خیر گزری

حالات نے ایسی روش اختیار کی ہے کہ اب اِس مملکت میں کسی بھی کام یا واقعے کی غایت تلاش کرنا بُھوسے میں سُوئی تلاش کرنے جیسا ہے۔ یہ بات تو اب قصۂ پارینہ ہے کہ کچھ بھی سمجھ میں کیوں نہیں آتا۔ حال یہ ہے کہ اب یہ بھی سمجھ میں نہیں آتا کہ کچھ بھی سمجھ میں کیوں نہیں آتا!

اﷲ کپتان کا بھلا کرے کہ اُنہوں نے اپنے شاندار اور یادگار دھرنے کی غایت بھی بیان کردی تاکہ کسی کے دل میں ایسا ویسا کوئی گمان بھی نہ رہے اور سَند بھی رہے۔ موصوف کو نیا پاکستان بنانے کی جلدی ہے۔ بہت سے لوگ اِس عُجلت پسندی کو دیکھ کر خلجان میں مبتلا ہیں کہ ع
…… یہ ہنگامہ اے خُدا کیا ہے!

تحریک انصاف کے چیئرمین نے قدم قدم پر شدید عُجلت کا مظاہرہ کرکے ایسا تاثر دیا ہے جیسے اُن کی ٹرین چُھوٹی جارہی ہے۔ مخالفین کہتے ہیں کہ عمران خان اب عمر کی ساتویں دہائی میں ہیں۔ 62 سال کے ہوچکے ہں۔ میاں صاحب تو بھرپور جوانی میں بھی وزارتِ عظمٰی کے مزے لُوٹ چکے ہیں۔ عمران خان اب تک اِس چوکھٹ کو چُھو بھی نہیں سکے ہیں۔ سیدھی سی بات ہے، عمر کے گزرنے کا احساس ہر انسان کو بہت شِدّت سے ہوتا ہے۔ عمران خان کو بھی ہوتا ہوگا، آخر وہ بھی انسان ہیں۔ اور ہوتا ہوگا کیا، ہو رہا ہے۔

ہم سمیت بہت سے لوگوں کا اندازہ درست ہوکر بھی غلط نکلا۔ اِس میں کیا شک ہے کہ عمران خان کو ڈھلتی عمر کا پوری شِدّت سے احساس ہے۔ عام خیال یہ تھا کہ وہ وزارتِ عظمٰی کی دیوی کے چرنوں میں سَر رکھنے کے لیے بے تاب ہیں۔ اب پتا چلا کہ جس دیوی کی اُنہیں تلاش ہے وہ اُسے وہ من مندر میں بسانا چاہتے ہیں۔ مطلب یہ کہ اُنہیں گھر والی کی تلاش ہے۔ اُنہوں نے اپنے جاں نثاروں اور ’’جاں نثارنیوں‘‘ سے کہا ہے کہ نیا پاکستان جلد بناؤ تاکہ شادی کرسکوں!

لیجیے، کھودا پہاڑ اور نکلی گھر والی۔ پُوچھنے والے یہ پُوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ جناب، جیون ساتھی کی تلاش تھی تو میرج بیورو کا رُخ کرتے۔ پوری قوم کو مخمصے کا شکار کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ کئی دوستوں نے ایس ایم ایس کے ذریعے ہمیں یاد دلایا ہے کہ جنہیں کوئی نکیل نہ ڈالے وہ پورے معاشرے کو نکیل ڈالتے پھرتے ہیں۔ جن سیاست دانوں کی زندگی میں بیوی نہیں وہ قوم کا ناک میں دم کئے ہوئے ہیں۔ یعنی سوچ یہ ہے کہ جب ہم سُکون سے نہیں تو قوم کیوں سُکون کا سانس لے! ہم نہیں مانتے تھے مگر بھلا ہو عمران خان کا کہ اُنہوں نے دل کی بات بیان کرکے ہماری مشکل آسان کردی۔

مرزا تنقید بیگ کسی زمانے میں سیاست کو آزمانا چاہتے تھے یعنی سیاست میں اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے خواہش مند تھے۔ یہ تب کی بات ہے جب وہ شیخ رشید تھے یعنی کنوارے تھے۔ پھر یہ ہوا کہ اُن کی شادی ہوئی اور وہ گھر کی سیاست کے گڑھے میں دفن ہوکر رہ گئے۔ اب وہ سیاست دانوں کی دَھجّیاں اُڑاکر دل کی بھڑاس نکالتے ہیں۔ جن سیاست دانوں نے اپنے گھر بسانے سے زیادہ قوم کو اُجاڑنے کی قسم کھا رکھی ہے اُن سے مرزا کو شدید چِڑ ہے۔ کہتے ہیں اگر یہ سب کنوارے یا رنڈوے شادی کرلیں تو قوم کی جان چُھوٹے۔ سیاسی دُکان بند کرکے جب اِنہیں پرچون کی دکانوں کے چکر لگانے پڑیں گے تب آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہوگا۔

عمران خان کے دھرنے میں احتجاج کے نام پر جو کچھ ہوتا رہا ہے وہ مایوں اور مہندی کی تقریب کے ہَلّے گُلّے سے خاصا ملتا جلتا ہے۔ عمران خان کو ہم نے اِس احتجاجی میلے میں بیشتر اوقات دولھا کے رنگ ڈھنگ میں دیکھا ہے۔ وہ گلے میں رنگین چادر اُسی طرح ڈالے رہتے ہیں جس طور مہندی کی تقریب میں دولھا ڈالتے ہیں۔ تحریک انصاف کے جواں سال کارکن اسٹیج کے سامنے اُسی طور بھنگڑا ڈال رہے تھے اور لُڈّی ’’پا‘‘ رہے تھے جیسے اپنے قائد کی مہندی میں شرکت کر رہے ہوں۔ اُن کا جوش و جذبہ دیکھ کر اور لُڈّی ’’پانے‘‘ کے انداز سے عمران خان بھی بھید پاگئے اور دل کی بات زبان پر لے آئے۔ قائد کے دل میں بارود کا جو ڈھیر تھا اُسے محض چنگاری درکار تھی۔ اور کارکنوں نے تو اپنے قائد کے لیے لپکتے جھپکتے شعلوں کا اہتمام کر ڈالا تھا!

مرزا کا شِکوہ یہ ہے کہ عمران خان نئے پاکستان اور حقیقی آزادی کی خاطر برپا کئے جانے والے رونق میلے میں اپنی شادی کی بات نہیں کرنی چاہیے تھے۔ اُن کا خیال ہے کہ اِس سے کارکنوں کا مورال گرے گا۔ ہم نے پوچھا اِس میں مورال گرنے والی بات کیا ہے؟ مرزا نے بھرپور دانش مندانہ جواب عنایت کیا۔ ’’دیکھو میاں! ایک طرف تو عمران خان قوم کو آزادی دلانے کی بات کر رہے ہیں۔ اور دوسری طرف خود دوبارہ ایک عورت کی ’غلامی‘ اختیار کرنے کا عندیہ دے رہے ہیں۔ ہزاروں نوجوانوں کو گھروں سے نکال کر وہ حکومت کا کھونٹا اُکھاڑنے کی بات کر رہے ہیں اور خود ایک بار پھر گھریلو کھونٹے سے بندھنے کے خواہش مند ہیں۔ یہ تو کُھلا تضاد ہے۔‘‘

ہم نے عرض کیا کہ عمران خان نے شادی کا ارادہ ظاہر کرکے دُشمنوں کے منہ بند کرنے کی کوشش کی ہے جو یہ پُوچھتے نہیں تھک رہے کہ اسلام آباد کے ریڈ زون میں اِس دھاچوکڑی کا آخر مقصد کیا ہے۔ اب ’’مقصد‘‘ سامنے آگیا ہے۔ لوگ سوچ سوچ کر پریشان ہو رہے تھے کہ اِس بحر کی تہہ سے آخر اُچھلے گا کیا۔ چلیے، کچھ تو اُچھلا۔ خان صاحب اِتنا لاؤ لشکر لے کر اسلام آباد تک آہی گئے ہیں تو کیا خالی ہاتھ لَوٹ جائیں۔ ناصرؔ کاظمی نے ایسی ہی کسی حالت کے لیے کہا ہے ؂
کچھ یادگارِ شہرِ ستمگر ہی لے چلیں
آئے ہیں اِس گلی میں تو پتھر ہی لے چلیں!

اِسی غزل میں ناصرؔ کاظمی نے شبِ فراق پر ترس کھاتے ہوئے اُسے گھر لے جانے کی بات بھی کہی ہے۔ اُس بات سے عمران خان متفق نہیں۔ وہ اِس بار شبِ وصال کو گھر لے جانے کے فراق میں ہیں!

مرزا کا خیال ہے کہ عمران کی طرح شیخ رشید بھی شادی کرلیں تو قوم کا بھلا ہوجائے اور یہ لوگ قوم کو معافی دے کر گھر کی چار دیواری میں سُکون سے رہیں۔ تحریک انصاف کے کارکنوں کو بھی تحریک ملے گی کہ گھر بساکر بیویوں کو خوش رکھیں اور قوم کو شکایت کا موقع نہ دیں۔ دھرنوں میں ویسے ہی ہزاروں باراتی ہر وقت موجود رہتے ہیں۔ ایسے میں اگر سو ڈیڑھ سو جوڑے ازواجی بندھن میں بندھ جائیں تو کیا ہرج ہے؟ پہلے ذرا غلامی کا مزا چکھ لیں تو آزادی کی قدر و قیمت کا اندازہ ہوگا اور زیادہ پُرجوش ہوکر آزادی کے لیے مارچ کرسکیں گے، دھرنے دے سکیں گے!

قوم خوش نصیب ہے کہ نیا پاکستان بنانے کا خیال عمران خان کے دل میں آیا۔ نیا پاکستان بنانے کے ارادے کی کوکھ سے بالآخر عمران خان کی یہ خواہش ہویدا ہوئی کہ وہ شادی کرنا چاہتے ہیں، گھر بسانے کے خواہش مند ہیں۔ ہم سوچ رہے ہیں اگر کہیں غلام مصطفٰی کھر نے نیا پاکستان بنانے کا سوچا ہوتا تو کیا دھماچوکڑی مچتی۔ عمران خانی فارمولے کے تحت تو وہ کم و بیش آٹھ دس نئے پاکستان بناکر سُکون کا سانس لیتے!

ہماری دُعا ہے کہ عمران خان جلد از جلد اپنا گھر دوبارہ بسائیں تاکہ ہم بھی (ضمیرؔ جعفری مرحوم سے معذرت کے ساتھ) کہہ سکیں۔ ؂
میرا لیڈر ہوگیا بیوی کا جس ہنگام سے
وہ بھی آرام سے اور میں بھی ہوں آرام سے!

M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 480787 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More