آج کل عالمی ذرائع ابلاغ میں ایبولا وائرس کے بارے میں
بہت خبریں اور تحقیقی مضامین شائع اور نشر کیے جا رہے ہیں لیکن یہ دنیا کا
سب سے خطرناک وائرس نہیں ہے۔ پھر دنیا کے خطرناک وائرس کونسے ہیں؟ ان کے
بارے میں آج آپ پڑھیں گے اس مختصر مضمون میں- دنیا کے خطرناک ترین وائرس
اور انسانی صحت و زندگی کو ان سے لاحق خطرات کے بارے میں بنیادی معلومات
پیش ہیں۔ یہ تمام معلومات دنیا میگزین نے شائع کی جو ہماری ویب قارئین کے
پیشِ خدمت ہیں-
|
ماربرگ وائرس
دنیا کا سب سے خطرناک وائرس ماربرگ وائرس ہے۔ اس کا نام دریائے لہن کے قریب
واقع ایک قصبے کے نام پر رکھا گیا ہے۔ ماربرگ ہیمرج بخار میں مبتلا کر دینے
والا وائرس ہے۔ ایبولا وائرس کی طرح ماربرگ وائرس بھی میوکس ممبرین، جلد
اور اعضا کے سکڑاؤ اور خون رِسنے کا باعث بنتا ہے۔ اس کے شکار افراد میں سے
90 فی صد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ |
|
پانچ اقسام کے ایبولا وائرس
ایبولا وائرس کی پانچ اقسام ہیں۔ ہر ایک قِسم کو اس ملک کی نسبت سے نام دیا
گیا ہے جہاں وہ وائرس پایا جاتا ہے۔ وہ پانچ ملک یہ ہیں: زائر، سوڈان، تائی
فاریسٹ، بنڈی ببگیو اور ریسٹن۔ سب سے زیادہ ہلاکت خیز ایبولا وائرس ’’زائر
ایبولا وائرس‘‘ ہے۔ اس کے شکار ہونے والوں میں سے 90 فی صد افراد موت کے
شکار ہو جاتے ہیں۔ آج کل یہ وائرس گنی، سیرا لیونا اور لائیبیریا کے علاوہ
دنیا کے دوسرے ملکوں تک پھیلا ہوا ہے۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ فلائنگ
فوکس نامی چمگادڑیں زائر ایبولا وائرس کو شہروں تک لے کر آئی ہیں۔
|
|
ہنٹا وائرس
تیسرا خطرناک ترین وائرس ’’ہنٹا وائرس‘‘ ہے۔ اس کا نام دریائے ہنٹا کے نام
پر رکھا گیا تھا۔ 1950ء میں جنگِ کوریا کے دوران امریکی فوجی سب سے پہلے
اسی دریا کے قریب ہنٹا وائرس کے شکار ہوئے تھے۔ اس وائرس کے شکار لوگوں میں
نمودار ہونے والی علاماتِ مرض میں شامل ہیں، بخار اور گردوں کا ناکارہ ہو
جانا۔
|
|
برڈ فلو
برڈ فلو اکثر اوقات دنیا کے مختلف حصوں میں افراتفری پھیلا دیتا ہے۔ اس کے
باعث افراتفری پھیلنا بلا جواز نہیں کیوں کہ اس کے شکار ہونے والے افراد
میں سے 70 فی صد افراد ہلاک ہو جاتے ہیں۔ بہرحال اس کی سب سے معروف قِسم
ایچ فائیو این ون سے ہلاکتوں کا امکان بہت کم ہے۔ یہ وائرس صرف مرغیوں سے
انسانوں کو لگتا ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ ایشیا کے لوگ اس وائرس سے متاثر
ہوئے ہیں۔ ایشیا کے زیادہ تر لوگ اپنے گھروں میں مرغیاں پالتے ہیں۔
|
|
لاسا وائرس
نائیجیریا کی ایک نرس سب سے پہلے اس وائرس کی شکار ہوئی تھی۔ یہ وائرس
چوہوں اور گلہریوں وغیرہ کے ذریعے پھیلتا ہے۔ یہ وائرس ایک مخصوص علاقے تک
محدود ہوتا ہے اور ایک ہی علاقے میں بار بار حملہ آور ہو سکتا ہے۔سائنس
دانوں کے خیال میں مغربی افریقہ میں اس وائرس کے زیادہ پھیلنے کا سبب یہ ہے
کہ وہاں چوہے اور گلہریاں وغیرہ زیادہ تعداد میں پائے جاتے ہیں۔
|
|
جیونن وائرس
یہ وائرس ارجنٹائنی ہیمرج بخار کا باعث بنا ہے۔ اس وائرس کے شکار افراد
ٹشوؤں کی سوزش اور سیپسِس میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی جلد سے
خون رِسنا شروع ہو جاتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اس وائرس کے شکار ہونے کی
علامات اس قدر عمومی ہیں کہ شروع میں اس کا پتا چلانا مشکل ہو جاتا ہے کہ
کوئی انسان اس وائرس کا شکار ہوا ہے یا کسی عام بیماری میں مبتلا ہے۔
|
|
کرائیمیا کانگو وائرس
یہ وائرس اپنے اثرانداز ہونے کے اعتبار سے ایبولا اور ماربرگ وائرسوں سے
مماثل ہوتا ہے۔ یہ وائرس مکڑیوں وغیرہ سے پھیلتا ہے۔ اس وائرس کے شکار ہونے
والے افراد کے چہروں سے بیماری کی ابتدا میں سوئی کی نوک جتنے سوراخ ہو
جاتے ہیں جن سے خون بہنے لگتا ہے۔ اس کے علاوہ ابتدا میں مریضوں کے منہ اور
حلق سے بھی خون بہنے لگتا ہے۔
|
|
ماچپو وائرس
اس وائرس کی وجہ سے بولیوِیئن ہیمرج بخار ہو جاتا ہے جسے بلیک ٹائفس بھی
کہا جاتا ہے۔ اس وائرس کی وجہ سے تیز بخار ہو جاتا ہے۔ اس کے ساتھ بہت
زیادہ خون بہنا شروع ہو جاتا ہے۔ یہ وائرس ایک انسان سے دوسرے انسان کو لگ
جاتا ہے۔ چوہے اس وائرس کو لے کر ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچا دیتے ہیں۔
|
|
کایاسنر فاریسٹ وائرس
سائنس دانوں نے کایاسنر فاریسٹ وائرس (کے ایف ڈی) 1955ء میں بھارت کے جنوب
مغربی ساحلی علاقے میں دریافت کیا تھا۔ یہ وائرس بھی مکڑیوں وغیرہ سے
پھیلتا ہے لیکن سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ یہ تعین کرنا دشوار ہے کہ اسے
کون سا جانور ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانے کا ذریعہ بنتا ہے۔ قیاس کیا
جاتا ہے کہ چوہے، پرندے اور جنگلی خنزیر اس کے پھیلاؤ کا باعث بنتے ہیں۔
اس وائرس کا شکار ہونے والے لوگ تیز بخار، شدید سر درد اور پٹھوں کے درد
میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور ان کے جسموں سے خون رِسنے لگتا ہے۔
|
|
ڈینگی وائرس
ڈینگی وائرس انسانی جانوں کو لاحق ایک مستقل خطرہ ہے۔ اگر آپ کسی مرطوب
علاقے کی سیر کا پروگرام بنا رہے ہیں تو ڈینگی وائرس کے بارے میں ضرور
معلومات حاصل کر لیجیے۔ڈینگی وائرس مچھروں کے ذریعے پھیلتا ہے۔ یہ وائرس
تھائی لینڈ اور بھارت جیسے سیاحوں میں مقبول ملکوں میں ہر سال پانچ کروڑ سے
دس کروڑ انسانوں کو شکار بناتا ہے۔ پاکستانی بھی اس کی دہشت سے خوب واقف
ہوچکے۔ ڈینگی وائرس دنیا بھر میں دو ارب انسانوں کے لیے خطرے کا باعث ہے۔ |
|