مسئلۂ فلسطین : صہیونی سازشیں اور مسلم حکمرانوں کی بے حسی

وسیع تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا ہوّا کھڑا کر کے کچھ عرصہ قبل عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی۔ لاکھوں افراد متاثر ہوئے۔ ہزاروں جانوں کا اتلاف ہوا۔ امن والے ملک کو بدامنی کا شکار بنایا گیاجو اب تک بدامنی کا شکار ہے۔ عربوں کے درمیاں مسلمان خون میں نہاتے رہے۔ چاروں طرف مسلم مملکتیں امریکی فوج کے ذریعے عراقیوں کا خون بہتا دیکھتی رہیں۔ کسی نے ہم دردی نہ جتائی۔ ہم دردی کیسے ہوتی؟ شاہانِ حرمین نے عراق کی تباہی کو ریاض میں امریکی فوجی مرکز کے قیام وانصرام میں مدد دی تھی۔ صدام گرچہ ماضی میں آمر رہا ہو لیکن ڈکٹیر شپ کے خاتمہ کے بعد اس کے نئے دور کا آغاز ہوا تھا۔ جس میں اس کے اندر مسلم قومی جذبہ عود کر آیا تھا۔ اسے فلسطین کی آزادی عزیز تھی۔ اسرائیل کے لیے صدام ایک خوف تھا۔ اسرائیل کو خدشہ تھا کہ اگر صدام پاور فل بن گیا تو کہیں فلسطین کی آزادی کے لیے عملی تگ ودو کے عہدِ نو کا آغاز نہ ہوجائے۔ اس لیے اسے راستے سے ہٹانے کے لیے مسلم ممالک کی مدد سے امریکہ کو عراق پر مسلط کر دیا گیا۔UNOکی فوج صدام کے مقابل امریکہ کے شانہ بشانہ تھی۔

جو ملک فلسطین کی آزادی کی بات کرے گا اسے تباہی سے دوچار ہونا پڑے گا، یہی صہیونی سازش ہے، افسوس اس بات کا ہے کہ مسلمانوں کی تباہی کے لیے اغیار کی سازشوں کو کامیاب بنانے والے ہمارے اپنے ہی رہے ہیں۔ عراق کی تباہی کے لیے عرب مسلم حکمراں ذمہ دار ہیں۔ اگر وہ امریکہ کے حملے کی شدید مخالفت کرتے تو مجال نہ تھی کہ مسلم حکومتوں کے درمیاں مسلمانوں کو لہولہان کیا جاتا۔ لیکن عربوں میں اقتدار کا ایسا نشہ پیدا کر دیا گیا ہے کہ وہ اپنے پڑوس میں کسی بھی مسلم ملک کو طاقت ور نہیں دیکھنا چاہتے۔ انھیں خدشہ ہے کہ ایک ملک طاقت ور ہو گیا تو کہیں ہمارا اقتدار خطرے میں نہ آجائے۔ اسی لیے وہ ابھرتی مسلم قوت کو صہیونی فوج کی مدد سے خاک میں ملا دیتے ہیں۔

عراق کی تباہی کے بعد بھی مسلم حکمرانوں کی بے حسی رہی۔ کچھ چنگاری شام و لیبیا میں باقی تھی۔ انھیں خانہ جنگی کا شکار بنادیا گیا۔ باغیوں کو صہیونی قوتوں نے ہتھیار سپلائی کیا۔ اور خوش حال مملکتوں کو خانہ جنگی کی بھیانک منجدھار میں ڈھکیل دیا گیا۔ ثقافتوں کو مٹانے کی کوشش بھی ہوئی۔ اس درمیان باغیوں نے شام ولیبیا میں مزاراتِ صحابہ و اسلامی آثار کو شرک وبدعت کے مراکزقرار دے کر شہید کیا، مسلم ورثے کو نقصان پہنچاتے رہے۔ دوسری طرف یہودی مسجد اقصیٰ کی بنیادیں کھود کھود کر اپنے آثار تلاش کرتے رہے۔ مسلم کہلانے والے اپنی تاریخ کو خود کھود رہے ہیں۔ جب کہ اغیار اپنی تاریخ کے آثار تلاش کر رہے ہیں۔ یاد رکھنا چاہیے جو قوم اپنے ورثے کو مٹا دیتی ہے اس کی تاریخ دھندلا کر رہ جاتی ہے۔

جن عرب ملکوں سے اسرائیل کو خدشہ تھا ان کو ایک ایک کر کے کم زور و نحیف کر لینے کے بعد ماہِ صیام میں غزہ کے کم زور مسلمانوں پر وہ اٹیک کیا گیا کہ ظلم وستم کی تمام داستانیں دم ٹوڑتی نظر آتی ہیں۔ جدید ہتھیاروں سے لیس ہوائی ٹکڑیاں غزہ کے افق پر نمودار ہوتیں اور کسی غریب مکیں کو زندہ درگور کر دیتیں۔ زخموں کو مرہم سے محروم کرنے کے لیے ہسپتالوں تک کو نہیں بخشا گیا۔ UNOتماشائی رہا۔ انسانی لہو کی ہم دردی میں Natoنے اسرائیل پر اٹیک نہیں کیا۔ خیر UNOاسرائیل کے زیرِ دست ہے۔ ہمیں زیادہ شکوہ ان کا ہے جن کے پیٹرول سے پورا یورپ و امریکہ مسلم دنیا پر اثر انداز ہے۔ جس دولت سے قبلۂ اول کے تحفظ کو یقینی بنانا تھا اور فلسطینیوں کوجدید ہتھیار مہیا کروانا تھا اسی سے اسرائیل کو مضبوط کیا جارہا ہے۔ اسرائیل ظالم ہے لیکن اسے توانا کرنے والے عرب حکمراں بھی ظالم وجابر ہیں۔ غزہ کی ایک ماہ کی تباہی میں کسی دن یہ نہ ہوا کہ سعودی یا یمنی فوج اہلِ غزہ کی مدد کو آئی ہو۔ یا مصر،کویت، لبنان،اردن، شام، ایران، الجزائر، ترکی نے فوجی مدد سے اسرائیلی مظالم کے خلاف انسانیت کا دفاع کیا ہو۔ گرچہ قطر و ترکی نے دوبول ہم دردی کے ضرور بولے لیکن جب حملہ آور پے درپے مسلم جانوں سے مسلسل کھیل رہا ہو تو ہم دردی کے بول کافی نہیں ہوتے، ظالم کے ہاتھوں کو طاقت سے روکنا ہی اصل ہم دردی کا اظہار ہے!جس سے تمام مسلم حکمراں محروم ہیں۔

مجھے اس ضمن میں مطالعے کا ایک ورق یاد آیا۔ آل سعود کا برطانوی حکومت سے ۱۹۱۵ء میں ایک معاہدہ ہوا تھا۔یہ اس وقت کی بات ہے جب حجاز مقدس حرمین میں ترکی کی خدمت تھی جو یہودیوں کے ازلی دشمن تھے۔ اس وقت تک آل سعود علاقۂ نجد کے حکمراں تھے، برطانیہ کی خواہش تھی کہ حرمین سے ترکوں کا انخلا ہوجائے اور ان کی ہم درد حکومت قائم ہو تاکہ قضیۂ فلسطین یہودیوں کے مطابق حل ہو۔ اس وقت فلسطین پر برطانوی تسلط تھا ۔

یہود سے متعلق اپنے احساسات کو برطانوی جاسوسی ادارہ کے معتمد جان فلیپی کی ترغیب پر عبدالعزیز آلِ سعود نے جو تحریر ۱۹۱۵ء میں بزبانِ عربی خفیہ میٹنگ میں مع دستخط دی تھی اس کا ترجمہ کچھ اس طرح ہے:
’’میں سلطان عبدالعزیز بن عبدالرحمن آلِ فیصل آلِ سعود برطانیہ عظمیٰ کے مندوب سربرسی کوکس کے لیے ایک ہزار مرتبہ اس بات کا اعتراف واقرار کرتا ہوں کہ فلسطین کویہودیوں کے حوالے کرنے پر مجھے کوئی اعتراض نہیں یا برطانیہ اس فلسطین کو جسے چاہے دیدے۔میں برطانیہ کی رائے سے صبح قیامت تک اختلاف و انحراف نہیں کر سکتا۔ ‘‘ [از افادات تاریخ آل سعود،مصنفہ ناصرالسعید،ناشر منشوراتِ مکہ مکرمہ، مطبوعہ ۱۴۰۴ھ]

۱۹۲۵ء میں حجاز سے ترکوں کے انخلا کے بعدجب کہ جنت المعلیٰ مکہ معظمہ کے قبرستانوں سے اسلامی آثار کو ختم کیا جارہا تھاخلافت تحریک ہندوستان کا ایک وفد مقاماتِ مقدسہ کے تحفظ کی خاطر حجاز پہنچا اور سلطان کو ہندی مسلمانوں کے ان جذبات سے آگاہ کیا جن میں مقاماتِ مقدسہ کا تحفظ یقینی بنایا جانا تھا، اس ضمن میں وفد نے خود نوٹ کیا کہ سلطان کا مشیر ایک برطانوی شخص تھا جو صہیونی فکر کے مطابق سلطان کو ڈیل کرتا تھا۔اس بابت مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی و ظفر علی خان کی وہ تحریریں ملاحظہ کی جاسکتی ہیں جو’’مسئلہ حجاز‘‘ میں اسی وقت شائع ہوگئیں جن میں عربوں کے تئیں درپردہ صہیونی اثرات کی طرف کرب و اضطراب کے جذبات موجود ہیں۔

مذکورہ تجزیے کی روشنی میں اس نتیجے پر پہنچنا دشوار نہیں کہ کئی مسلم مملکتیں صہیونیوں کے اشاروں پر کام کررہی ہیں۔ وہاں مسلمانوں کے جذبات کی کوئی قدر نہیں۔ انھیں یہ پسند نہیں کہ امریکہ و برطانیہ ناراض ہوں۔ انھیں اس کی بھی پروا نہیں کہ لاکھوں مسلم بچوں کو انسانی حقوق سے محروم کر دیا گیا۔ انھیں اپنااقتدار عزیز ہے۔ برطانیہ و امریکہ کی خوش نودی عزیز ہے۔ وہ اپنی دفاعی قوت تیار کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ ہر مسلم ملک چاہتا ہے کہ اس کا پڑوسی ملک کم زور ہوجائے۔ دفاعی قوت سے محروم رہ جائے۔ اسی لیے فلسطینی اپنی کم زوری کے باجود اپنا دفاع آپ کر رہے ہیں۔ انھیں کسی مسلم ملک سے مدد کی آس نہیں۔ وہ جواں مردی کی مثال قائم کر رہے ہیں اور خدائی طاقت کے سہارے جدید ہتھیاروں کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ان کی جرأت مسلم امہ کے لیے بیداری کا پیغام ہے۔ ٭٭٭
 
Ghulam Mustafa Rizvi
About the Author: Ghulam Mustafa Rizvi Read More Articles by Ghulam Mustafa Rizvi: 277 Articles with 255142 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.