دھرنے کیسے ختم ہو سکتے ہیں

ہو سکتا ہے یہ سطور آپ تک پہنچنے سے پہلے ہی دھرنے کا اونٹ کسی کروٹ بیٹھ جائے لیکن تادم تحریر عوامی تحریک اور تحریک انصاف کا دھرناجاری ہے اورہزاروں افراد اب بھی ریڈ زون میں بیٹھے ہیں،ایک دن خبر آتی ہے کہ معاملات سلجھ رہے ہیں تو اگلے دن پھراُلجھ جاتے ہیں۔حکومت کا کہتی ہے وزیراعظم کے استعفے اور اسمبلیوں کی تحلیل کے علاوہ تحریک انصاف کے سارے مطالبات ماننے کو تیا ر ہیں لیکن عمران خان وزیراعظم کے استعفے سے کم کسی بات پر راضی نظر نہیں آتے۔دونوں فریقوں نے دراصل اسے اناکامسئلہ بنا لیا ہے،عمران خان اور ڈاکٹر طائرالقادری لاہور سے نکلتے وقت یہ اعلان کر کے نکلے تھے کہ نواز شریف سے استعفیٰ لے کر آئیں گے ورنہ بیٹھے رہیں گے جبکہ نوازشریف نے کہہ دیا تھا کہ وہ کسی صورت استعفیٰ نہیں دیں گے۔ان حالات میں کیا کوئی درمیانی صورت نکل سکتی ہے جس پر دونوں فریق اتفاق کر لیں،دھرنے بھی باعزت ختم ہو جائیں حکومت بھی نہ ٹوٹے اور سب کا سیاسی مستقبل بھی محفوظ رہے ،یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ایک خدشہ بہرحال موجود ہے،اگر حا لات ایسے ہی رہے اور فریقین 1977 ؁ کی طرح اپنے اپنے موقف پر ڈٹے رہے تو نتیجہ بھی ویسا ہی نکل سکتا ہے جیسا1977 ؁ میں نکلا تھا،کیونکہ جس بھی فریق کو لگے گا کہ اس کا سیاسی کیریئر اختتام کی طرف جا رہا ہے وہ یہی کوشش کرے گا کے ایسے حالات پیدا کئے جائیں کی ساری بساط ہی لپٹ جائے ،لیکن ایسانہ تو دھرنے والوں اور حکومت کے لیے بہتر ہوگا نہ ہی پاکستان کے حق میں ہے۔

مذاکرات کئی دن سے جاری ہیں روزانہ قوم کہ خوشخبری دینے کی بات کی جاتی ہے لیکن ہر دفعہ مذاکرات کی تان وزیر اعظم کے استعفے پر آ کر ٹوٹ جاتی ہے۔ دھرنا اب ضدی بچوں کے جھگڑے کی شکل اختیار کرچکاہے،ایک کا دعویٰ ہے کھلونا اس کا ہے جب کے دوسرے کا اصرار ہے کہ اس نے کھلونے پر زبردستی قبضہ کیا ہواہے اور دونوں میں سے کوئی بھی اپنی بات سے پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں،ایسی صورت حال میں عموماً گھر کا کوئی بڑاکھلونا لے کراپنے پاس رکھ لیتا ہے،پھر دونوں بچے جتنی مرضی چیخ وپکار کرتے رہیں کوئی فائدہ نہیں ہوتا،سب جانتے ہیں کہ اس گھر کے بڑے کون ہیں اور کھلونا ان کے پاس جانے کا مطلب کیا ہے، اس لیے بہتر یہی ہے کہ کسی مداخلت سے پہلے ہی آپس میں بیٹھ کر مسائل حل کر لیے جائیں۔مارشل لاء نہ بھی آئے پھر بھی صورت حال ایسی ہے کہ دونوں فریقوں کو ضد اور ہٹ دھرمی چھوڑ دینی چاہیے،ملک کی معاشی ترقی رک سی گئی ہے،سٹاک ایکسچینج میں کئی دن سے شدید مندی کا رُحجان ہے،کاروبارٹھپ پڑے ہیں،دارلحکومت کے سرکاری اداروں میں حاضری نہ ہونے کے برابر ہے،اسلام آباد کے سکولز،کالجز اور یونیورسٹیز میں گرمیوں کی تعطیلات کے بعد معمول کی تعلیمی سرگرمیاں ابھی تک شروع نہیں ہو سکیں ہیں۔اگر مزید کچھ دن سب کچھ ایسے ہی چلتا رہا تو حالات اور بھی خراب ہو سکتے ہیں کیونکہ عمران خان نے احتجاج اور دھرنے باقی شہروں تک پھیلانے کی بھی دھمکی دی ہے اور کچھ شہروں میں احتجاج شروع بھی ہوچکاہے۔اب سوال یہ ہے کہ عمران خان کو ان حالات میں کیا کرنا چاہیے جس سے ان کی سیاسی ساکھ بھی متاثر نہ ہو اور ملک میں مارشل لاء بھی نہ آئے،ظاہر ہے نوازشریف تو کسی صورت استعفیٰ نہیں دیں گے ایک تو ان کے پاس یہ جواز ہے کہ وہ منتخب وزیراعظم ہیں اور تحریک انصاف کے علاوہ تمام پارلیمانی پارٹیاں ان کے ساتھ ہیں،دوسرے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے ہمیشہ اقتدار کو ملکی مفادات پر ترجیح دی ہے۔عمران خان کو وزیر اعظم کے استعفے والے مطالبے پر لچک کا مظاہرہ کرتے ہوئے حکومت سے کچھ ایسے مطالبات منوا لینے چاہیں جن سے ایک تو آئندہ دھاندلی کا راستہ ہمیشہ کے لیے بند ہو جائے،دوسرے موجودہ الیکشن میں ہونے والی دھاندلی کی غیرجانبدارنہ تحقیقات ہو سکیں۔ ان کو چاہیے کہ وہ دھاندلی کی تحقیقات کے لیے بنائے گئے سپریم کورٹ کے کمیشن کو تسلیم کر لیں، لیکن کمیشن کی سربراہی کے لیے ایسے جج کا نام پیش کریں جس پر انھیں اعتماد ہو۔اگر تحریک انصاف کے پاس دھاندلی کے ٹھوس ثبوت موجود ہیں تو پھر انھیں اس بارے میں پریشان نہیں ہونا چاہیے کہ کمیشن موجودہ وزیراعظم کے ہوتے ہوئے آزادانہ تحقیقات نہیں کر سکتا،کیونکہ حکومت صرف ثبوت جمع کرنے میں رکاوٹ ڈال سکتی جبکہ تحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ ثبوت ان کے پاس موجود ہیں تو پھر پریشانی کس بات کی؟ اپنے ٹھوس ثبوت کمیشن کے سامنے پیش کردیں،کمیشن میں شامل غیرجانبدار جج یقیناً ان کے حق میں فیصلہ کریں گے اگر ثبوت واقعی ٹھوس ہوئے تو۔الیکشن اصلاحات سے متعلق ضروری قانون سازی کا مطالبہ بھی وہ منوا سکتے ہیں،حکومت کو بھی چاہیے کہ الیکشن اصلاحات کے لیے بنائی گئی پارلیمانی کمیٹی کا چیئرمین عمران خان کو یا عمران خان کے نامزد کردہ کسی فرد کو بنا دے یہ بھی کپتان کی ایک بڑی کامیابی ہو گی۔اس کے علاوہ الیکشن کمیشن کی تشکیل نو،کرپشن کیسز کی تحقیقات اور سزاؤں کے لیے احتساب بیورو کی خودمختاری اور آئی ایم ایف کی شرائط پر مزید قرضہ نہ لینا ایسے مطالبات ہیں جو عمران خان منوا سکتے ہیں۔اس سے ان کے سیاسی قد میں بھی اضافہ ہو گا اور معاملات جس بند گلی کی طرف جا رہے ہیں اس سے نکلنے میں بھی مدد ملے گی اور جمہوریت بھی چلتی رہے گی۔اگر ایسا نہ کیا گیا اور عمران خان یوں ہی کھیلنے کو چاند مانگتے رہے اور میاں نواز شریف یہ چاند دینے سے ایسے ہی انکاری رہے تو دونوں کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔جہاں تک عوامی تحریک کا تعلق ہے اُنھیں بھی نواز شریف کے استعفے کے بجائے شہباز شریف کے استعفے اوران کے خلاف ایف،آئی ،آر پر معاملات طے کر لینے چاہیں،کیونکہ سانحہء ماڈل ٹاؤن بنیادی طور پر پنجاب حکومت کی نااہلی ہے وفاقی حکومت کا اس کے ساتھ براہ راست کوئی تعلق نہیں۔عوامی تحریک کے دس نکات میں سے کچھ پر عمل اس وقت عملاً ناممکن ہے اور یہ بات عوامی تحریک کی قیادت بھی بخوبی جانتی ہو گی کہ یہ صرف سیاسی مطالبات ہیں،جیسے بجلی،گیس کے بل اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیںآدھی کرنا،آٹا،دالیں،چینی،چاول وغیرہ عوام کو آدھی قیمت پر مہیا کرنا،البتہ ان سب چیزوں کی قیمتیں آئندہ ایک سال تک نہ بڑھانے کا مطالبہ حکومت سے منوایا جا سکتاہے۔اس سے یقیناًعوامی تحریک کی مقبولیت میں بھی اضافہ ہو گا اور غریب عوام کا بھی بھلا ہو گا،اسی طرح باقی مطالبات پر بھی کوئی درمیانی راہ نکالی جا سکتی ہے۔لیکن یہ سب تبھی ممکن ہے اگر سب کے پیش نظر عوام کی بہتری ہووگرنہ ہم دونوں طرف سے یہی سنتے رہیں گے کہ ہمارے دروازے مذاکرات کے لیے کھلے ہیں لیکن ہم اپنے کسی بھی مطالبے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے،کوئی ان سب سے پوچھے کہ جب کسی نے بھی اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹنا تو پھر مذاکرات کا کھیل کس لیے؟؟؟؟

Dr M. Nadeem
About the Author: Dr M. Nadeem Read More Articles by Dr M. Nadeem: 15 Articles with 10968 views A medical specialist working as Assistant Professor of Medicine in a Medical college and also a non professional columnist... View More