جمہوریت کاحسن تویہی ہے کہ۔۔۔۔

اسلام آبادکے ریڈزون میں تاریخ رقم ہورہی ہے۔یہ تاریخ اِس لحاظ سے منفردہے کہ’’سونامیے‘‘وہاں بنیادتونئے پاکستان کی رکھ رہے ہیں لیکن سماں پکنک کاسا۔مردوزَن ہی نہیں رہنماء بھی محوِرقص۔دھرتی جھوم رہی ہے اورغُصے سے دشمنوں کے سرگھوم رہے ہیں۔ہمیں اگرپتہ ہوتاکہ اسلام آباد میں’’پھینٹی‘‘ کا کوئی امکان نہیں توہم بھی اِس’’میوزیکل کنسرٹ‘‘سے لطف اندوزہوآتے لیکن ہمیں توبتایاگیاتھاکہ نون لیگ والے پھینٹی کے ماہرہیں اوراُن کے پاس گُلو،بِلو،پومی،نومی اورپتہ نہیں کون کون سے’’بَٹ‘‘ہیں جویوں حملہ آورہوتے ہیں کہ
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجرپہ کوئی داغ
تُم قتل کروہوکہ کرامات کروہو

یہ تواب پتہ چلاکہ ریڈزون میں توراوی عیش ہی عیش لکھتاہے۔ہمیں یہ بھی بتلایاگیاتھاکہ دھرنے کامطلب کسی ایک جگہ ٹِک کربیٹھ رہناہوتاہے جو ہمیں منظورنہیں تھالیکن کیاپتہ تھاکہ’’ماڈرن دھرنوں‘‘میں ایسی کوئی پابندی نہیں ہوتی۔یہاں تورات آٹھ بجے کے بعدمحفل گرم ہوتی ہے اوردوبجے اپنے عروج پر۔پھرسبھی’’اسلام آبادیے‘‘اپنے اپنے گھروں کولوٹ جاتے ہیں اورخاں صاحب بنی گالہ یا کنٹینرمیں۔لڑکیوں کوٹی وی پروالہانہ رقص کرتے دیکھ کرتھوڑابہت محظوظ توہم بھی ہولیتے ہیں لیکن NGO'sکی آزادیٔ نسواں کی علمبردارخواتین کی توباچھیں کھلی جارہی ہیں کیونکہ جووہ عشروں میں نہ کرپائیں،کپتان صاحب نے دنوں میں کردکھایا۔نوازلیگیئے کہتے ہیں کہ خاں صاحب نے دھرنے میں شرکاء کی تعدادسے مایوس ہوکرمیوزیکل کنسرٹ کاسہارالیاہے۔اوریہ جوخاں صاحب ہروقت اکھڑے اکھڑے سے نظرآتے ہیں،اُس کی وجہ بھی یہی کہ خاں صاحب نے نعرہ لگایادَس لاکھ کااورآئے دَس ہزاربھی نہ۔شنیدہے کہ گوجرانوالہ میں خاں صاحب نے ناشتہ کرنے سے انکارکردیااورچلاتے ہوئے کہاکہ اُنہیں بندے چاہییں،ناشتہ نہیں۔بندے تونہیں ملے البتہ اب خاں صاحب کو’’کسی‘‘کی انگلی اٹھنے کاانتظارہے جبکہ وہاں تویہ عالم ہے کہ’’وہ ہاتھ سوگیاہے سرہانے دھرے دھرے‘‘۔

کوئی اِن لیگیوں سے پوچھے کہ کیا ہمارے کپتان صاحب مداری ہیں جو ڈُگڈگی بجاکرمجمع اکٹھاکرلیں گے؟۔کیا ہم نے باربار نہیں کہاتھاکہ ہمارادھرنا’’تاریخی‘‘ہوگا؟۔کیامعلوم تاریخ میں کسی نے کبھی ناچ گانے والے دھرنے کاذکربھی سُناہے؟۔اگرنہیں توپھرہمارا’’میوزیکل دھرنا‘‘تاریخی ہی ہواناں۔ویسے بھی ہمیں توپتہ ہی تھاکہ ہمارے نرم ونازک’’سونامیے‘‘چندگھنٹوں میں ہی مرجھاجائیں گے اسی لیے ہماری کروڑوں پہ بھاری ’’کورکمیٹی‘‘نے انتہائی عقلمندی کاثبوت دیتے ہوئے ملک کے چوٹی کے گلوکاروں کوپہلے سے ہی’’بُک‘‘کررکھاتھا۔لیگیئے تویہی چاہتیے تھے کہ ماں باپ سے دورہمارے ’’ننھے منے ‘‘سونامیے اُداس ہوجائیں اورریڈزون کی سڑک پربیٹھ کرروناشروع کردیں لیکن ہم بھی اِن لیگیوں کی فطرت سے خوب واقف ہیں اِسی لیے ہم نے اپنے معصوم سونامیوں کے جی بہلانے کاپوراپورابندوبست کررکھاتھا۔اب بھی ہم دھرنے کا’’میوزیکل کنسرٹ‘‘ختم ہونے سے پہلے ہی یہ اعلان کردیتے ہیں کہ اگلے دن کون کون سے گلوکارآئیں گے تاکہ دلچسپی برقراررہے۔ویسے مُنہ کاسوادبدلنے کے لیے ہمارے پاس لال حویلی والے شیخ رشیدبھی ہیں جوگاہے بگاہے سٹیج پرایسے ہی نمودارہوتے ہیں جیسے ٹی وی ڈراموں کے وقفوں کے دوران اشتہار۔

ویسے توہم شیخ الاسلام کے انقلاب مارچ کے بھی اُتنے ہی حامی ہیں جتنے کپتان کے آزادی مارچ کے۔لیکن تعدادمیں آزادی مارچ سے کہیں زیادہ ہونے کے باوجودمولاناکاانقلاب مارچ ’’روکھاپھیکا‘‘ساہے۔شایدیہی وجہ ہے کہ جب رات آٹھ بجے کے بعدمیوزیکل کنسرٹ شروع ہوتاہے تومولاناکے انقلابیے بھی کھسک کرسونامیوں میں شامل ہوجاتے ہیں اور’’میلہ‘‘بھرجاتاہے۔مولانانے پہلے تودوتین دن صبرکیالیکن پھرانہوں نے حالات کوبھانپتے ہوئے نہ صرف جنگی ترانوں اورقوالیوں کی اجازت دے دی بلکہ فرمائش کرکے جنگی ترانہ’’اے مردِ مجاہدجاگ ذرا،اب وقتِ شہادت ہے آیا‘‘سُنااوراِس پرجھومتے بھی رہے۔مولاناکوجھومتے دیکھ کرعقیدت مندبھی دھمال ڈالنے لگے۔اب وہاں قوالیوں اورترانوں پردھمال توڈالی جاتی ہے لیکن وہ مزہ کہاں جومیوزیکل کنسرٹ میں ہے۔

چودھری نثاراحمدنے پریس کانفرنس کرتے ہوئے اِس دُکھ کااظہارکیاہے کہ محترم عمران خاں اورمولاناطاہرالقادری اپنی بات پرقائم نہیں رہے۔اُنہوں نے کہاکہ اُن کے پاس دونوں کی تحریرموجودہے کہ وہ ریڈزون میں داخل نہیں ہونگے لیکن دونوں ہی یوٹرن لیتے ہوئے اپنے وعدے سے مکرگئے اورریڈزون تک آن پہنچے۔اُنہوں نے اِن وعدہ خلافیوں پرشدیدرنج کااظہارکرتے ہوئے کہاکہ اب وہ کبھی اعتبارنہیں کریں گے۔اب تواُن کی حالت یہ ہے کہ
تیرے وعدے پہ جیئے ہم تویہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مرنہ جاتے اگراعتبارہوتا

چودھری نثارصاحب کوتیس سال ہوگئے سیاست میں آئے ہوئے لیکن اُنہیں ابھی تک اتنابھی پتہ نہیں چلاکہ یہی توہماری سیاست بلکہ جمہوریت کاحسن ہے۔اب توجنابِ آصف زرداری کاکہاگیا جملہ’’ وعدے قُرآن وحدیث نہیں ہوتے‘‘زبان زدِعام ہو گیاہے لیکن بھولے چودھری صاحب اب بھی دُکھ کااظہارکررہے ہیں۔ویسے بھی ہمارے مُرشدتواِس حکومت کوتسلیم ہی نہیں کرتے اوراُنہوں نے توحکومت کی طرف سے بھیجاگیاکھاناسڑک پرپھینکوادیااور’’واٹرباؤزر‘‘یہ کہہ کرواپس بھجوادیئے کہ
مجھ تک کب اُن کی بزم میں آیاتھادَورِجام
ساقی نے کچھ ملانہ دیاہوشراب میں

مولاناصاحب کی دیکھادیکھی محترم عمران خاں نے بھی سونامیوں کوحکومت کی طرف سے بھیجاگیاپانی پینے سے منع کردیا۔مولاناکہتے ہیں،چودھری نثاراحمدکاکیااعتبارکہ اُنہوں نے پانی میں کوئی ایسی چیزملادی ہوجس سے انقلابیوں کے پیٹ خراب ہوجائیں۔ویسے یقین تونہیں آتالیکن ہوسکتاہے کہ اِس معاملے میں بھی مولاناصاحب کو’’بشارت‘‘ہوگئی ہو۔ہمارے یقین نہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ چودھری نثاراحمداپنی پریس کانفرنس میں خودیہ کہہ رہے تھے کہ ریڈزون سے اتناتعفن اُٹھ رہاہے کہ کھڑاہونامحال ہے۔اگروہ پانی میں پیٹ خراب کرنے والی کوئی دوائی ملادیتے توپھرتوریڈزون میں تِل دھرنے کی جگہ بھی نہ بچتی اورچودھری صاحب ٹھہرے وزیرِداخلہ جنہیں باربارریڈزون آناپڑتاہے۔اسی لیے ہم کہتے ہیں کہ چودھری صاحب نے ایساکچھ نہیں کیاہوگالیکن اُدھرچونکہ معاملہ ہماری عقیدتوں کاہے اِس لیے ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ خاکم بدہن مولاناکوکوئی’’اُلٹی پُلٹی‘‘بشارت ہوگئی ہوگی۔اب یہی سوچاجاسکتاہے کہ چودھری صاحب نے انقلابیوں کو’’وَخت‘‘میں ڈالنے کے لیے ضروردوائی ڈالی ہوگی تاکہ خود ہیلی کاپٹرمیں بیٹھ کرانقلابیوں کی بے بسی کا’’چسکے‘‘لے لے کرنظارہ کریں۔

Prof Riffat Mazhar
About the Author: Prof Riffat Mazhar Read More Articles by Prof Riffat Mazhar: 863 Articles with 556106 views Prof Riffat Mazhar( University of Education Lahore)
Writter & Columnist at
Daily Naibaat/Daily Insaf

" پروفیسر رفعت مظہر کالمسٹ “روز نامہ نئی ب
.. View More