اسلام آباد بحران ،کیا کھویا کیا پایا ؟

سول نا فرمانی کا اعلان کر ے تحریک انصاف نے براہ راست حکومت وقت سے بغاوت کا اعلان کردیا ہے اب ملک کی دیگر سیاسی جماعتوں کو میدان میں آنے کی ضرورت ہے کہ وہ جنونیوں ا انقلابیوں کو کس طرح مملکت میں انتشار و افراتفری پھیلانے سے روکنے میں کامیاب ہوتے ہیں یا میاں نواز شریف کی سست پالیسوں کی سبب پیدا شدہ کشیدہ صورتحال کا پس پردہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ بظاہر تو تقریبا ہر سیاسی جماعت تدبر سے صورتحال کو حل کرنے پر زدے رہی ہے لیکن اس بات سے کوئی انکار نہیں کرے گا کہ بہرحال اقتدار میں آنے کی خواہش تو ہر سیاسی جماعت کی ہے اوراب تحریک انصاف ناعاقبت اندیشی میں اپنا کندھا استعمال کروارہی ہے تو بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے سے کوئی کسی کو کیا روکے ۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ گذشتہ سال176ممالک کی فہرست میں ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان بد عنوانی کے 42واں نمبر سے33درجے پر پہنچ چکاہے ۔ارباب اقتدار اصلاح کے بجائے اپنے ایک ایک پل کو کرپشن تحفظ کیلئے دل و جان کی بازی لگاتے رہے ہیں۔عمران خان ،طاہرالقادری کے ایجنڈے پر تو مکمل متفق ہیں ۔پاکستان میں لانگ مارچوں سے ہمیشہ فائدہ تیسری قوت کوپہنچا ہے۔اب تیسری قوت کون ہے اس بارے میں متضادآرا ہیں اسلئے اس پر توقف کرتے ہیں کہ جو کچھ بھی ہو،انقلاب کی پر امن ماہیت تو قدرتی تبدیل ہو سکتی ہے ، ہزاروں( یا لاکھوں)مشتعل افراد کو31 ہزار نفوس پر مشتمل بچارے سیکورٹی والے نہیں روک سکیں گے یا نہیں لیکن جس طرح عمران خان اور طاہر القادری کے عزائم ہیں اس میں تصادم کا مکمل خطرہ ممکن بھی ہوسکتا ہے کیوں وہاں کوئی بھی پکنک منانے نہیں جا رہا ۔اسلام آباد کی سیاسی سردی کم کرنے کیلئے آگ بھی ضرور جلے گی ،نتائج کچھ بھی ہو لیکن "لگ پتہ چل جائے گا"۔پاکستان اپنے دورپیدائش سے جن کیفیات سے گذر رہا ہے اور لانگ مارچ ، اس سے پہلے بھی کئے جاتے رہے ہیں اس کا فائدہ براہ راست عوام کے غیر سیاسی قوت کو ہی پہنچتا رہا ہے۔قیام پاکستان کی سیاسی تاریخ کا پہلا لانگ مارچ1958ء میں اسکندر مرزا کے خلاف خان عبدالقیوم خان کی جانب کی گئیں۔نتیجہ یہ نکلا کہ اقتدار سیاسی ہاتھوں سے سیاسی ہاتھوں میں جانے کے بجائے فوجی آمر ایوب کے ہاتھوں چلا گیا۔پھر ایوب خان کیخلاف 1968ء میں تحریک چلی تو اقتدار سیاسی ہاتھ کے بجائے فوجی ہاتھوں میں ہی گیا۔سقوط ڈھاکہ کا المیہ ہونے کے بعد بھی کسی نے ہوش کے ناخن نہیں لئے اور پاکستان کے بٹوارے کے بعد ذوالفقار بھٹو کیخلاف تحریک چلی تو اقتدار پھر فوجی جنرل ضیا ء الحق کے ہاتھوں 1977ء میں چلا گیا ۔پاکستانی قوم کولانگ ماچ ،احتجاجی تحریکیں چلانیکا بہت تجربہ , لیکن نتائج کی پرواہ نہیں ہے اسلئے جب جنرل ضیا ء کے خلاف تحریکیں چلیں تو کونے کدرے سے بنائے جانے واے وزیر اعظم محمدخان جو نیجو کے ہاتھوں اقتدار چلا گیا لیکن یہ بھی غیر سیاسی ہاتھوں سے غیر سیاسی ہاتھوں میں اقتدارکی منتقلی کا سبب بنا۔بے نظیر بھٹو ہوں یا نواز شریف ، باری باری ایک دوسرے کو ہٹواتے رہے اور جمہوریت کو گھر کی لونڈی بنا کر ایسے اپنے محلات کی رکھیل بنا دیا۔میاں صاحب سے مینڈیٹ پرویز مشرف کو منتقل ہوا تو 2008میں ایک بار پھر اقتدار این آر او کے تحت ماضی کی تقلید کرتے ہوئے سب پر بھاری ، جناب زرداری کو منتقل ہوگیا جنھوں نے جمہوریت کے تمام اصول تبدیل کرکے ثابت کردیا کہ جمہوریت میں اقلیت بھی اکثریت پر غلبہ پا کر اقتدار حاصل کرسکتی ہے لہذا پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ اقتدار سیاسی ہاتھوں سے سیاسی ہاتھوں کو منتقل ہوا ۔ حالاں کہ اس پانچ سالہ دور میں پس پردہ کافی کوششیں ہوئیں کہ کسی طرح حکومت برخاست ہوجائے ، مڈٹرم انتخاب ہوجائے ، عدلیہ فوج کو حکومتی نا اہلی پر آئین کے تحت اقتدار سونپ دے وغیرہ وغیرہ ، سونامی خان بھی آئے تو ایسا لگا کہ جیسے پاکستان کی سیاست میں بھونچال آگیا ہو ،پرندے اُڑ اُڑ کر انصاف کے سائبان میں جگہ بنانے لگے سربیا کی ہواؤں نے رخ بدلا تو پرندے ہرجائی محبوب کی طرح میاں صاحب کے گرد جمع ہونے شروع ہوگئے۔ سونامی خان کا چارنشستوں سے مطالبہ وزریر اعظم کے استعفی تک جا پہنچا ہے ۔ ویسے سچی بات ہے کہ اب بھی کسی کو نہیں معلوم کہ ہوگا کیا ، ۔دل کی تمنا اور دعا تو یہی ہے کہ اقتدار سیاسی ہاتھوں سے سیاسی ہاتھوں میں ہی پہلی بار کی اسی طرح منتقل ہوتا رہے ، اقتدار اور اس پر براجمان کسی کو پسند نہیں تو وہ اپنے رویوں کو تبدیل کریں ، ورنہ ایجنڈا تو سب سے اچھا اگر دیکھا جائے تو مذہبی جماعتوں اور عسکریت پسندوں کے پاس ہے کہ اگر چوری کرو گے تو ہاتھ کاٹ دیا جائے گا ، زنا کرو گے تو فوری سز ملے گی ، قتل کا قصاص اور انصاف فوری طور پر ہوگا ، سب مسلمانوں کو صلوۃ کا پابند بنا دیا جائے گا ۔ زکوۃ سے بچنے کیلئے کسی کو یہ حلف نامہ نہیں دینا پڑے گا کہ وہ کسی دوسرے مسلک سے تعلق رکھتا ہے ، فحاشی ختم ہوجائے گی ۔ بے پردگی سے نوجوان نسل تباہ و برباد ہو رہی ہے اس کو لگام مل جائے گی ، کرپشن و رشوت کا مطلب سخت ترین فوری سزا ہوگا ۔ دہشت گردی کا تو خود خاتمہ ہوجائے گا ۔ مسالک میں کوئی کسی کو گالیاں نہیں دے گا۔ دین کے ساتھ ساتھ ، مذہب کی بھی پوری پوری آزادی ہوگی ۔کیوں یہ سب کچھ سعودی عرب میں نہیں ہوتا ، منشیات کی سزا موت ہوگی ۔یہ تو غیر مسلم ممالک میں بھی ہے ۔ نام نہاد سیاسی جماعتوں پر خود بخود پابندی لگ جائے گی ۔وغیرہ وغیرہ ۔ اگر اسلام کا منشور ، اس جمہوریت سے بہتر ہے تو پھر کیا حرج ہے کہ ایسا نظام پاکستان میں نافذ ہوجائے ، جس میں اسلام اور غیر مسلموں کو وہ تمام حقوق ملیں جو دین کا تقاضا ہے ، یہاں اعتراض ہوسکتا ہے کہ کونسامسلک ، ملک کا حکمران بنے گا تو بھائی ، پاکستان میں وزیر اعظم کون بنتا ہے ، اسی جماعت کا سربراہ بنتا ہے نا ، جیسے اکثریت مسترد کرتی ہے ، پاکستان کا تمام انتخابی ریکارڈ دیکھ لیں کہ اکثریت کے مقابلے میں اقلیت ہی نے حکومت بنائی ہے ۔ اب آپ یہ کہو گے کہ طالبان کا یہ ایجنڈا تو دہشت گردی ہے ، نقصانات ہیں ، عوام کی تباہی ہے تو یہ جو پاکستان کی سیاسی جماعتیں ہیں تو ان کا ایجنڈا کیا ہے ، کیا یہ سرکاری املاک کو تباہ نہیں کرتے ، بے گناہ عوام کی ٹارگٹ کلنگ نہیں کرتے ، دہماکوں سے نہیں اتنے معصوم لوگ ہلاک نہیں ہوتے ، جتنے سیاسی مخالفین کی وجہ سے مار دئیے جاتے ہیں ۔ نظام شریعت کا مطلب قطعی طور پر وہ نہیں جو نام نہاد علما ء سو بیان کرتے ہیں ۔ اگر عوام میں تبدیلی کا شعور ہوتا اور وہ تبدیلی چاہتے تو پورے پاکستان میں گلی در گلی انقلاب و مارچ ہو رہا ہوتا، خیر آپ کو یقین نہیں تو یہ بھی "لگ پتہ چل جائے گا "۔لیکن کیسے ؟ دیکھنا ہوگا ان دونوں کیٹینروں والوں کے جنونیوں اور انقلابیوں کو جو مری اور اسلام آباد کی مفت سیر کو نکلے ہیں۔چشم فلک نے یہ نظارہ بھی دیکھا کہ اُن نئے پاکستان بنانے والوں کو ، کہ ان کی عوام بارشوں کی وجہ سے ہلاک ہو رہی ہے ،گھر تباہ و برباد ہو رہے ہیں اور وہ اسٹیج پر رقص کرکے جشن منا رہے ہیں۔جس ملک کے حکمرانوں کی یہ حالت ہو تو پھر قدرتی آفات عوام پر اسی لئے آتی ہیں کیونکہ انھوں نے اس طرح کے حکمرانوں کو منتخب کیا ہوتا ہے۔تادم تحریر لانگ و انقلاب کا انجام نہ جانے کیا ہوگا لیکن ایسا لگتا ہے کہ جنھوں نے یہ سب کچھ شروع کیا ہے وہ مملکت کو افراتفری میں لا کر اپنے مفادات حاصل کرلیں گے اور بتدریج تینوں فریقین کا مذاکرات پر آجانا ثابت کرچکا ہے کہ اسکرپٹ طے شدہ ہے۔
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 659414 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.