مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودی ــــــــــــــ آپ بہت یاد آئے

’’ میں نے جو کہاتھا ، اسے درست سمجھا گیا، لہٰذا مجھے گرفتار کر لیا گیا‘‘۔ ایوب خان کازمانہ تھا، سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے جبرو ستم کے اس دور میں کہا کہ حکومت تھانیدار کے دماغ سے سوچتی ہے۔ اس پر انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ کچھ دنوں بعد انہیں کہا گیا کہ اگر وہ یہ کہہ دیں کہ ان کی مراد ایوب خان کی توہین نہیں تھی اور ان کا مقصد وہ نہ تھا جو سمجھا گیا تو انہیں رہا کیا جا سکتا ہے۔ اس پر سیّد ابوالاعلیٰ مودوی ؒ نے جواب دیا تھا کہ اﷲ کا شکر ہے کہ میں نے جو کہا تھا اسے درست سمجھا گیا۔ میری مراد وہی تھی جو سمجھی گئی اور یہ کہ واقعتا حکومت تھانیدار کے دماغ سے سوچتی ہے۔ اس پر ایوب خان نے زچ ہو کر یا شرمندہ ہو کر انہیں رہا کرنے کا حکم دے دیا۔

سیّد ابوالاعلیٰ مودودی ؒ ۔ معروف معنوں میں کوئی مولانا نہ تھے، اس لیے کہ وہ کسی روایتی مدرسے سے سندِ فراغت حاصل نہ کر سکے تھے لیکن وہ پورے عالم اسلام کے لیے مولانا تھے کہ مولانا وہ ہوتا ہے جسے دل سے مولانا۔ یعنی اپنا مُرشد سمجھا جائے۔ آج کل مولانا کھُمبیوں کی طرح اُگ آتے ہیں، لیکن زندگی بھر بے وزن رہتے ہیں۔ مولانا مودودیؒ ایسے نہ تھے، ان کا وزن پورے عالمِ اسلام کو وزن عطا کرتا تھا بلکہ اس سے بھی آگے وژن دیتا تھا جو معنوی اعتبار سے وزن سے بھی زیادہ قیمتی اثاثہ ہوتا ہے۔

سیّد مودودیؒ نے ایک علمی و ادبی گھرانے میں آنکھ کھولی، گھر میں علمی جستجو کا ماحول تھا،ادب و احترام کا چلن تھا۔ اس لیے گھر سے بہت کچھ سیکھا۔ اتنا کچھ سیکھا کہ زندگی بھر اس کی لاج رکھی۔ گہری تحقیق کی روایت اپنائی اور زندگی بھر اس پر کاربند رہے۔ اپنے شدید ترین مخالفین کو بھی ’صاحب‘ کے بغیر مخاطب نہ کیا۔ یہ اسی روایت کا اظہار تھا۔ انہوں نے ترجمہ سے اپنی علمی زندگی کا آغاز کیا۔ حیدرآباد دکن ان کے جوانی کے ایا م میں علمی اعتبار سے ایک اہم مرکز تھا۔ مولانا نے جامعہ عثمانیہ میں خدمات انجام دیں۔ ایک زمانہ وہ آیا کہ انہوں نے دہلی کی جامع مسجد میں مولانا محمدعلی جوہرؒ کو یہ کہتے سنا کہ ہے کوئی جو جہاد کے اسلامی تصور کی وضاحت کرے اور اسلام کے تصور جہاد کا دفاع کرے۔ اس وقت جوان ابوالاعلیٰ نے اس آواز پر لبّیک کہتے ہوئے ’الجہاد فی الاسلام‘ کے نام سے ایک شاہکار کتاب لکھی اور اسلام میں جہاد کی حقیقت سے پوری دنیا کو آگاہ کردیا۔

خلافت عثمانیہ کا شیرازہ بکھر چکا تھا، عالم اسلام کو از سرنو منظم و منضبط کرنے کی ضرورت تھی۔علامہ اقبال ؒ نے 1931ء کے خطبہ الہٰ آباد میں اس پر زور دیا۔ابوالاعلیٰ مودودی ؒ نے علامہ اقبال ؒ کی بات کو سمجھ لیا اور ان سے خط و کتابت شروع کر دی۔ اسی طرح انہوں نے قرآنی فکر و فلسفہ کو عام کرنے کے لیے ’ترجمان القرآن‘ کے نام سے اپنا رسالہ شائع کرنا شروع کیا اور پھر اپنے دائرہ اختیار اور قوّت کے مطابق پٹھان کوٹ میں ایک بستی تعمیر کی، جو درحقیقت علامہ اقبالؒ کی فکر کو ہی آگے بڑھانے کی ایک کاوش تھی۔ مولانامودودیؒ نے ایک لمبے عرصے تک کام کرنے کی ٹھان لی۔ ادھر علامہ اقبال ؒ کے خواب کو 1940ء میں قرارداد پاکستان کی منظوری کی صورت میں ایک تعبیر مل گئی، دوسری تعبیر 1947ء میں قیام پاکستان سے ملی۔ مولانا مودودی ؒ نے البتہ اپنا سفر جاری رکھا۔ وہ پاکستان کو علامہ اقبال ؒ کے خواب کا حقیقی عکاس بنانے میں لگے رہے۔ مستقل مزاجی ہو تو ایسی۔

مولانا مودودی ؒ نے ایک جماعت قائم کی۔ جس کا مقصد اﷲ کی زمین پر اﷲ کی حکمرانی قرار دیا۔ ان کی قائم کردہ جماعت سے کوئی جتنا اختلاف کرے، لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ وہ اپنے وقت کی آواز تھی۔ یہ مسلم دنیا کی ایک ایسی مثالی جماعت تھی، جس میں لوگ مقصد کو سمجھ کر اور اس سے ہم آہنگ ہو کر شامل ہوتے تھے۔ اس کے لیے مولانا مودودی ؒ نے بے مثال لٹریچر تخلیق کیا۔

مولانا مودودی ؒ نے جب یہ دیکھا کہ قرآن سے امّت میں دوری بڑھتی جا رہی ہے تو اس کی وجوہات پر غور کیا ۔ انہیں ادراک ہوا کہ لوگ قرآن کی زبان سے نابلد ہیں اس کے تراجم اور تفاسیر انہیں قرآن کو سمجھانے کی بجائے اسے دشوار بنا کر پیش کرتے ہیں۔ اس کے لیے انہوں نے قرآن کا ترجمہ نہیں بلکہ ترجمانی کی راہ اپنائی اور تیس سالہ محنت سے 6جلدوں پر مشتمل ایک شاہکار تفسیر ’’تفہیم القرآن‘‘ کے نام سے لکھ ڈالی۔ اس تفسیر میں انہوں نے عربی مبین کو اُردو ئے مبین میں منتقل کرنے کی کوشش کی۔ امت مسلمہ ’’پدرم سلطان بُود‘‘ کے روّیے کا مظاہرہ کر رہی تھی۔ ہاتھ پر ہاتھ دھرے کسی معجزے اور امام مہدی ؑکی منتظر رہتی تھی اور اب بھی ہے۔ فضائے بدر پیدا کرنا مشکل دکھائی دیتا تھا اور دیتا ہے۔ مولانامودودیؒ نے تجدیدو احیائے دین ، تفہیمات اور خلافت و ملوکیّت ایسی شاہکار تصانیف کے ذریعے اسی مرض کہن کا علاج کرنے کی کوشش کی۔ تجدیدو احیائے دین اور خلافت و ملوکیت پر بہت لے دے ہوئی کہ وہ روایتی فکر سے ہجرت تھی۔ ایک غیر مولانا نے کئی مولاناؤں سے بھی بڑھ کر کام کر دیا تھا۔ روایتی مولانا اسے کیسے برداشت کر سکتے تھے؟ ان پر ہر طرح سے تنقید کی گئی، دُشنام طرازی کی گئی، جو شخص اپنے مخالفین کو صاحب کے علاوہ کسی طرح بھی مخاطب نہ کرتا تھا، اس پر صحابۂ کرام ؓ کی توہین کا گھناؤنا الزام لگا دیا گیا۔ حتیٰ کہ توہین انبیاء کرام ؑ کا الزام بھی لگایا گیا۔ مولانا مودودی ؒ نے یہ سب کچھ برداشت کیا لیکن کبھی صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا۔

مولانا مودودی ؒ کی زندگی کئی مراحل سے گزری۔ کبھی ان کے ساتھ گنتی کے چند لوگ ہوتے تھے اور کبھی لاکھوں کا مجمع۔ کبھی میلوں لمبے جلوس ہوتے تھے اور کبھی گنے چنے چند افراد۔ مولانا مودودی ؒ قلت و کثرت سے متاثر نہ ہوتے تھے اس لیے کہ وہ افراد ساز تھے، روایت ساز تھے ، انہیں قلت و کثرت سے کیا لینا دینا؟

ختم نبوت ؐ کے مسئلے پر انہیں سزائے موت سنائی گئی، مجال ہے کہ جبیں پر کوئی شکن بھی آئی ہو۔ صرف اتنا کہا کہ زندگی دینے والا اسے بچا بھی سکتا ہے اور یہی ہوا انہیں ان کے رب کریم نے سزائے موت سے بچا لیا۔

گذشتہ دنوں اس وقت مولانا مودودی ؒ حقیقی طور پر بہت یاد آئے جب ایک علامہ صاحب نے بھری محفل میں ایک موقف بیان کیا لیکن دوسرے دن تنقید کی تاب نہ لاتے ہوئے کہا کہ انہوں نے جو بات کہی تھی وہ محض مذاق تھا۔ مولانا مودودی ؒ کے ہاں مؤقف بدلنے کی اس طرح کی کوئی مثال کم ہی ملے گی۔ بلاشبہ انہوں نے سیاسی اعتبار سے حکمت ِ عملی تبدیل کی، انتخابات کے خلاف رہے، لیکن بعد میں انتخابات میں حصہ لیا۔ تاہم حکمت عملی کی تبدیلی اور ادلتے بدلتے مؤقف میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ رات گئی بات گئی والی بات مولانا مودودی ؒ کے ہاں نہ تھی۔

22ستمبر 1979ء کو ایک سورج ڈوب گیا۔ مولانا مودودیؒ کا وصال ہو گیا، لیکن تہ خاک وہ سورج ہمیشہ روشن رہے گا۔

Syed Muzamil Hussain
About the Author: Syed Muzamil Hussain Read More Articles by Syed Muzamil Hussain: 41 Articles with 61684 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.