منافق لیڈر،جھوٹی امیدیں

اس ملک کے باسیوں کی اس سے بڑی بدقسمتی کیا ہو گی کہ دنیا میں جو نظام گالی سمجھا جاتا ہے ان کو اگر کچھ ملا تو اسی نظام سے ملا،انہوں نے اپنے آپ کو اگر کچھ بہتر محسوس کیا یا اپنی زندگیوں میں آسانی پائی تو وہ اسی نظام کی بدولت کہ دنیا جسے بدترین نظام سمجھتی ہے،میری مراد مارشل لاء سے ہے،جی ہاں مارشل لاء ۔ مہذب دنیا میں جس کا تصور بھی اب ممکن نہیں،اور انہی مہذب لوگو ں نے ہم جیسوں کو بتایا کہ بدترین جمہوریت بہترین آمریت سے بہتر ہے،مگر ان کی مراد جمہور اور جمہوریت سے ہے جو غالباًانہی کے ہاں رائج ہے اور اپنے ہاں جس کا عشر عشیر بھی نہیں پہنچا،ورنہ کبھی بھی نہ ہوتا کہ پاکستانی عوام ڈکٹیٹروں اور غاصبوں کے گیارہ گیارہ سال تو برداشت کرتے مگر جمہوریت کے چیمپئنز سے سالوں بلکہ مہینوں میں ہی جھولیاں اٹھا اٹھا کے نجات کی دعائیں مانگنا شروع کر دیتے،جس طرح اپنے ہاں کھانے سے لیکر پہناوے تک ہر چیز دونمبر ہے اسی طرح افسران سے لیکر حکمران تک ہر چیز دونمبر ہے،جو بھی حکومت سے باہر ہوتا ہے ایسے ایسے دعوے اور سبز باغ دکھاتا ہے کہ لوگ کہتے ہیں بس ان صاحب کے آنے کی دیر ہے دودھ اور شہد کی نہریں بس بہنے کو ہیں،ترقی و خوشحالی کے گلے میں رسی ڈال کر یاگھسیٹتے ہوئے یہ اسے ہمارے در دروازے پر لا کے ہی چھوڑیں گے،اور آزمائے ہوئے کو دوبارہ آزما بیٹھتے ہیں اور نتیجہ بالکل وہی نکلتا ہے جو آزمائے ہو ئے لوگوں کو دوبارہ آزمانے سے نکلتا ہے،ہر آنیوالا جانے والے سے دو ہاتھ آگے نکل جاتا ہے،ہم ہر برے دور حکومت میں حکمرانوں پر تنقید کرتے ہیں اور فوجی حکمرانوں کے دور کو تو میرے ملک کے دانشور ،صحافی اور لکھاری سینگوں پہ لیتے ہیں ،ہر غلط اور برے کا م کے جواز کی تان فقط فو جی حکمرانی پہ ہی آکے ٹوٹتی ہے،یہ لوگ لوگوں کو جمہوری نظام اور اس کے فائدے سمجھا سمجھا کے ان کا ذہن یوں بنا دیتے ہیں کہ انہیں لگنے لگتا ہے کہ بس جمہوری نظام اور جمہوری حکمرانوں کے آتے ہی ملک جنت ارضی کا نمونہ بن جائے گا،اور جب جمہوریت آتی ہے تو انہی دانشوروں اور واعظوں کو نہ صرف عوام کے سامنے اپنی آنکھیں نیچی کرنا پڑتی ہیں بلکہ بعض دفعہ چہرہ چھپا کے موقع سے راہ فرار بھی اختیار کرنا پڑتی ہے،یہ ہر صیح کام غلط وقت پہ کرنے کی کو شش کرتے ہیں،سیکورٹی سے لیکر عا م شاہراہ کی مرمت تک اس وقت نہیں کی جا تی جب تک کوئی بڑا واقعہ وقوع پذیر نہ ہو جائے،ہر آنیوالا وہ شاندار پرفارمنس پیش کرتا ہے کہ لوگ جانیوالوں کو یا د کرنا شروع کر دیتے ہیں،آج کے حکمرانوں کو ہی دیکھ لیجیے کل تک ان کے احتجاج اور دھرنے اور مینار پاکستان کے ڈراموں سے لگتا تھا کہ ان سے بڑا کوئی ہمدرد اس قوم و ملک کا ہو ہی نہیں سکتا،آج ان کو ہر چیز کی پرواہ ہے سوائے عوام کے ،گوادر سے خنجراب تک ریلوے لائن ڈالنے والوں کو پتہ ہی نہیں کہ گھی غریب آدمی کو کس طرح کلو مل رہا ہے،آٹا کس بھا ؤ آتا ہے،بجلی کا بل کیسے ادا کیا جاتا ہے غریبوں کی بستیوں میں،ان کی بیماری کے دن کیسے کٹتے ہیں ،سول ہسپتالوں میں کیا حالات ہیں،مگر انہیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ کچی بستیوں میں موت کیسے اور کس کس طرح رقص کرتی ہے،یہ لوگوں کے پیسوں پہ بچے بچیوں بلکہ نواسے پوتیوں کو ساتھ لیکر عمرے و حج کر کے اﷲ کو راضی کر رہے ہیں،کوئی نہیں ان کو سمجھانے والا جی ہاں کوئی ایک مبلغ نہیں جو انہیں سمجھائے کہ اﷲ تعالیٰ حج و عمروں سے بھی راضی ہو تا ہے مگر اس کی مخلوق کے دکھ درد بانٹنے والوں اور ان کی محرومیاں دور کرنا بھی افضل ترین عبادت ہے،آج کل ایک نہیں بلکہ دو لشکروں نے اپنے پیروکاروں اور چاہنے والوں کے ساتھ اسلام آباد پر یلغار کر رکھی ہے ،آج تک پتہ ہی نہیں چل سکا کہ ان جناب کا ایجنڈا کیا ہے محض ذاتی دشمنی اور کرسی کا حصول بس،کاش کے ان کے ایجنڈے میں کہیں غریب اور عام پاکستانی بھی ہوتا ،کہیں لوڈشینڈنگ اور مہنگائی کے لیے بھی انقلاب اور آزادی مارچ حکمرانوں کو کوئی ڈیڈ لائن دیتا،پٹرول اور سی این جی کی قیمتوں کے لیے بھی کوئی دھرنا کیا جاتا ،کوئی بلدیاتی الیکشن یعنی اختیارات کی نچلی سطح تک متقلی کے لیے چنگھاڑتا مگر یہاں درویشی بھی عیاری اور سلطانی تو تھی ہی،دیکھئے شاید ایک اور ہاتھ ہونے کو ہے اس قوم کے ساتھ،،،رہی بات لوڈشیڈنگ اور اندھیروں کی تو فی الحال شازیہ منظور کے گانے سے دل بہلایئے ،،،بتیاں بجھائی رکھدی وے ،،دیوا بلے ساری رات،،،ویسے بھی جھومتا اور رقص کرتانیا پاکستان بس اپنی تعمیر کے آخری مراحل میں ہی توہے۔۔۔۔