ہمارا پیر اور استاد۔۔۔ ڈنڈا

ڈنڈا وہ ہتھیار ہے جو قدیم ترین ہونے کے باوجود آج بھی شخصی حفاظت کے حوالے سے اتنا ہی فعال ہے جتنا چار پانچ ہزار سال قبل مسیح میں تھا۔ اس کے بے شمار اور بے حساب فائدے ہیں جن سے ہر عمر، ہر رنگ، ہر نسل اور ہر ملک کا مستفید ہوتا رہا ہے اور ہو رہا ہے۔ بچپن کی بات ہو تو ڈنڈا بچوں کے حافظے کو تیز کرنے کے لئے کسی بھی کشتے سے بڑھ کر کام کرتا ہے۔ مصر میں آثار قدیمہ والوں نے ۳۰۰۰ قبل مسیح کے ایک بچے کی تحریر دریافت کی ہے جس میں بچے نے اقرار کیا ہے کہ اس کے استاد نے اس کے سر پر ڈنڈا مارا اور سارا سبق ایک دم اس کے دماغ میں گھس گیا۔ آج بھی یہ ڈنڈا مولا بخش کے نام سے ہمارے نظامِ تعلیم کا ایک لازمی جزو ہے اور قومی خدمت میں دیوانہ وار کام کر رہا ہے۔ گو حکومکت میں موجود کچھ ڈنڈا دشمن عناصر نے ’’مار نہیں پیار‘‘ کا پرچار کرتے ہوئے سکولوں سے ڈنا بدری کی ناکام کوشش کی ہے مگر ڈنڈا کسی نہ کسی چور دروازے سے سکول کے اندر پہنچ جاتا ہے کیونکہ اساتذہ موجود نسل کو کچھ نہیں کہہ سکتے۔ یہ ڈنڈا ہی ہے جو ہمارے تمام تعلیمی اداروں میں نظم و نسق کی بہترین ذمہ داریاں ادا کر رہا ہے۔

جوانی کے دنوں میں ڈنڈا انسان کا بہترین ساتھی اور ہمدم ہے۔ انسان کی حفاظت کرتا ہے۔ دشمنوں کی سرکوبی کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ پیر کا لفظ عام طور پر بزرگ، رہنما، ہدایت دینے والے یا استاد کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ ہدایت سکھانے کے معاملے میں ڈنڈے کو مصدقہ استاد تسلیم کیا جاتا ہے۔ ڈنڈا ہاتھ میں ہو تو کوئی بھی پنگے بازی نہیں کرتا اور اگر کرتا ہے تو ڈنڈے کے ذریعے ہدایت پاتا ہے۔ کوئی دوسرا ہتھیار سنبھلتے، نکالتے اور چلاتے وقت لگتا ہے۔ مگر ہاتھ میں موجود ڈنڈا تو پلک جھپکتے ہی آپ کے ارادے کے مطابق دشمن کا حلیہ بگاڑ دیتا ہے۔ اس طرح کا ہمہ تن ہتھیار کوئی دوسرا نہ ہے اور نہ ہو سکتا ہے۔ اسی لئے پنجابی میں لوگ کہتے ہیں
’’ڈنڈا پیر اے وگڑیاں تگڑیاں دا‘‘

یعنی بگڑے ہوئے لوگوں کا استاد اور رہنما ڈنڈا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ استاد محترم جناب ڈنڈا ہر سیاسی جلسے میں بہت متحرک اور براولی دستے کے شانہ بشانہ نظر آتے ہیں۔ پولیس اور چوکیدار بی اس کے بغیر کسی کام کے نہیں۔

بچے اور جوان کیا، بوڑھے بھی اس سے بہت فیض یاب ہوتے ہیں کیونکہ بڑھاپے میں بوڑھے لوگوں کا یہ بہترین سہارا ہے۔ ڈنڈا پاس ہو تو کسی جوان کی مدد کی ضرورت نہیں۔ ڈندے کے سہارے اٹھنا بیٹھنا بہت آسان ہوتا ہے۔ چلتے وقت بوڑھا آدمی دنڈے کا سہارا کمر کے بل کو کم کرتا ہے۔ یہ بوڑھے لوگوں کی لاٹھی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ لاٹھی پاس ہو تو بوڑھے شخص کو آوارہ کتے اور دیگر جانوروں کا ڈر نہیں رہتا۔ بلکہ جانور نما انسان یا انسان نما جانور بھی اس سے بچ کر گزرتے ہیں۔ شہروں میں بوڑھے آدمیوں کے لئے فینسی ڈنڈے بھی ہوتے ہیں جو ایک طرف سے مڑے ہوتے ہیں تاکہ ہاتھ میں پکڑنے کی آسانی رہے۔

ہتھیار کے علاوہ کھیل کود میں بھی ڈنڈے کا استعمال عام ہے۔ ایسے کھیل جن میں شجاعت، ہمت اور دلیری کا اظہار ہوتا ہے زیادہ تر ڈنڈے ہی سے کھیلے جاتے ہیں۔ پنجاب کا مشہور کھیل گلی ڈنڈا بھی ڈنڈے کے استعمال کا ایک کھیل ہے۔ برصغیر کے نوجوان خوشی کے موقعوں پر ایسے کھیل کھیلتے ہیں جن میں ڈنڈے کا استعمال ہوتا ہے۔ یوگا کی سانس روکنے کی پریکٹس میں بھی ایک ڈنڈا استعمال ہوتا ہے جو یوگا ڈنڈا کہلاتا ہے۔ میلوں میں مداری کافی بلندی پر لمبے اور پتلے سے بانس کے ڈنڈے پر چلنے کا کمال دکھاتے ہیں۔ یہ منظر اس قدر خوفناک ہوتا ہے کہ دیکھنے والوں کی سانس رک جاتی ہے۔

جدید وقت کے ساتھ ڈنڈا بھی جدید ہوتا جا رہا ہے۔ شہروں میں بزرگ لوگوں کے لئے نت نئے ڈیزائن کے انتہائی جدید اور مددگار ڈنڈے ملتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے ورکرز کے پاس بڑے بڑے عجیب انداز کے ڈنڈے ہوتے ہیں ایک طرف سے پتلے، ایک طرف سے موٹے۔ کوئی ایسے کہ ایک طرف لوہا یا کھیل لگے ہوئے۔ کچھ ایسے کہ ان پر تیل کی مالش کی ہوتی ہے بالکل اسی طرح جس طرح ہمارے پہلوان اکھاڑے میں اترنے سے پہلے تیل کی مالش کرتے ہیں۔ مقصد یہ ہوتا ہے کہ مخالفین کو سبق سکھانے، شاندار اور خوبصورت چوٹ لگانے میں آسانی ہو۔ استادوں نے بید کے بنے ہوئے باریک ڈنڈے رکھے ہوتے ہیں کیونکہ سبق کو دماغ مین تیزی سے داخل کرنے کے لئے یہ مفید اور اکسیر نسخہ ہے۔ غرض یہ کہ ڈنڈا انسان کا چارہ ساز بھی اور غمگسار بھی۔

کسی بھی چیز کی پیمائش کے لئے آج ہم گز یا میٹر کی بات کرتے ہیں مگر بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ قدیم ہندوستان میں گز یا میٹر کا وجود نہیں تھا۔ صدیوں تک پیمائش کے لئے ڈنڈے ہی کا استعمال ہوتا رہا ہے۔ یہ ڈنڈا ہماری بنیادی اکائی تھا اور آج کے چھ فٹ کے برابر ہوتا تھا۔ ایک ہاتھ تقریباً ۱۸ انچ یا ۴۷ سنٹی میٹر کا سمجھا جاتا تھا۔ چار ہاتھ ایک ڈنڈے کے برابر ہوتے تھے اور ڈنڈا چھ فٹ یا ۸۲․۱ میٹر کا ہوتا تھا۔ ۲۰۰۰ ڈنڈے ایک کوس کہلاتا تھا جو سوا دو میل یا ۴۶․۳ کلومیٹر کے برابر ہوتا تھا اور چار کوس سے ایک منزل بنتی تھی جو نو میل یا ۵․۱۴ کلومیٹر کے برابر ہوتی تھی۔ آج دیہاتوں میں بعض جگہ یہ پیمانے نظر آتے ہیں مگر زیادہ تر متروک ہو چکے۔

ہم نے ڈنڈے کو بہت نظر انداز کیا مگر ڈنڈے کی اہمیت کم نہیں ہو سکتی۔ ڈنڈا خود کو منواتا رہا ہے اورمنوا رہا ہے۔ آج پورا ملک ڈنڈوں کی زد میں ہے۔ کہیں جمہوری ڈنڈے، کہیں انقلابی ڈنڈے، کہیں سیاسی ڈنڈے اور شاید کہیں فوجی ڈنڈے۔ عوام کی قسمت تو بہرحال میں ڈنڈوں ہی سے جڑی ہے۔ دیکھیں آخر میں کون سے ڈنڈے کی ضرب کھاتے ہیں۔
Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 573 Articles with 437882 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More