غیر سیاسی خط

 (عمران خان کے نام ایک بوڑھی ما ں کا خط )
پیارے بیٹے عمو
شاد رہو ، آباد رہو ، کامیاب رہو،
آج تمہارے آزادی انقلاب مارچ کا چھٹا روز ہے لیکن یوں لگتا ہے جیسے یہ چھ دن نہیں چھ صدیاں ہوں ، کرکٹ کے چھکے کی طرح ان کی بازگشت سے کان گونج رہے ہیں ۔ تم نے شیر کی کچھار میں گھس کر اچھا نہیں کیا مگر تمہیں تو بچپن ہی سے کچھ ہٹ کر کرنے کی عادت ہے جس کے پیچھے پڑ جاﺅ اسکا ناطقہ بند کردیتے ہو تم نے میاں صاحب کے خلاف آواز کیا اٹھائی لوگ جوق در جوق پہلے تمہارے گرد پھر ٹی وی کے گرد جمع ہونے لگے ، قسم لے لو ان چھ دنوں میں اس ملک کے شہر ، گاﺅں دیہاتوں میں کوئی ڈھنگ کا کام ہوا ہو ، جہاں دو آدمی ایک عورت جمع ہوں پی ٹی اے سے بات شروع ہوکر نواز شریف کے استعفی پر ختم بھی نہیں ہوتی ، عوام میاں صاحب کی پالیسیوں سے نالاں ضرور تھی مگر اب اتنی بھی نہیں کہ میاں صاحب کو زمین پر پچھاڑ کے ان کے سینے پر مونگ دلتی ، یہ کام تو صرف اوپر والے ہی کر سکتے تھے تب شاید ممکن ہوتا ، تاریخ کو بھی اپنے آپ کو دہرانے کا موقع مل جاتا اور میاں صاحب کی ہیڈ ٹرک کا چانس بھی بنتا ، لیکن ان باتوں کے لیے بڑا وقت چائیے ، چاہے کوئی اکیلا شریف ایسے تین گھوڑوں جتنا طاقت ور ہی کیوں نہ ہو ، کوئی بھی قسمت کا چاہے کتنا دھنی کیوں نہ ہو اس پر بھی کبھی برا وقت آسکتا ہے اور وہ برا وقت کون سا روپ دھار کے سامنے آجائے یہ تو وقت ہی بتاتا ہے عمران کی شکل میں ہو یا قادری کی شکل میں ۔۔۔۔جیسا کہ آج قسمت نے تجھے اور قادری کو بیچ چوراہے پر وہ بھی اسلام آباد کے ریڈ زون میں قیادت اور سیاست کا وہ سبق یاد کرایا ہے جو سیاستدانوں کو برسوں میں بھی یاد نہیں آتا ۔

عمو بیٹے ، آج ملک کی ہر گلی ہر گھر میں ٹی وی اسکرین پر تو اور قادری ہی جلوہ گر ہیں چینل والے بھی بارہ مصالحے کی چاٹ سجائے اپنے دیکھنے والوں کو آئین ، جمہوریت اور اخلاقیات کا درس اس طرح دے رہے ہیں جیسے انہوں نے تو پاکستان کے آئین اور جمہوریت کی گنگا میں ڈبکی لگائی ہو ، مجھے خوشی ہے عموتو نے منافقت اور ریاکاری کی چادر میں خود کو نہیں چھپایا ، سیتا وائٹ کی بھپتی ہو یا جمائما سے علیحدگی کا طعنہ تو نے ہمیشہ یہ کہا کہ میں نے کبھی پارسائی کا دعوی نہیں کیا ، اسلام آباد میں بھی تری تقریروں کا یہی عوامی رنگ ہے جس ناچ گانے پر یہ موئے اینکر اور صحافی ناک بھوں چڑھا رہے ہیں کوئی ان سے پوچھے تمہارے چینلز پر پانچوں وقت کی اذانیں کیوں نہیں آتیں ؟ پی پی اور نواز لیگ کے جلسوں میں کیا درود کی محفلیں سجائی جاتی ہیں ؟ خیر چھوڑ ان باتوں کو مجھے تو تیری اور قادری کی فکر سے زیادہ ان لوگوں کی فکر ہے جو ترے اور قادری کے ساتھ سر پر پرچم باندھ کر نکل کھڑے ہوئے تھے ، میری پر دادی ایک شہنشاہ کا قصہ سنایا کرتی تھیں کہ ایک روز شہنشاہ گھوڑے پر سوار شہر میں وارد ہوا تو وہاں پر سڑک کے کنارے دائیں بائیں لوگوں کے ٹھٹ کے ٹھٹ لگ گئے شہنشاہ کے دیدار کے آرزو مند تھے ، بہت سے لوگ بالکل ہی آگے گویا پہلی صف میں کھڑے تھے ، پھر کچھ لوگ دوسری تیسری اور چوتھی صفوں میں استادہ تھے اور رہے وہ لوگ جو چوتھی صف کے پیچھے تھے انہیں تو صف قرار دینا ہی خارج از بحث تھا چنانچہ ہوا یہ کہ ایک بہت بڑی تعداد میں لوگ شہنشاہ کے درشن کرنے کو نہ صرف پنجوں کے بل کھڑے ہوگئے ، نہیں بلکہ انہوں نے اپنی گردنیں بھی اچکائیں اس قدر بے تحاشہ اچکائیں کہ شہنشاہ ان کے پاس سے گزر کر اندھرے میں غائب ہو گیا اور ان کی گردنیں زندگی بھر کے لیے اس طرح کھینچی کی کھینچی رہ گئیں ۔

ہائے ۔۔ ہائے ظالم صف آراہ لوگ اور معصوم شہنشاہ۔۔ اللہ جانے عمو تیرے دل میں بھی کونسی شہنشاہیت چٹکیاں لے رہی ہے مگر میرا دل تو خوف سے بیٹھا جا رہا ہے تیری بی ٹیم اور قادری کی مٹھی بھر فوج دیکھ کر نہیں بلکہ اس کے سامنے ریڈ زون پر چھائی وردیوں کی بہار مجھے ہو لا رہی ہے ، معلوم ہے تجھے جب تو نے بجلی پانی گیس کے بل نہ دینے کی بات کی تو اپنا سکندر بٹ ہے نا ۔۔اس نے جھٹ اپنی بیوی سے کہا نیک بخت عمران کی بل مکاﺅ مہم میں میں تو اس کے ساتھ ہوں ، بیوی تڑخ کر بولی ہوش کرو شیر کو ووٹ دیا تھا آج بھی شیر کا بلا لگا کر گھومتے ہو میاں صاحب کو پتا لگ گیا تو بجلی کے بل ہی نہیں لوڈ شیڈنگ بھی بڑھا دینگے ۔

عمو پتر یہ اپنے میاں صاحب نے بھی عجب مزاج شریف پایا ہے کیا مجال جو کچھ بھول جائیں یا بھلا دیں ، ان کی پشانی کی طرح دل میں بھی سو سو بل آجاتے ہیں چہرہ ایسا آئینہ پایا ہے کہ اگر چھپانا بھی چاہیں تو دل کی باتیں چھپا نہ پائیں اور یہ جو جمہوریت جمہوریت کی رٹ لگا رہے ہیں نا ان حواری آئینی وزیرا عظم ، منتخب وزیر اعظم اب بھلا کوئی ان سے پوچھے ہمارے ملک میں کبھی حقیقی چناﺅ ہوا بھی ہے ؟

چل چھوڑ میرا منہ نہ کھلوا میں سب شفاف انتخاب کی اصلیت جانتی ہوں وہ جو بے چارے مرزا کہہ گئے ہیں نا ۔۔۔چاہتے ہیں سو آپ کریں ہم کو عبث بدنام کیا ۔۔۔۔۔۔بدنامی تو میاں صاحب نے بھی بہت کمائی ہے صلہ رحمی کر کے ، اس زمانے میں جب بھائی بھائی کا گلا کاٹ رہا ہے ( ارے درزی نہ سمجھیو ) اولاد ماں باپ کو دھتکار رہی ہے یہ میاں صاحب کی بڑائی ہی تو ہے کہ وہ کھلی آنکھوں سے سارے عہدے اپنوں میں ریوڑیوں کی طرح بانٹتے چلے گئے ، دیکھ عمو اگر تجھے بڑی کرسی ملی تو ان دل نثاروں کو نہ بھولنا جو آج تجھے دولہا بنائے ریڈ زون سے بیاہنے خراماں خراماں لیے جا رہے ہیں ، قادری بھی چھیاں چھیاں تیرے ساتھ دم چھلا بنا ہے حالانکہ وہ گزشتہ سا ل ا پنا سودا بیچ چکا تھا مگر اب وضعداری کہاں ، لوہاری ، بیو پاری ، گلو کاری سب ایک گھاٹ پانی پی رہے ہیں ۔

عمو پتر ، بس اب تو جلدی سے اس ڈرامے کو مکا دے ، یاد رکھ میاں صاحب ضد کے پکے ، بات کے سچے ، کان کے کچے ہیں وہ کبھی استعفی نہیں دینگے ، تو ان سے کرسی کے چار پائے ، پائے کے عوض مانگ لے پھر دیکھ میاں صاحب کی دلداری

عمو بچے ، اب مجھے اجازت دے تین مہینوں سے میرے گھر کی بجلی کٹی ہوئی ہے ، پینے کا پانی بھی سونے کے بھاﺅ خرید کر پینا پڑ رہا ہے ،بیٹے کے کیبین کو تو میونسپلٹی والوں نے ناجائز تجاوزات کہہ کر عرصہ ہوا توڑ ڈالا تھا سوچتی ہوں کہ جب پاکستاں نیا بنے گا تو اپنی کچی جھونپڑی اور بیٹے کے لیے دوکان بھی نئی بنوالوں گی ، اللہ بھلا کرے تیرا اور قادری کا کہ گھر کا دال دلیا چل رہا ہے ۔۔مگر عمو چھ روز ہو گئے ماں کی آنکھیں بیٹے کو دیکھنے کو ترس گئی ہیں موئی ٹی وی پر بھی صاف صورتیں نظر نہیں آتیں ، بٹوا کو چھٹی کب ملے گی ؟؟؟؟؟؟؟؟؟
عمو اپنا اور سب بچوں کا خیال رکھنا ، اللہ کی امان
( تیرے وطن کی ایک بوڑھی ماں )

Malka Afroze Rohila
About the Author: Malka Afroze Rohila Read More Articles by Malka Afroze Rohila: 11 Articles with 7571 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.