اپنے حصے کی شمع

 پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع گوجر خان کے گاؤں بیول سے تعلق رکھنے والے صفدر حسین کے یہاں چوتھی بیٹی نے جنم لیا تو کون جانتا تھا کہ ایک مزدور کی حیثیت سے برطانیہ ہجرت کر کے آنے والے پاکستان کی بیٹی ایسی جرات کا مظاہرہ کرے گی کہ تا ابد دُنیا اس کی دلیری ہمت اور جرات کو سراہے گی۔

مارچ 2009 ؁ء میں برطانیہ کی ایک مقامی تنظیم کی طرف سے سعیدہ وارثی کو برطانیہ کی سب سے طاقتور مسلمان خاتون قرار دیا اور 5 اگست 2014 ؁ء کو انہوں نے یہ ثابت کر دیا کہ وہ مسلمان خواتین اور بچوں کے لیے اپنے دل میں کس قدر درد محسوس کرتی ہیں کہ انہوں نے برطانوی حکومت ڈیوڈ کیمرن کی کابینہ سے استعفیٰ اس بنیاد پر دیا کہ انہیں غزہ میں مسلمانوں کے قتلِ عام پر برطانوی حکومت کی پالیسی سے انتہائی شدید اختلاف ہے اپنے استعفےٰ میں وہ لکھتی ہیں۔

’’انسان کو زندگی اپنے اصولوں کے مطابق گزارنے کا پورا پورا حق ہے اور اس وقت جب کہ غزہ میں معصوم لوگوں بشمول عورتوں اور بے گناہ بچوں کا قتلِ عام ہو رہا ہے اور میں برطانوی حکومت کا حصہ ہوتے ہوئے اس کے خلاف بول نہیں سکتی تو ایسی صورت حال میں مجھے لگتا ہے میں اپنے اس بنیادی حق سے محروم ہو چکی ہوں میں انتہائی افسوس کے ساتھ اپنا استعفیٰ پیش کر رہی ہوں‘‘

غزہ کے معصوم لوگوں کی حمایت میں برطانوی حکومت اور ڈیوڈ کیمرون کی کابینہ سے استعفیٰ دینا بہت بڑی بات ہے گھر آئی لکشمی اور عہدے کو اپنے اصولوں پر قربان کر دینے کا حوصلہ ہر ایک کے اندر نہیں ہوتا۔ ایسے وقت میں جب کہ تمام عالمِ اسلام پر غزہ کے حوالے سے سکتہ طاری ہے وہاں سعیدہ وارثی کے استعفیٰ نے ایک ایسا پتھر پھینکا ہے جو عالم اسلام کے سرکردہ راہنماؤں کو مرتعش کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

یہاں عالمِ اسلام بشمول پاکستان کا عالم یہ ہے کہ فیس بک پر Like کا بٹن دبا کر تمام تر ذمہ داریوں سے بری الذمہ ہو جاتے ہیں غزہ کے خون میں ڈوبے ہوئے بچوں کی لاشیں شئیر کر کے سمجھتے ہیں ہمارے دل میں ان بے گناہ مسلمانوں کا بڑا دردہے۔ کر سر ڈاؤن کرتے ہی عید مناتے نئے کپڑے ، جیولری میک اپ سے لبریز چہرے اپ لوڈ کرتے ہیں۔ آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل کسی ایک مسلمان عورت نے غزہ کی بیواؤں اور ماؤں کا دکھ محسوس کرتے ہوئے اس عید پر نئے کپڑے پہنے مہندی لگانے اور فیشل کروانے سے انکار کیا ہو گا؟ ہم میں کتنی ماؤں نے اپنے بچوں کو بتایا ہو گا کہ غزہ کے مسلمان بچے کس طرح اپنی عیدمنا رہے ہوں گے ۔وزیر ستان کے آئی ڈی پیز کی متاثرینہ اور عضب جان نے عید کس طرح منائی ہو گی؟ کیا ہم نے ا پنے بچوں کویہ سمجھا یا کہ ہمیں ان کے دُکھ کو محسوس کرتے ہوئے عید سادگی سے منانی چاہیے۔

نام نہاد مہذب معاشرہ جہاں کُتے کی موت پر اور ، تتلی کی قطاروں کو بچانے کیلئے ، جانوروں کے حقوق کیلئے کام کرنے والی تنظیمیں واویلا مچا دیتی ھیں وہاں معصوم بچوں کے جسموں کو بارود سے اُڑا دیا جاتا ہے مگر اسکی مذمت میں کوئی آواز بلند نہیں ہوتی ۔ غزہ پر گرایا جانے والا گولہ بارود نہ صرف امریکی ہے بلکہ برطانیہ بھی اسرائیل کو سالانہ 12 بلین ڈالر کے جنگی ہتھیار فروخت کرتا ہے موت بیجنے کا یہ سامان اگر استعمال نہیں ہو گا تو موت تقسیم کرنے والے اس سامان کو مزید خریدنے کی طلب کیسے ہو گی ۔موت کے تاجران تو اس بے بنیاد جنگ کی طوالت کے متمنی ہی ہوں گے۔

فلسطین کے مسلمانوں ، بچوں اور عورتوں کے ساتھ ہونے والے مظالم کے خلاف ہمدردی اور اظہار یکجہتی کے لیے اپنا استعفیٰ پیش کرنے والی پاکستانی مسلم خاتون سعیدہ وارثی کو پوری دنیا خراجِ عقیدت پیش کر رہی ہے صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ برطانوی سیاست کے اہم ترین افراد بھی ان کی اس جرات رندانہ پر نگشت بدنداں ہیں۔ ’’برطانوی اخبار لکھتا ہے سعید وارثی نے در حقیقت اخلاقی جرات کا شاندار نمونہ پیش کیا۔

ان کی اپنی پارٹی Conservative Party کے ایک رُکن کابینہ Nicholas Soamesنے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں لکھا ہے کہ حکومت کو سعیدہ وارثی کے استعفیٰ سے سبق حاصل کرنا چاہیے اس اہم انسانی مسئلے (غزہ فلسطین) پر ان کا استعفیٰ دیتا ایک صائب قدم ہے‘‘

پہلی خاتون مسلمان رکن کیبنٹ نے اپنی پہلی Downing Street Tradition میٹنگ میں اپنا مشرقی تشخص برقرار رکھتے ہوئے شلوار قمیض اور دوپٹے والے جس گلابی جوڑے کا انتخاب کیا اسے ایک برطانوی میگزین نے علیحدہ سے نمایاں جگہ پر شائع کیا۔ برطانوی آرا نے جب یہ کہا کہ He would like to see the veil abolished in United Kingdom تو سعیدہ وارثی کہتی ہیں کہ ’’لباس کے انتخاب میں فرد کے اختیار کو محدود کرنا اس کی آزادی پر قدغن لگا نے کے مترادف ہے‘‘

کچھ لوگ ایک سوال یہ بھی اُٹھاتے ہیں کہ کیا سعیدہ وارثی کا یہ قدم ایک عقلمندانہ فیصلہ ہے اور کیا اسکا کچھ اثر بھی ہو گا؟ 28 مارچ 1971 ء کو پیدا ہونے والی سعیدہ وارثی نے جوکہا وہ ان کے اصولوں پر ثابت قدم رہنے کی اعلیٰ مثال ہے سعید ہ وارثی نے عالمی طاقتوں کی بربریت اور انسانیت سوز مظالم کے خلاف جو قدم اُٹھایا اس کے بعد وہ جو کہ کل تک برطانیہ کی کابینہ میں مسلم اقلیت کی نمائندگی کر رہی تھیں آج دنیا بھر کی ماؤں کے ساتھ کھڑی ہیں جن کے بچے ، بھائی باپ اور گھر بار لہو لہو ہو چکا ہے ۔ سعیدہ وارثی نے ظلم کی تاریکی میں ایک ایسا دیپ روشن کیا ہے جس کا اجالا ایک نہ ایک دن ضرور قبلہ اول کو روشن کر دے گا۔
شکوۂ ظلمتِ شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

ہمارے نبی ﷺ کا فرمان ہے ظلم اگر ہوتا دیکھو تو اسے طاقت سے روکو اگر نہیں روک سکتے تو زبان سے روکو اور اگر اس پر قادر نہ ہوتو دل میں ہی اسے بُرا بھلا کہو اور ہم ایمان کے اس تیسرے درجے پر فائز مسلمان ہیں۔

سعیدہ وارثی نے تمام مسلم ماؤں کی نمائندگی کرتے ہوئے ایک قابلِ تقلید جرات مندانہ فیصلہ کیا ہے ہر فرد کو اپنے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے اس ظلم کے خلاف ضرور آواز اُٹھانی چاہیے۔

آج جتناجمِ غفیر اسلام آباد میں طاہر القادری اور عمران خان نے اکٹھا کر رکھا ہے کیا وہ اس انسانی طاقت کا فائدہ اُٹھا کر وزیر ستان کے آئی ڈی پیزکاکچھ بھلا نہیں کر سکتے تھے؟غزہ اور فلسطین کے مسلمانوں کے حق میں آواز بلند نہیں کر سکتے تھے؟ قبلہ اول کے معصوم نمازیوں اور بچوں کو مرتا دیکھ کر چپ رہنے والے ایمان کے کون سے درجے پر فائز ہیں؟

Nusrat Sarfaraz
About the Author: Nusrat Sarfaraz Read More Articles by Nusrat Sarfaraz: 42 Articles with 44648 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.