ہم آزاد ہیں

جون کا مہینہ تھا گرمی جوبن پر تھی۔ پنڈی اسلام آباد میں گرمی شدید ہوتی ہے۔ کلاس ون کے کچھ چھوٹے بچے ڈی ہائیڈریشن یعنی پانی کی کمی کی وجہ سے بے ہوش ہو گئے۔ والدین کو فون کیا گیا ۔ وہ آکر بچوں کو لے گئے۔ بڑی جماعتوں کی طالبات بھی موسم کی شدت سے پریشان ہیں۔ موسمِ گرما کی تعطیلات ہونے میں چھ سات دن باقی تھے۔ موسم کی حدت کی وجہ سے جڑواں شہروں میں چھٹیاں وقت سے ایک ہفتہ قبل ہی کر دی گئیں ۔ ایک حقیقی مسئلہ تھا گرم موسم معصوم بچوں کے لئے ناقابلِ برداشت تھا

موسمِ گرما کی تعطیلات ختم ہونے کے قریب تھیں ننھے طالبِ علموں نے گرمیوں کی چھٹیو ں کا کام مکمل کر لیا تھا ـ․طویل تعطیلات کے بعد ننھے جگمگاتے چہرے اسکول جانے کو بے چین تھے ۔روشن آنکھو ں والے بچے علم کے حصول کے لئے اپنی اپنی مادرِ علمی جانے کے لئے بے چین تھے کہ اعلان ہوتا ہے کہ وفاقی دارالحکومت کے تمام اسکول ۲۵ اگست تک کے لئے بند کر دیئے گئے ہیں۔ اسکول بند ہونے کا مطلب ہے تعلیم کے دروازے بند کر دیئے گئے ہیں۔

انقلاب آجائے گا۔ آزادی بھی مل جائے گی۔ مگر علم کے دروازے بند کر دیئے جا ئیں گے۔ تعلیم حاصل کر کے ہی کوئی معاشرہ ، قوم اور فرد ترقی کے زینے چڑھ کر کامیابی حاصل کر سکتا ہے ۔اسکول کے بند دروازے دراصل ترقی اور کامیابی کا دروازہ بند کر دینے کے مترادف ہے۔ پاکستان کا بنیادی مسئلہ جہالت ہے۔ ’’ جب کسی ملک کے عوام کو یہ معلوم نہ ہو کہ انہیں کیا چاہیے اور کیا نہیں تو پھر مسئلوں کے حل ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہیــ‘‘ ۔ جون ایلیا نے کیسا سچ کہا تھا۔

انقلابی دھرنے اور آزادی مارچ کے مقاصد چاہے کتنے ہی شاندار کیوں نہ ہوں ان کے نتیجے میں جو بھی انقلاب رونما ہو جائیں یہ معصوم طلباء کے تعلیمی نقصان کا نعم البدل ہو ہی نہیں سکتا۔ کئی اسکولوں میں اسکولوں کے کھلتے ہی مڈٹرم امتحانات اور ماہانہ امتحانات شروع ہونے تھے۔ ویسے بھی طویل تعطیلات کے بعد اسکول جانا بچوں کا حق تھا۔ انقلابی دھرنے اور آزادی مارچ کرنے والوں میں سے بیشتر کے بچے تو بین الاقوامی اسکولوں میں تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ لہٰذا ان کو اس بات کی پرواہ کیوں ہو کہ اسکول اگر سات دن مزید بند ہوئے تو بچوں کا کتنا نقصان ہوگا؟

میرے گھر کام کرنے والا کل مجھ سے ایک ہفتے کی چھٹی مانگ رہا تھا۔ میں نے پوچھا ابھی تو تم عید کی چھٹی کر کے آئے ہو۔ اب دوبارہ کیوں چھٹی چاہیے تو اُس نے جواب دیا باجی میری امی کہہ رہی تھیں ہم دھرنے میں جائیں گے وہاں کھانا پینا سب فری اور دن رات وہاں رہنے پر پیسے بھی ملیں گے۔ جن دھرنوں میں کرائے کے انقلابی شریک ہوں اور جن کو انقلاب کے معنی تک معلوم نہ ہوں جن کو روٹی کی مانند دکھائی دیتا ہو۔ کیا ایسا مجمع انقلاب لا سکتا ہے؟

پورا شہر یرغمال بنا لیا گیا ہے۔ اسپتال تک پہنچنے کے راستے بند ہیں۔ الیکشن میں برپا ہونے والی دھاندلی پر کپتان کا موقف سو فیصد درست ہے مگر اس موقف کو سامنے لانے کا طریقہ سو فیصد غلط ہے۔ آزادیِ اظہار کا ہر وہ طریقہ جس سے عام آدمی متاثر ہو ، طلباء متاثر ہوں ، بیمار خواتین و حضرات متاثر ہوں، بچے متاثر ہو ں ہرگز متاثر کن نہیں ہو سکتا۔ ایسا لگ رہا ہے اپنے ہی گھر کو آگ لگا کر تماشا دیکھا جارہا ہو اور پوری دنیا کو دکھایا جا رہا ہو۔ تماشائی انگلی کے معمولی دباؤ سے چینل بدل بدل کر تماشا دیکھنے میں مصروف ہیں۔ اسکول بند پڑے ہیں۔ بچے والدین کے ساتھ ٹی وی دیکھ رہے ہیں۔ اور ان کے سوالات کچھ اس قسم کے ہیں: کرپشن کیا ہوتی ہے؟ دھاندلی کس کو کہتے ہیں ؟ انقلاب سے کیا مراد ہے ؟ کیا ہم آزاد نہیں ہیں ؟

ہم آزاد ہیں۔ ہر وہ کام کرنے کے لئے جس سے تعلیم کے دروازے بند ہو جائیں ۔

ہم آزاد ہیں۔ ہر وہ کام کرنے کے لئے جس سے جاں بلب اسپتال پہنچنے کی آس لئے راستے میں ہی ایڑیاں رگڑ رگڑ کر خالقِ حقیقی سے جا ملیں۔

ہم آزاد ہیں۔ ہرایسا کام کرنے کے لئے جس سے نو زائیدہ بچے دودھ نہ ملنے کی وجہ سے تڑپ تڑپ کر جاں بلب ہو جائیں۔

ہم آزاد ہیں۔ ہر وہ کام کرنے کے لئے جس سے ماں کی اندھیری کوکھ سے اس روشن دنیا کو آنکھ کھول کر دیکھنے کی خواہش کرنے والے ننھے بچے کو ابدی اندھیری قبر میں دھکیلنے کے لئے۔

ہم آزاد ہیں۔ آئینی نظام اور جمہوری اداروں کی بساط لپیٹ دینے کے لئے۔

ہم آزاد ہیں۔سول نافرمانی کرنے کے لئے۔

ہم آزاد ہیں۔ اپنی مسلمان بہنوں اور بیٹیوں کو کھلے آسمان تلے سونے پر مجبور کرنے کے لئے۔

ہم آزاد ہیں۔ تعلیمی نظام کا بیڑہ غرق کرنے کے لئے۔

ہم آزاد ہیں۔روزمرہ ضروریات کی چیزوں کوعام آدمی کی پہنچ سے دور کرنے کے لئے۔

ہم آزاد ہیں۔گرانی میں اضافے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کے لیے

ہم آزاد ہیں۔ملک کی عمومی امن و امان، تعلیم اورانصاف کی صورتحال جو پہلے ہی مخدوش ہے مزید بدحال
کر نے لئے۔

ہم آزاد ہیں۔طالب علموں کے تابناک مستقبل کو تاریکی کے اندھیروں میں دھکیلنے کے لئے۔

اسکائی کیم سے دھرنوں کے مناظر کے اطراف ہریالی اور سبز مخملی گھاس دکھائی دیتی ہے۔ خدا اس سر سبزی کو لہو کی لالی سے بچائے۔ پتا نہیں اس آزادی اور انقلاب مارچ کا اختتام کس طر ح ہو گا۔

دعا ہے کہ یہ مجمع کسی جانی نقصان کے بغیر منتشر ہو جائے۔ ورنہ اگرکوئی جانی نقصان ہوا تو اس کا ذمہ دار کون ہو گا؟
ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا
ورنہ ہمیں جو دکھ تھے بہت لادوا نہ تھے
Nusrat Sarfaraz
About the Author: Nusrat Sarfaraz Read More Articles by Nusrat Sarfaraz: 42 Articles with 44632 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.