پنے وجود سے رنگ بھر د یجیے اور ثا بت کر د یں کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وجود زن سے ہے تصو یر کا ئنات میں ر نگ

naila rani riasat ali
About the Author: naila rani riasat ali Read More Articles by naila rani riasat ali: 104 Articles with 150350 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.