’کتب خانے تاریخ کی روشنی میں‘اہل علم کی نظر میں

(راقم الحروف کی تصنیف کتب خانے تاریخ کی روشنی میں ۱۹۷۷ء میں شائع ہوئی تھی جو عہد اسلامی اور عہد قدیم کے کتب خانوں کی مختصر تاریخ ہے۔ کسی بھی موضوع پریہ میری اولین تصنیف تھی۔ کراچی کے ایک پبلشر قمر کتاب گھر نے اسے شائع کیا تھا۔ کتاب پر مختلف ماہرین لائبریری سائنس نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ مختلف اخبارات اور رسائل میں اس کتاب پر تبصرے بھی شائع کیے۔ ذیل میں ان تبصروں اور ذخیالات کی مختصر تفصیل درج ہے)

ڈاکٹر صمدانی کی یہ دوسری تصنیف تھی جو ۱۹۷۷ء میں شائع ہوئی۔بنیادی طور پر یہ کتاب لائبریری سائنس کے نصاب کے مطابق تحریر کی گئی اور لائبریری سائنس کے مضمون ’کتب خانوں کی تاریخ ‘ کا احاطہ کرتی تھی۔ کتاب کا تعارف لائبریری سائنس کے استاد اور جامعہ کراچی کے لائبریرین جناب محمد عادل عثمانی نے تحریر کیا ۔ ’’فاضل مصنف کی یہ کتا ب اس اعتبا ر سے اہمیت کی حامل ہے کہ اسے ایک مقصد سے مر تب کر نے کی کوشش کی ہے اور وہ مقصد لائبریری سائنس کے موضوع پر نصابی کتب کے فقدان کو دور کر نا ہے‘‘ ۔ لائبریری سائنس کے ایک استاد و مصنف ڈاکٹر انیس خورشید نے اپنے ایک مضمو ن میں اس کتاب کے بارے میں لکھا ’’ تاریخ کے موضوع پر ایک مختصر کتاب رئیس احمد صمدانی کی ہے جسے’’ کتب خانے تاریخ کی روشنی میں‘‘ کے نام سے ۱۹۷۷ء میں کراچی سے قمر کتا ب گھر نے شائع کیا ہے۔ یوں تو نام کے اعتبار سے اس کتاب میں کتب خانوں کی پوری تاریخ کو شامل ہونا تھا لیکن کتب صرف عہد قدیم اور بر صغیر پاک و ہند کے قدیم شاھان اودھ تک کے کتب خانوں کا احاطہ سر سری طور پر کر پائی ہے‘‘۔ڈاکٹر انیس خورشید کا یہ مضمون ماہنامہ کتا ب ، لاہور۔۱۵(۴) : ۷۰، فروری ۱۹۸۱ء
میں شائع ہوا تھا۔

لائبریری سائنس کے معروف مصنف الحاج محمد زبیر نے کتاب کے بارے میں تحریرفرمایا ’’میرے ہم پیشہ و ہم مشرب رئیس احمد صمدانی نے کتب خانوں پر کتب لکھ کر بڑی عمدہ مثال قائم کی ہے۔ یہ کام بڑی خوبی سے انجام دیا ہے میری یہ دعا ہے کہ خدا انہیں یہ سلسلہ قائم رکھنے کی توفیق دے ۔میری رائے میں یہ قابل قدر کتاب اس نوجوان نسل کے لیے خاص طورپر بڑی سود مند ہوگی جو کتب خانوں سے دلچسپی رکھتے ہیں۔ خیال رہے کہ میری یہ رائے محض رسمی رائے نہیں ہے بلکہ یہ اس شخص کی رائے ہے جو خود بھی اس موضوع پر بہت کچھ لکھ چکا ہے اور جس نے اپنی عمر کے ۵۵ برس کتب خانوں اور فن کتب داری کی خدمت میں گذارے ہیں‘‘۔ (الحاج محمد زبیر۔ ۲۱ نومبر ۱۹۷۸ء)۔ پروفیسر سید لطف اﷲ سابق پرنسپل سراج الدولہ گورنمنٹ کالج و گورنمنٹ غزالی کالج حیدر آباد اپنی رائے کا اظہار کر تے ہوئے لکھا کہ ’’ میرے خیال میں یہ بات بلا خوف و تر دید کہی جاسکتی ہے کہ صمدانی صاحب کی یہ کتاب لائبریری اور لائبریری سائنس کے علم میں بہترین اضافہ ہے ‘‘۔ ( ۳۰ اپریل ۱۹۷۹ء)

اس کتاب پر ماہنامہ افکار، کراچی نے تبصرہ کر تے ہوئے لکھا ’’ کتابچہ بڑے ذوق و شوق کے ساتھ تر تیب دیا گیاہے، زبان تحقیقی ہو نے کے علاوہ خاص رواں اور شگفتہ ہے اور قاری کو معلومات بھی بہم پہچاتی ہے اور اس کی دلچسپی بھی قائم رکھتی ہے‘‘۔ (ماھنامہ افکار، کراچی۔ ۳۴(۱۔۲) : ۷۱۔۷۲، ستمبر ۱۹۷۸ء)

ماہنامہ تخلیق لاہور نے لکھا ’’ کتاب لائبریری سائنس کے موضوع پر نصابی کتب کی کمیابی کو پورا کرتی ہے دوسرے حضرات جو اس موضوع سے دلچسپی رکھتے ہیں ان کے لیے بھی ایک گرانقدر اضافہ ہے‘‘۔ (ماہنامہ تخلیق لاہورَ ۱۰ (۹۔۱۰) : ۱۳۲، ۱۹۷۹ء)

ماہنامہ قومی زبان کراچی نے تبصری کر تے ہوئے لکھا ’’ تاریخ اسلام کے کتب خانوں کے بارے میں جو معلومات یکجا کی جاسکتی تھیں مولف نے نہایت خوبی کے ساتھ جمع کر دی ہیں جن کا مطالعہ افادیت سے خالی نہیں‘‘۔ (ماہنامہ قومی زبان کراچی۔ ۴۷ (۱۲) : ۵۲ ، دسمبر ۱۹۷۷ء)

ہفت روزہ ادراک سیالکوٹ نے لکھا ’’فاضل مصنف نے کافی مواد قارئین کے لئے جمع کیا ہے اور عرق ریزی سے ایک ایسی دستاویز کتابی شکل میں پیش کی ہے جو وقت کی ایک ضرورت تھی ‘‘۔ ( ادراک، سیالکوٹ۔ ۱۰ )۵۔۶) : ۲۶ ، یکم تا ۱۵ فروری ۱۹۷۸ء)

معروف شاعر رئیس امروہوی مرحوم نے روزنامہ جنگ کراچی میں اس کتاب پر تبصرہ کر تے ہوئے لکھا ’’ ابتدا سے اب تک اہم کتب خانوں کے بارے میں قابل قدر معلومات فراہم کی ہیں اور آشور بنی پال اور اسکندریہ سے لے کر خدابخش پٹنہ لائبریری اور شاہان اودھ کے کتب خانوں تک کا اجمالی مگر جامع جائزہ لیا گیا ہے‘‘۔ ( روزنامہ جنگ کراچی۔ ۲۹ مئی ۱۹۷۸ء)۔ روزنامہ جنگ نے اپنی اشاعت ۲۹ مئی ۱۹۷۸ء کر تے ہوئے کتاب کو اپنے موضوع پر مفید اور معلوماتی کتا ب قرار دیا۔ روزنا مہ نوائے وقت کراچی نے اپنی اشاعت ۱۵ جنوری ۱۹۷۸ء میں لکھا کہ اپنے موضوع کے اعتبار سے اردو میں ایک منفرد کتاب ہے اور عہد در عہد تک کتب خانونے کس طرح اور کہا ں کہاں قائم ہوئے اور یہ جاننے کے لئے فاضل مصنف صمدانی صاحب نے بیش قیمت معلومات یکجا کی ہیں۔

روزنامہ حریت کراچی نے اپنی اشاعت ۹ ستمبر ۱۹۷۸ء میں کتا ب کے بارے میں لکھا ’’ جس موضوع پر رئیس احمد صمدانی نے قلم اٹھایا ہے وہ ایک عرصہ سے تشنہ تھا۔ مصنف نے برک محنت سے اس کتا ب میں مواد جمعہ کیا ہے۔ یہ کتا ب کتب خانو ں سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے ایک اچھی کوشش ہے‘‘۔

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1279580 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More