تباہی اور بربادی شروع ہے

دھرنوں اور ریلیوں سے تباہی اور بربادی کا عمل تیزی سے شروع ہوچکا ہے۔موجودہ حکومت کے ایک سال بعد مختلف شعبہ جات میں بہتری کے آثار نظر آنا شروع ہوگئے تھے۔لیکن موجودہ سیاسی مہم جوئی نے تمام پروگراموں کو لپیٹ دیا ہے۔دھرنے جتنے دن جاری رہیں گے۔معیشت بربادی کی طرف بڑھتی رہے گی۔اب تو عمران خان نے دوسرے شہروں میں بھی دھرنے شروع کرادیئے ہیں۔سول نافرمانی کی تجویز بھی دے دی ہے۔اگرچہ اس کو کاروباری اداروں نے اب تک مسترد ہی کیا ہے۔لیکن کچھ نہ کچھ اثرات تو اس کے معیشت پر ہونگے۔اگر بجلی کے بل،گیس کے بل اور ٹیکسوں کی ادائیگیاں25فیصد بھی متاثر ہوگئیں تو پاکستان جیسے ننھی منھی معیشت والے ملک کے لئے یہ ایک نقصان عظیم ہوگا۔ڈالر کا ریٹ پھر103روپے تک چلا گیا ہے۔باہر کے ممالک سے جن سرمایہ کاروں نے آنے کے پروگرام بنالئے تھے۔انہیں ملتوی کردیاگیا ہے۔جاپانی اداروں نے کراچی سرکلر ریلوے کو بحال کرنے کا پروگرام بنالیاتھا۔یہ اب ملتوی ہوگیا ہے۔ایسے ہی صاف پانی کے بہت سے پروجیکٹ جاپانی اداروں نے شروع کرنے تھے۔یہ بھی اب انقلاب کی نظر ہوگئے ہیں۔پاکستان میں معاشی اصلاحات کے پروگراموں کو آزاد معیشت دان اور آئی۔ایم۔ایف والے سست روی کا شکار بتاتے تھے۔لیکن اب یہ سست روی ۔خاتمے کی طرف چلی جائیگی۔بجلی کے ٹیرف کو دوبارہ متعین کرنے کا پروگرام بھی اب نہیں ہوسکے گا۔ٹیرف کو بجلی کی لاگت کے قریب لانے کا پروگرام تھا۔IMFبھی یہی چاہتا تھا۔لیکن سیاسی ہلڑ بازی کی وجہ سے اب کچھ بھی ہوتا نظر نہیں آتا۔عمران خان جنہیں نواز شریف کے بعدPrime Minister in Waitingکہاجارہا تھا وہIMFکو خود ہی کہہ رہے ہیں کہ موجودہ حکومت کو کوئی قرض نہ دیا جائے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ خان صاحب خود ہی معاشی استحکام کے راستے میں رکاوٹ بن گئے ہیں۔موجودہ حکومت نے بجلی کے بلوں کی وصولی میں کافی پیش رفت کی تھی۔اور کل واجب الادا رقم کو15ماہ میں300ارب روپے تک گھٹا دیاتھا۔اگر یہ کام مستقل مزاجی اور تسلسل سے ہوتا رہتا تو بجلی کا خسارہ 2سال کے بعد کافی حد تک گھٹ چکا ہوتا۔اور مزید گردشی قرضہ بھی پیدا نہ ہوتا۔ایسی ہی صورت حال گیس کے بلوں کی بھی تھی۔اب دھرنے اور ریلیوں کودو ہفتے ہوچکے ہیں۔مختلف اداروں نے اس کے نقصانات کا اندازہ لگانا شروع کردیا ہے۔اب تک معیشت کا کل نقصان کا اندازہ700ارب روپے کا ہے۔اس میں وہ بڑی رقم شامل ہے جو کراچی سٹاک میں مندی سے ظاہر ہوئی تھی۔جو اکیلے ہی 300ارب روپے تک چلی گئی تھی۔دھرنوں کابرا اثر پورے ملک پر پڑا ہے ۔اسحاق ڈار صاحب نے کل نقصان500ارب روپے تک کا لگایا ہے۔ہر ادارہ اپنے اپنے طور پر اندازہ لگارہا ہے۔اگر دھرنے جاری رہے تو معیشت کو ہونے والا نقصان بھی بڑھتا رہے گا۔وہ ہزاروں کنٹینرز جو سڑکیں اور راستے بلاک کرنے کے لئے لگائے گئے ہیں۔انہیں کنٹینرز نے مال و اسباب ایک شہر سے دوسرے شہر لیکرجانا تھا۔نہ جانے یہ مزید کتنے دنوں تک کھڑے رہیں گے۔لاہور کے ارد گرد گوجرانوالا،شیخوپورہ اور سیالکوٹ کی منڈیاں ترسیل خام مال نہ ہونے سے بند ہیں۔بے شمار لوگ بے روزگار ہوچکے ہیں۔بلوچستان کے علاقے گڈانی پر6600میگاواٹ کے کوئلہ کے کارخانوں کی بولی 18۔اگست کو ہونی تھی۔یہ بھی اب ملتوی کردی گئی ہے۔یہ خبر تو تمام قارئین پہلے ہی پڑھ چکے ہیں۔کہ سری لنکا اور مالدیپ کے صدور نے اپنے سرکاری دورے ملتوی کردیئے ہیں۔جب کسی ملک کا دارالخلافہ ہلٹر بازوں کے قبضہ میں ہو۔توباہر سے کس نے کیا کرنے آنا ہے۔نیویارک کی ایجنسیMoody,sنے پاکستان کی کریڈریٹنگ منفی سے مستحکم کردی تھی۔موجودہ ہلٹر بازی سے وہ اب پھر منفی پر آجائیگی۔اور اسلام آباد کو بین الاقوامی اداروں سے فنڈز کے حصول میں دقتیں درپیش ہونگی۔ایک سال کے عرصے میں پاکستان کا بین الاقوامی Imageبہت مشکل سے سافٹ ہوا تھا۔لیکن اسلام آباد کے دھرنوں اور کنٹینرز کی لمبی قطاروں کی وجہ سے حالات دوبارہ ایک سال پہلے جیسے ہی ہوجائیں گے۔اگر ہم ان اخراج کا اندازہ لگانا چاہیں جو اسلام آباد میں دھرنوں کی وجہ سے ہورہا ہے تو یہ اربوں میں ہوگا۔اگر یہ اربوں روپے مثبت کاموں پر لگتے تو معیشت پر اس کے خوشگوار اثرات ہوتے۔لیکن یہ تمام اخراجات تو حکومت کو گرانے اور نظام کو لپیٹنے کے لئے کئے جارہے ہیں۔اس کا صحیح اندازہ تو دھرنے ختم ہونے کے بعد ہی لگ سکے گا۔ان تمام منفی اخراجات کے اندازے کے لئے بے نظیر بھٹو کی2007ء میں کراچی ریلی کا اندازہ سامنے رکھیں۔اس پر300ملین روپے خرچ ہوئے تھے۔وہ صرف ایک دن کا شو تھا۔اسلام آباد میں تو یہ کام 2ہفتوں سے جاری ہے۔اور نہ جانے کتنے دن اور جاری رہے۔دھرنوں کے خاتمے کے بعد کوئی تکنیکی ادارہ ہی اس کا صحیح اندازہ لگا سکے گا۔ہزارہا لوگوں کو روزانہ کی بنیاد پر رقومات دی جارہی ہیں۔تاکہ وہ اسلام آباد چھوڑ کر نہ جائیں۔اور دھرنوں کی رونق برقرار رکھیں۔معاشی نقطہ نظر سے یہ تمام اخراجات منفی ہیں۔کسی مثبت کام کے لئے یہ نہیں کئے جارہے وہ جو شوروغوغا تھا کہ آزادی مارچ اور انقلاب مارچ سے ملک وقوم کو فائدہ ہوگا۔لوگوں کی قسمت بدل جائیگی۔بادشاہت ختم ہوجائیگی۔یہ تمام پروپیگنڈا تھا۔ابھی تو صرف دھرنے اور ہلڑ بازی ہی ہورہی ہے کوئی تبدیلی یا انقلاب تو آیا ہی نہیں۔انقلاب کے بعد بھی بربادی بڑے پیمانے پر ہوتی ہے۔میں اس سے پہلے ایک آرٹیکل میں چین۔روس اور ایرانی انقلاب کی تباہی و بربادی کا ذکر کرچکا ہوں۔یہ تینوں انقلاب اس لئے آئے تھے کہ اس میں واقعی لاکھوں لوگ شریک تھے۔خمینی جب ایران کے ہوائی اڈے پر اترے تھے تو ایران کی نصف آبادی ان کے استقبال کے لئے موجود تھی۔اسلام آباد میں انقلاب لانے والے دونوں لیڈر ایک لاکھ افراد کو بھی اکٹھا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔اتنے دن گزرنے کے بعد اگر حکومت اور افواج پر اثر نہیں ہورہا تو اس میں انقلابیوں کی"تعداد"ایک فیکٹر ہے۔انقلاب موجو د حکمرانوں سے استعفےٰ طلب نہیں کرتا۔بلکہ موجود حکمران انقلابیوں کے تیور اور تعداد دیکھ کرہی بھاگ جاتے ہیں۔اسلام آباد کا انقلاب دن میں غائب اور رات کو جلوہ افروز ہوتا ہے۔ہم نے کبھی نہیں سنا کہ انقلاب کے دوران خوبصورت لڑکیوں کے ڈانس اور گیت بھی حکمرانوں کو بھگانے کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں۔ان ڈانسز اور گیتوں سے تو حکمران بھی مزے لے رہے ہیں۔یوں انقلابیوں نے حکومت پر Pressureڈالنے کی بجائے خوشگوار ماحول پیداکردیا ہے۔آخر شہزادرائے کو انقلابی اور مخالف انقلاب دونوں کیوں نہ سنیں؟۔اب عمران خان نے پورے ملک کا پہیہ جام کرنے کی باتیں شروع کردی ہیں۔لیکن شاید اکیلا عمران خان اتنا بڑاکام نہ کرسکے۔آخر پارلیمنٹ میں11۔پارلیمانی پارٹیاں اور بھی ہیں۔ان کے ووٹرز بھی شہروں میں لاکھوں کی تعداد میں ہیں۔پورے ملک کا پہیہ جام کرنا کافی مشکل کام ہے۔دوسری پارٹیوں کے لوگ اس راستے میں رکاوٹ بنیں گے؟ پاکستان مسلم لیگ،جمعیت علمائے اسلام اور اہل سنت ولجماعت کی ریلیاں نکلنی شروع ہوچکی ہیں۔اگردیگر جماعتوں کی ریلیاں بڑھتی چلی گئیں اور ان میں تسلسل بھی آگیا تو عمران خان کے پہیہ جام کی کال ناکام ہوجائیگی۔پہیہ جام کرنا بھی ملک دشمنی ہی ہے۔اس سے تمام چھوٹے بڑے کاروبار بند ہوجائیں گے۔اور معیشت کا ستیا ناس ہوجائے گا۔اس سے پہلے سول نافرمانی کا بھی اعلان کیا جاچکا ہے۔اس سے عمران خان کی حب الوطنی زیر بحث آئے گی۔اگر ایک سیاسی پارلیمانی لیڈر کھلم کھلا یہ اعلان کرے کہ ٹیکس اور بل ادانہ کرو اور شہروں میں کاروبار بھی ٹھپ کرو۔تو پاکستان کے انیس کروڑ لوگ اس منشور کو فوری طورپر رد کردیں گے۔معیشت کی بربادی اور تباہی کا عمل ابھی انقلابیوں کی طرف جاری ہے۔یہ کب تک جاری رہتا ہے یہ بات ابھی دیکھنے والی ہے۔دھرنے جتنے طول پکٹریں گے بربادی اور تباہی بھی اتنا ہی طول پکٹرے گی۔انقلابیوں سے التجا ہی کی جاسکتی ہے کہ اب بس کرو۔ملک کا کافی نقصان ہوچکا ہے ۔اگر عمران خان وزیر اعظم نہیں بن سکے ۔تو اسکی سزا پورے ملک اور پوری قوم کو نہیں ملنی چاہیئے۔بربادی و تباہی کافی ہوچکی ہے۔اس عمل کو یہیں رک جانا چاہیئے۔
Prof Jamil Chohdury
About the Author: Prof Jamil Chohdury Read More Articles by Prof Jamil Chohdury: 18 Articles with 10821 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.