’لوو جہاد‘ کی نہیں، فکر جنسی فساد کی کیجئے

یہ خبر ابھی قارئین کے ذہنوں میں تازہ ہوگی کہ کانپور میں ایک کروڑ پتی تاجر کی نوجوان بیوی کے قتل کی گتھی جب کھلی تو پتہ چلا کہ شوہرکسی اور کے عشق میں مبتلا تھا، اس لئے اغوا کا ڈرامہ کرکے بیوی کو مروادیا۔ کنٹرول لائن سے خبرآئی ہے کہ ایک برگیڈیر نے اپنے ایک ماتحت سے بدفعلی کا ارتکاب کیا۔ فوج کے ایک کرنل پر الزام لگا کہ اس نے برسرعام دوسرے افسر کی بیوی پر ہاتھ ڈالدیا۔ چار دیگر خواتین نے بھی اس پرچھیڑ خانی کا الزام لگایا ۔ اتراکھنڈ میں ایک 27سالہ نوجوان نے ایک 20سالہ لڑکی کو اس لئے پتھر مارمار کر ہلاک کردیا کہ دونوں میں ناجائز تعلقات تھے اور اب نوجوان اس لڑکی سے شادی کرنے پرآمادہ نہیں تھا۔ ہریانہ کے روہتک میں دو ہونہار طالبات نے منچلوں کی چھیڑ چھاڑ سے عاجز آکر خودکشی کرلی۔ حالیہ دنوں میں جج صاحبان پر نازیبا جنسی حرکتوں کے معاملے سامنے آئے ہیں۔

جنسی ہوس زدگی کے الزام ان لوگوں پر بھی لگے ہیں جو پاکباز ہونے کا دعوا کرتے ہیں۔ مثلاً تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ آرایس ایس کے سابق ضلع پرچارک سنیل جوشی کا قتل اس لئے ہوا کہ وہ اپنی جنسی ہوس مٹانے کے لئے خوبرو سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکرپر دباؤڈال رہا تھا۔ آرایس ایس کے ایک کارکن سونو گرگ پر ایک لڑکے ساتھ بدفعلی کا الزام لگا اور پولیس میں رپورٹ درج ہوئی۔(دینگ بھاسکر 4؍اگست) ۔ الہ آباد کے ایک مندر کے پجاری رام پرکاش داس کو ایک سات سالہ لڑکے سے بدفعلی کے معاملے میں گرفتار کیا گیا ہے۔اتنا ہی نہیں،دھرم کے نام پر پاکھنڈ کرنے والے نجانے کتنے آسارام بے نقاب ہوچکے ہیں۔

اس طرح کی خبریں روز آتی ہیں۔ ان سے ظاہر ہے کہ عام سے لیکر خاص تک، ہرطبقہ میں جنس زدگی کاابال ہے۔معاشرے کے اس بگاڑ پر فکر و تشویش کے بجائے ہندستانی کلچر کی خودساختہ محافظ آرایس ایس نے ’ لووجہاد‘ کا شوشہ چھوڑا ہے اور جھوٹ یہ پھیلایا جارہا ہے کہ مسلمان منصوبہ بند طریقے سے ہندولڑکیوں کو پھنساتے ہیں اور مذہب بدلوا کر ان سے شادی رچالیتے ہیں۔ رانچی میں ایک ایسی ہی خبر پر وبال مچا۔ میرٹھ میں ایک عورت کی ایک مدرس پر الزام تراشی کومسلسل اچھالاجارہا ہے، حالانکہ یہ ظاہر ہوچکا ہے کہ وہ جھوٹی ہے اورخود کسی کے ساتھ پھنسی ہوئی تھی۔ مگر اس طرح کے واقعات میں بھاجپا قیادت کو اتنی کشش نظر آتی ہے کو فوراً اس کو انتخابی موضوع بنالیا جاتا ہے ۔حالانکہ جنسی بے راہ روی کا یہ طوفان ایک سماجی مسئلہ ہے جس کو حل کرنے کے لئے مل جل کر کوشش ہونی چاہئے اور اس کے اسباب اور محرکات کے خلاف مہم چلائی جانی چاہئے۔مگراس کے بجائے اس طرح کے واقعات کو فرقہ ورانہ رنگ دیکر سماج میں خوف وہراس پھیلایا جارہا ہے اوراکثریتی طبقہ میں عدم تحفظ کا احساس پیدا کیا جارہا ہے جو نہایت خطرناک بات ہے ۔

ہرچند کہ ہمیں موہن جی بھاگوت کا یہ نظریہ تسلیم نہیں کہ سرزمین ہند پر آباد سبھی مذہبی طبقوں کی کلچر ایک ہے، لیکن اتنا ضرور ہے کہ بدچلنوں، چور، اچکوں، بدمعاشوں ، زناکاروں اور بدکاروں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ہے، ان سب کا کلچر ایک ہوتا ہے، چاہے نام کچھ بھی کیوں نہ ہو۔ بدکارکسی کو اس کا دین ،دھرم یا ذات برادری دیکھ کر نشانہ نہیں بناتا، بلکہ جو بھی پھنس جاتا ہے، اسی کو رگڑ دیتا ہے۔

اس میں شک نہیں کہ بعض ہندولڑکیاں مسلمان لڑکوں کی طرف اور مسلم گھروں کی بعض لڑکیاں غیرمسلم لڑکوں کی طرف راغب ہوجاتی ہیں۔ یہ دنیا بھر میں ہورہا ہے۔ مگر مختلف مذاہب کے لڑکے لڑکیوں میں اس جنسی کشش میں کوئی سازش محض سنگھیوں کے ذہن کی اختراع ہے، جس کا مقصد فرقہ ورانہ منافرت پھیلا کر سیاسی فائدہ اٹھانا ہے۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ جو لوگ’ لوو جہاد‘ کی اصطلاح ایجاد کرکے فرقہ پرستی پھیلانے کی مہم چلارہے ہیں وہ خود بین مذہبی شادی اور یکساں سول کوڈ کے پرزور وکیل ہیں۔ سول میرج ایکٹ دراصل یکساں سول کوڈ کا ہی ایک ٹرایل کوڈ ہے، جس میں ہر بالغ لڑکے لڑکی کوبلاقیدذات و مذہب اپنی مرضی سے شادی کرنے کی آزادی ہے۔’لووجہاد‘ کا شورمچانے والوں کے اپنے لیڈروں کی روش بھی بین مذہبی شادی کی تائید کرتی ہے۔ بھاجپا کے دونوں ’مسلم ‘لیڈر شاہ نواز حسین اور مختارعباس نقوی کی بیویاں غیر مسلم ہیں۔مرلی منوہر جوشی اوراشوک سنگھل کے داماد بھی مسلمان ہیں۔ آڈوانی جی کی ایک قریبی عزیزہ نے بھی مسلمان سے شادی کی اور آڈوانی جی کو اس پرکوئی اعتراض نہیں ہوا۔اسمرتی ایرانی کے شوہر بھی غیر ہندو ہیں۔ اب اگر کچھ اور ہندو لڑکیاں غیر ہندوؤں سے شادی کرتی ہیں تو اس پر واویلا کیوں؟ اس پر تو سنگھ پریوار کوخوش ہونا چاہئے کہ غیر ہندو گھرانوں میں ہندوکلچر پہنچ رہی ہے۔

ہرچند کہ ہم بین مذہبی شادی کے موئد نہیں الا یہ کہ حدود شریعت میں ہو، لیکن جس معاشرے میں جہیز دینے سے بچنے کے لئے دختر کشی عام ہو، اس میں اگرکوئی لڑکی بغیر جہیز لئے اپنی مرضی سے شادی کرکے خالی ہاتھ گھر سے چلی جائے تواس کا تو شکر گزار ہونا چاہئے ۔ہم کہیں گے تو برا لگے گا مگر اس حقیقت سے انکار نہیں کیاجاسکتا کہ ہندو لڑکیوں کی مسلمانوں سے شادی نئی بات نہیں۔فلم انڈسٹری میں اس کی ہزاروں مثالیں موجود ہیں۔تاریخ میں بھی نجانے کتنی جودھابائی مل جائیں گی۔

صحافی کے قتل کی ویڈیو
حال ہی میں فیزبک پر ایک ویڈیو آئی جو بظاہرشام اورعراق کے سرحدی علاقوں میں نومولود’اسلامی ریاست‘ میں ایک امریکی صحافی جیمس فولی کے سرقلم کئے جانے کی ہے۔ ماہرین کے ایک عالمی ادارے نے تقریباً چار منٹ چالیس سیکنڈ کی اس ویڈیو کلپ کی اصلیت پر شک ظاہر کیا ہے اور اس کو ڈرامہ قراردیا ہے جس کا مقصد محض ’پروپگنڈا‘ ہے۔ ماہرین نے کہا ہے کہ یہ اصلاً سرقلم کئے جانے کی فلم نہیں ہے۔ وجہ اس کی کئی ہیں۔ مثلا ویڈیومیں صحافی کی گردن پر چمچماتا ہوا چاقو چھ بارچلاتے ہوئے دکھایا گیا ہے ، مگرنہ چاقو پر خون نظر آتا ہے،نہ گردن پر اور نہ زمین پر۔ نہ گردن کٹی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ اس کی جو آوازیں سنائی دیتی ہیں، وہ بھی مصنوعی معلوم دیتی ہیں۔قتل سے پہلے جو جملے اس سے اداکرائے گئے ہیں وہ بھی فطری نہیں، لکھ کرریکارڈ کئے ہوئے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایک بار ریکارڈ کے بعد ایریز کرکے اس پر دوبارہ ریکارڈ کیا گیا ہے کیونکہ آواز میں ’بلپ‘ آگئی ہے۔

یہ رپورٹ تفصیل سے 25 اگست سے ٹائمز،لندن نے شائع کی ہے۔ایک دوسری رپورٹ سے پتہ چلتا ہے قاتل کا لب لہجہ برطانوی ہے اوروہ انگریزی بول رہا ہے۔ ظاہر ہے یہ ویڈیو بھی اس پروپگنڈہ کا حصہ ہے جو آئی ایس آئی ایس کے خلاف مغربی میڈیا اور صہیونی سازش کار چلا رہے ہیں۔

اس ویڈیو کو دیکھئے، مقتول کے چہرے پر ہرگز ایسے آثار نہیں ہیں جیسے موت کو قریب دیکھ کر ایک 40سالہ نوجوان کے ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں ایک عجیب بات یہ کہ مبینہ مقتول گھٹنوں کے بل کھڑا ہے، حالانکہ اس کو زمین پر پڑا ہونا چاہئے تھا۔ اس نے کوئی حرکت بھی نہیں کی جو ایسے موقع پر فطری ہوتی ہے۔ مگر دیکھنے والے اس کو سچ سمجھ رہے ہیں اور آئی ایس آئی ایس کو کوس رہے ہیں۔

جہاں تک مسلم میڈیا کا تعلق ہے ، اس کا انحصار غیروں پر ہے۔ دوسروں سے جو رپورٹیں مل گئیں، ان کی ہی جگالی ہم لوگ کرتے ہیں۔لیکن دیکھنے کی بات یہ ہے کہ اس سے قبل یزیدیوں کے اجتماعی قتل کی خبرآئی ، وہ جھوٹ نکلی۔ لڑکیوں کی ختنہ کی بات جھوٹ نکلی۔ اجتماعی عصمت دری کا شور مچا، اس کی بھی تردید ہندستانی نرسوں نے کردی کہ ان کے ساتھ کوئی نازیبا سلوک نہیں برتا گیا اور ان کی حفاظت کی گئی۔ سوال یہ ہے ساری دنیا آئی ایس آئی ایس کے خلاف کیوں صف آرا ہوگئی ہے۔ اس کا جواب اکبرالہ آبادی یوں دے گئے ہیں۔
رقیبوں نے رپٹ لکھوائی جا جا کے تھانے میں
کہ اکبرؔ اس زمانے میں خدا کا نام لیتا ہے

ون آشرم
منوشاسترا کے مطابق، جو’ ہندتووا‘ کا آئین حیات ہے، انسان کی زندگی کو چار ادوارمیں تقسیم کیا گیا ہے۔ ’برہم چریہ‘ : یہ دور طالب علمی ہے ۔’ گرہستھ آشرم‘: یہ گھربسانے اوردنیا کمانے کا دور ہے۔’ ون آشرم‘:جب بچے بڑے ہوجائیں تو گھر گرہستی ان کے سپردکرکے آبادی سے باہر کٹیا میں جارہے اور زیادہ وقت عبادت و ریاضت میں لگائے۔ اس کے بعد’ سنیاس آشرم‘ آتا ہے، جس میں دنیا سے بے تعلقی اختیار کرلی جاتی ہے۔اس وقت مرکز میں جو سرکار ہے اس میں وزیراعظم سمیت اکثر وزیر آرایس ایس کے سیوم سیوک ہیں۔ چنانچہ ہندتووا کے اس نظریہ کے مطابق انہوں اپنے تین سینر لیڈروں اٹل بہاری باجپئی، لال کرشن آڈوانی اورمرلی منوہر جوشی کو’ ون آشرم‘ میں پہنچا دیا ہے۔ پارٹی امور میں ان کا عمل دخل ختم ہوا۔

یہ تو ہوا مگر ان کے ساتھ ہی راجناتھ سنگھ کوبھی اسی کلب میں بٹھا دیا گیا ہے جس کا نام ’مارگ درشک‘ اور بقول راشد علوی ’موک درشک‘ منڈل ہے۔مودی کا نام تو بس ان کی دلجوئی کے لئے جوڑدیا گیا ہے کہ یہ چاروں زیادہ سبکی محسوس نہ کریں۔ اب یہ بس دیکھا کریں گے۔ بولیں گے نہیں اور اگر بولیں گے تو سنے گا کون؟ گزشتہ کئی سال سے باجپئی معذور اور آڈوانی و جوشی مجبور چلے آرہے تھے۔لگتا ہے کہ گرہ منتری کے گرہ بھی خراب ہیں۔ دہلی والے اس کیفیت کو: ’ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم‘ کہتے ہیں۔ (ختم)

Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 162286 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.