انتخابی اصلاحات : سیاسی جماعتیں اور ہماری تجاویز

ملک میں سیاسی کشیدگی کم نہ ہو اسلام آباد میں جاری دھرنے ختم نہ ہوں تو اس کا یہ مطلب تونہیں کہ صرف دھرنوں پرہی لکھا جائے کسی اورموضوع پر نہ لکھا جائے۔ویسے بھی ہم جس موضوع پرلکھ رہے ہیں وہ انقلاب اورآزادی مارچ کے دھرنے والوں کے مطالبات میں شامل ہے۔یوں ہم ان دھرنوں پرنہ لکھتے ہوئے بھی ان دھرنوں پرہی لکھ رہے ہیں۔انتخابی اصلاحات صرف تحریک انصاف اور عوامی تحریک کا ہی مطالبہ نہیں بلکہ یہ تمام سیاسی جماعتوں کامطالبہ ہے۔اور یہ مطالبہ ہر الیکشن میں کیا جاتاہے۔جو سیاسی جماعتیں انتخابات کے بعد اقتدارمیں آجاتی ہیں ان کو تویادہی نہیں رہتاکہ انتخابات کے نظام میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔تاہم جب یہ سیاسی جماعتیں اپوزیشن میں ہوتی ہیں توان کوانتخابی اصلاحات کادرد ستانے لگ جاتاہے۔کہیں اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ اگر ہم جیت جائیں تو نظام درست ہے اوراگر ہار جائیں تونظام میں خرابی ہے۔لیکن نوازشریف کی موجودہ حکومت نے سیاسی جماعتوں کے مطالبات کے پیش نظرانتخابی نظام میں اصلاحات کی ضرورت کو محسوس کو کرتے ہوئے پارلیمنٹ کی تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندہ سیاستدانوں پرمشتمل انتخابی اصلاحاتی کمیٹی بنادی ہے۔جس کی تفصیل اس تحریر میں آگے آئے گی۔ جس نے انتخابات کے عمل میں اصلاحات کے لیے کام شروع کردیا ہے۔پارلیمانی کمیٹی برائے الیکشن اصلاحات نے سول سوسائٹی کی تنظیموں وکلاء اور عوام الناس سے الیکشن کے عمل کو مکمل طورپر آزادانہ ، منصفانہ اورشفاف بنانے کے لیے تجاویزطلب کرلی ہیں۔جن میں بذریعہ قانون سازی وٹیکنالوجی اوردیگر ذرائع اورطریقوں کے استعمال سے ممکنہ تبدیلیاں بھی تجویز کی جاسکتی ہیں۔تاکہ الیکشن کے عمل کوبہتربنایا جاسکے۔یہ تجاویز یکم ستمبرتک طلب کی گئی ہیں۔اس سلسلہ میں ہمارے پاس جو کچھ ہے وہ آپ اس تحریر میں آگے جاکر پڑھیں گے پہلے یہ پڑھ لیں کہ اس سلسلہ میں اب تک کیا ہوتا رہا ہے اور کس نے کیا کہا ہے۔23دسمبر2012ء کومینارپاکستان لاہورمیں سیاست نہیں ریاست بچاؤ جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹرطاہرالقادری نے کہا کہ ملک میں حقیقی انتخابی عمل ،جمہوریت ، آئین اورقانون کی حکمرانی ، عدلیہ کی آزادی ، خودمختیاری کی حمایت کرتے ہیں۔لیکن جدیدجمہوری دورمیں الیکشن کا شفاف ہوناعدلیہ کامستحکم ہونا ریاست بچاؤ کے لیے ضروری ہے۔ان کا کہنا تھا کہ آئین کے مطابق الیکشن سے قبل استحصالی نظام کا خاتمہ یقینی ہونا چاہیے۔لیکن یہ کام چند مہینوں میں نہیں ہوسکتا۔تاہم ایسانظام وضع کیا جائے کہ کوئی جاگیرداریاطاقتوراپنے مزارعوں کوبھیڑبکریوں کی طرح ہانک کر ووٹ نہ ڈلواسکے۔ملک کی سیاسی جماعتوں نے آپس میں بیٹھ کردھاندلی نہ کرنے کا مک مکاکرلیا ہے۔لیکن اٹھارہ کروڑ عوام کے ساتھ ہونے والی دھاندلی کوکون بچائے گا۔بی اے کی ڈگری کی شرط اس لیے ختم کی گئی کہ یہ عوام کے مفادمیں تھا پارلیمنٹ کے مفاد میں نہ تھا۔جعلی ڈگریوں والے 91ارکان پارلیمنٹ پکڑے گئے۔قومی اسمبلی کے 342ارکان میں سے90ارکان نے انکم ٹیکس ریٹرن جمع کرائے۔ان کا کہنا تھا کہ کوئی ممبر اسمبلی یا سینیٹربجلی گیس یوٹیلٹی بل 6 مہینوں تک ادانہیں کرتاتو وہ الیکشن لڑنے کا اہل نہیں ہے لیکن جوانکم ٹیکس نہیں دیتاوہ کیسے الیکشن لڑنے کا اہل ہوسکتاہے۔یہ احوال تھا زرداری دورحکومت کی اسمبلی کاجس وقت طاہرالقادری نے یہ جلسہ کیا تھا اس وقت انتخابات نہیں ہوئے تھے۔ جس کے بعد موجودہ حکومت بنی ہے۔طاہرالقادری کے کارکنوں نے انتخابات کے روزبھی الیکشن کے خلاف ملک بھر میں احتجاج کیا تھا۔رواں سال 9مئی کولاہورمیں پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈرمیاں محمودالرشید کی قیادت میں تحریک انصاف کے کارکنوں نے عام انتخابات میں ہونے والی دھاندلی کے خلاف صوبائی الیکشن کمیشن آفس کا گھیراؤ کرلیا۔دفترمیں داخل ہونے کی کوشش پولیس نے ناکام بنادی۔جبکہ اسی روز ق لیگ کے چوہدری پرویزالٰہی نے کہا کہ الیکشن جی اوآرمیں موجودپردہ نشین کنڑول کررہے تھے۔ان کاکہنا تھا عدالتی کمیشن بناکرالیکشن 2013ء ہائی جیک کرنے والوں کوسزادی جائے۔تاکہ آئندہ کوئی جرات نہ کرسکے۔ہمارے ووٹ مسترد کرکے ہم سے 44 سیٹیں چھین لی گئیں۔انہوں نے عمران خان اورطاہرالقادری کی اخلاقی حمایت کااعلان کیا۔اسی ماہ کی چودہ تاریخ کواسلام آباد میں تحریک انصاف کے وفدنے شاہ محمود قریشی کی سربراہی میں چوہدری برادران سے ملاقات کی۔جس میں انتخابی اصلاحات اورالیکشن کمیشن کی تشکیل نواوردیگر امورپر تبادلہ خیال کیا گیا۔ملاقات کے بعد شاہ محمودقریشی نے صحافیوں سے گفتگوکرتے ہوئے کہاکہ دونوں جماعتیں اس بات پرمتفق ہیں کہ شفاف الیکشن جمہوریت کی ضرورت ہیں۔پاکستان کے عوام کے مینڈیٹ (اگر ہمارے حق میں ہوتو)ہماری جمہوری آئینی اوراخلاقی ذمہ داری ہے۔موجودہ قوانین میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔دونوں جماعتیں متفق ہیں کہ انتخابی نظام میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔تاکہ واقعتا ایک آزاداورخودمختیارالیکشن کمیشن وجودمیں آسکے۔جس کی نگرانی میں صاف اورشفاف الیکشن ہوسکیں۔ہمیں انتخابی اصلاحات کے یک نکاتی ایجنڈے پر قومی اتفاق رائے پید ا کرنا چاہیے۔اسی ماہ کی بیس تاریخ کواس وقت کے چیف الیکشن کمشنرجسٹس ناصرالملک کی سربراہی میں الیکشن کمیشن کے ارکان کے اجلاس میں انتخابی دھاندلیوں سے متعلق آنے والے الزامات اورسیاسی جماعتوں کی جانب سے الیکشن کمشنرزکے استعفے کا مطالبہ زیرغورآیا۔چیف الیکشن کمشنرنے وزیراعظم کے حلقہ انتخاب این اے 68سرگودھا کے پولنگ اسٹیشنوں کے ووٹوں کی گنتی کاریکارڈ طلب کرلیا۔ترجمان کے مطابق الیکشن کمیشن نے ریٹرننگ افسروں کو خط لکھا ہے کہ رجسٹرووٹوں اورکاسٹ کیے گئے ووٹوں کاریکارڈ بھجوایا جائے تاکہ حقائق سامنے لائے جاسکیں ۔ دوسری جانب عمران خان نے ٹوئیٹرپر اپنے پیغام میں الیکشن کمیشن کے فیصلے کا خیر مقدم کیاہے۔ ( اب کہتے ہیں کہ ہمیں انصاف نہیں مل رہا)اسی روزپنجاب اسمبلی کے اجلاس میں اپوزیشن لیڈرمیاں محمودالرشید کی جانب سے قواعدوضوابط معطل کرکے الیکشن کمیشن کی تشکیل نواوربائیومیٹرک سسٹم کے تحت انتخابات کروانے کے ساتھ ساتھ بیرون ملک پاکستانیوں کوبھی ووٹ کاحق دینے کے مطالبے کی قراردادپیش کرنے کی اجازت چاہی تو سپیکر نے اجازت دینے سے انکارکردیا۔اورکہا جب تک حکومت اوراپوزیشن میں قراردادپیش کرنے کے لیے کوئی اتفاق نہیں ہوتا اس وقت تک یہ اجازت نہیں دی جاسکتی۔لیکن آپ قراردادپیش کرنے پربضدہیں تو پہلے قواعد کے معطلی کی تحریک پیش کریں اس پر فیصلہ ہونے کے بعد ہی معاملہ آگے چلے گا۔جس پر اپوزیشن اراکین نے اپنی نشستوں پر کھڑے ہوکرن لیگ کے خلاف شدید نعرے بازی شروع کردی۔اسی ماہ کی تیس تاریخ کولندن میں طاہرالقادری سے ملاقات کے بعد چوہدری شجاعت حسین نے کہا کہ انتخابی اصلاحات پرزوردینے کی ضرورت ہے۔تاکہ (ہماری پارٹی کے )صحیح لوگ منتخب ہوں۔ نظام کی درستی کے لیے انتخابی اصلاحات پر زوردیا جائے۔یکم جون کو لندن میں میڈیا سے گفتگوکرتے ہوئے الیکشن سسٹم میں بہتری کے لیے چلائی جانے والی تحریک میں شامل ہونے کے لیے سب کودعوت دیں گے۔انتخابی نظام ٹھیک نہ ہوا(ہمارے اقتدارمیں آنے کے چانس نہ ہوئے ) تواگلا الیکشن نہیں ہونے دیں گے۔

وزیراعظم سپیکر قومی اسمبلی سردارایازصادق کو خط لکھ چکے ہیں جس میں کہاگیا ہے کہ انتخابی اصلاحات کے لیے جامع سفارشات تیارکرنے کے لیے قومی اسمبلی اورسینیٹ کے ارکان پرمشتمل پارلیمانی کمیٹی بنائی جائے ۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈارنے بتایا کہ قومی اسمبلی اورسینیٹ نے 2011ء اور 2012-13میں انتخابی اصلاحات کے بارے میں ٹھوس کام کیاتھا۔اوررپورٹیں تیارکی تھیں ۔ ان رپورٹوں میں بعد میں پارلیمنٹ ایکٹ کے تحت ممعولی نوعیت کی تبدیلیاں کی گئیں۔چند تجاویز کوالیکشن کمیشن نے اختیارکرلیا۔تاہم قومی اسمبلی کی معیاد پوری ہونے کی وجہ سے ان رپورٹس کی سفارشات پرقانون سازی نہیں ہوسکی تھی۔پارلیمانی کمیٹی ملک میں آزادانہ، منصفانہ انتخابات کے انعقاد کویقینی بنانے کے لیے سفارشات تیار کرے۔کمیٹی میں دونوں ایوانوں کے حکومتی اوراپوزیشن اراکین کوشاملک کیا جائے۔کمیٹی مذکورہ بالا کمیٹیوں کی رپورٹس اوراورکسی بھی پارٹی ، فرد، تنظیم کی جانب سے دی جانے والی تجاویز پرغورکرے۔اس خط کی ایک کاپی چیئرمین سینیٹ کوبھی بھیجی گئی۔پیپلزپارٹی جنوبی پنجاب کے جنرل سیکرٹری عامرڈوگر نے کہا کہ انتخابی اصلاحات ہونی چاہییں تاکہ شفاف الیکشن ہوں۔اورکسی کویہ کہنے کا موقع نہ ملے کہ دھاندلی ہوئی ہے۔انتخابی اصلاحات کے ذریعے ایسا قانون بھی ہونا چاہیے۔کہ دھاندلی کرنے والے کے خلاف ایسا سخت ایکشن لیا جائے جس سے دوبارہ کوئی بھی شخص دھاندلی کا سوچ بھی نہ سکے۔ایک قومی اخبار کے فورم میں گفتگو کرتے ہوئے تحریک انصاف کے ایم پی اے حاجی جاویداختر انصاری نے کہا کہ عمران خان ملک میں جمہوری نظام کوبچانا چاہتے ہیں ۔ اگر حکمران انتخابی اصلاحات پر توجہ دیتے تو آج حالات مختلف ہوتے۔مسلم لیگ ن کے راہنما راجن بخش گیلانی نے کہا کہ میاں محمد نواز شریف نے عمران خان کے مطالبے پرپارلیمنٹ کی انتخابی اصلاحات کمیٹی قائم کی ۔لیکن انہوں نے ایک دن بھی کمیٹی سے تعاون
نہیں کیا۔چیئرمین اسحاق ڈار کی زیر صدارت انتخابی اصلاحات بارے پارلیمانی کمیٹی کااجلاس پارلمینٹ ہاؤس میں ہوا۔جس میں تحریک انصاف کے علاوہ تما م پارلیمانی جماعتوں کے نمائندوں نے شرکت کی۔اجلاس میں الیکشن کمیشن کے حکام نے اپنی مرتب کردہ 319سفارشات پیش کیں ۔ اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اسحاق ڈارنے کہا کہ کمیٹی نے الیکشن کمیشن کی تجاویزکا جائزہ لیا ہے۔عوام کی طرف سے کمیٹی کو280تجاویزموصول ہوئی ہیں۔ان کا خیر مقدم کرتے ہیں ۔ الیکٹرولرریفارم اورالیکشن کو شفاف بنانے کے لیے قانون میں ترمیم بھی کرنی پڑی تو کریں گے۔

انتخابی اصلاحات کے بارے میں ہمارے پاس جو تجاویز تھیں ان میں کچھ تجاویز اس تحریر میں آچکی ہیں ۔ تاہم مزید بھی تجاویز ہیں جوہم پیش کررہے ہیں ۔ جیسا کہ اس تحریر میں آپ پڑھ آئے ہیں عام انتخابات بائیومیٹرک سسٹم کے تحت ہی ہونے چاہییں۔اس سسٹم کے تحت کسی بھی ووٹرکو اس کے متعلقہ پولنگ اسٹیشنز میں جانے کی ضرورت نہ ہوبلکہ وہ اپنے حلقہ انتخاب میں کسی بھی پولنگ اسٹیشنز پر ووٹ کاسٹ کرسکے۔ وہ صرف اپنا پولنگ اسٹیشن بتائے اور ووٹ کاسٹ کرلے۔اس کے علاوہ کوئی بھی امیدوار ایک سے زیادہ حلقوں میں انتخابات میں حصہ نہ لے ۔انتخابات کے بعد ایک سے زیادہ حلقوں میں کامیابی کی صورت میں امیدواروں کو ایک حلقہ اپنے پاس رکھ کر بقیہ حلقے چھوڑنے ہی ہوتے ہیں۔جس سے ووٹروں کو مایوسی ہوتی ہے۔اس سے بہتر ہے کہ وہ قومی یا صوبائی اسمبلی کے ایک ہی حلقہ سے انتخاب میں حصہ لے۔ کوئی بھی امیدوار اس حلقہ سے انتخابات میں حصہ لے جس حلقہ انتخاب کا اس کا شناختی کارڈ اورڈومی سائل ہو۔پولنگ اسٹیشنز ایک کلومیٹر کے احاطہ میں بنائے جائیں۔عام انتخابات کے موقع پر الیکشن میں حصہ لینے والی تمام سیاسی جماعتوں کے منشور پر مشتمل الیکشن کمیشن کی زیر نگرانی ایک کتابچہ شائع کراکے عوام میں تقسیم کیا جائے تاکہ عوام تمام سیاسی جماعتوں کے منشور اوران کی سابقہ کارکردگی کی روشنی میں ووٹ دینے کا فیصلہ کرسکیں۔سیاسی جماعتوں کے ٹرانسپورٹ پرووٹروں کوپولنگ اسٹیشنز پرلانے پر پابندی ہی ہونی چاہیے ۔ تاہم ووٹروں کو یہ سہولت الیکشن کمیشن ہی فراہم کرے۔جب تک قومی اورصوبائی اسمبلیوں کے تمام حلقوں کے رزلٹ نہ آجائیں اس وقت تک کسی بھی سیاسی لیڈر کو فاتحانہ تقریر کرنے اور میڈیا پرآنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔انتخابات میں باکردار امیدواروں کو ہی ٹکٹ دیے جائیں۔عام اور بلدیاتی انتخابات میں ٹکٹ دینے سے قبل تمام سیاسی جماعتیں اپنی اپنی جماعتوں میں ریفرنڈم کرائیں کہ کس حلقہ کے زیادہ کارکن کس کو امیداورچاہتے ہیں اس میں کوئی بھی امیدوارنہ ہو کارکن خودہی کسی کا بھی نام تجویز کرسکیں۔ جعلی او رزیادہ ووٹوں کی روک تھام کے لیے قومی اورصوبائی اسمبلی کے لیے ایک ایک ریفرنڈم فارم تقسیم کیے جائیں جس کو پر کرکے کارکن امیدوارکا نام تجویز کرسکیں۔انتخابات کے دوران تمام حلقوں میں تمام امیدواروں کا مشترکہ سیمینار کرایا جائے ۔ جس میں ووٹر ان سے ان کی سابقہ کارکردگی، ان کے منشور اور آئندہ کے لائحہ عمل بارے سوال کرسکیں۔ اس میں ہر ایک کوآنے کی اجازت ہو۔ہر حلقہ میں ایسے پانچ سیمینار کرائے جائیں تاکہ تمام ووٹروں کو شرکت کا موقع مل سکے۔
Muhammad Siddique Prihar
About the Author: Muhammad Siddique Prihar Read More Articles by Muhammad Siddique Prihar: 394 Articles with 300902 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.