میثاق روزگار

چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل ضیا ء لحق کے انتقال کے بعد پاکستان میں بنیادی آئین بحال ہوا اور۱۹۸۸ میں جنرل الیکشن کروائے گئے ۔جس کے نتیجہ میں وہاں اقتدار سول نمائندوں کو سونپ دیا گیا ۔نومنتخب حکومت کو ابھی کچھ ہی عرصہ ہوا تھاکہ اسلام آباد کا سیاسی موسم بدلہ اور حکومت وقت پر بدعنوانیوں کا الزام لگا کر انہیں گھر بھیج دیا گیا۔اس کے بعد ۱۹۹۰ء نئے الیکشن کا علان، اور چھوٹی بڑی کئی جماعتوں پر مشتمل اسلامی جمہوری اتحاد جس کی قیادت میاں نواز شریف کے ہاتھ میں تھی میدان مار لیا ،اپوزیشن نے نے بد ترین دھاندلی کا الزام لگایا لیکن حکومت اپنا کام کرتی رہی ۔یہ حکومت بھی زیادہ دیر نہ ٹھہر سکی اور اسے بھی۱۹۹۳میں کرپشن کے الزام میں رخصت کر دیا گیا ۔اور پھر ایک بار پی پی پی کی حکومت وجود میں آئی جواپنی مقررہ مدت سے دو سال پہلے ۱۹۹۶میں رخصت ہوئی اور تب ہونے والے نئے انتخابات میں نواز شریف کی مسلم لیگ کو پاکستانی تاریخ کی سب سے بڑی اکثریت ملی لیکن حکومت پھر بھی دو سال سے زیادہ نہ چل سکی ۔اس روز روز کی اکھاڑ بچھاڑ کے دوران ملک میں ہارس ٹریڈنگ،لوٹا کریسی جیسی کئی غیر مہذب وغیر انسانی برایؤں نے جنم لیا جس کے باعث کرپشن سرعت رفتار سے سفر کرتے سوسائٹی کی جڑوں تک جا پہنچی ۔اس سارے عمل کے پیچھے ملک کی بڑی سیاسی پارٹیوں اور ان کی قیادت کے غیر سیاسی و تنگ نظر روئیے کا عمل دخل رہااور یہ سلسلہ کبھی رکا نہیں یہاں تک کہ ۱۹۹۹ میں جب اس وقت پاکستان کی تاریخ کی مضبوط ترین دو تہائی اکثریت والی حکومت جس کی قیادت میاں نواز شریف کے ہاتھ میں تھی کی بساط لپیٹ دی گئی اور اسلام آباد میں ایک بار پھر ’’میرے عزیز ہم وطنو ‘‘جلو افروز ہوئے ۔جب کہ ملک کی اعلیٰ قیادت کو جلا وطن ہونا پڑھا ۔ملک میں برپا ہوئے اس سیاسی المیے کے بعد ملک کے ان بڑوں کو کچھ احساس ہوا اور وہ جو ایک دوسرے کو سکیورٹی رسک قرار دیتے تھے آپسی رابطے بڑھانے لگے ۔سیاسی شعبے میں ہونے والی اس تبدیلی سے عوام کو کچھ ریلیف ملا ۔۔۔امید بندھی ۔اور اس کا خیر مقدم کیا گیا ۔کہ شائد ان کی لیڈرشپ نے سنجیدگی کی دہلیز پہ قدم رکھ دیا ہے ۔ان رابطوں میں تیزی آئی تو میاں نواز شریف اور اور محترمہ بنظیر بھٹو کے درمیاں ’’میثاق جمہوریت ‘‘نام سے ایک معائدہ طے پایا جس کی رو سے یہ دونوں بڑی جماعتیں ملکی سیاست میں تہمل و برداشت کے علاوہ کئی شبعوں میں بنیادی اصلاحات لانے پر متفق ہوئیں۔

نو سالہ فوجی دور کے اختتام پر ایک بار پھر پی پی پی ک حکومت قائم ہوئی اور مسلم لیگ نے اپوزیشن کے بینچ سنبھالے اور اس معائدے کی تکمیل میں خامشی سے پانچ سال گزار لئے ۔ان پانچ برسوں میں کسی بھی ملکی ادارے میں کوئی اصلاحات جیسی بازگشت ناں سنائی دی البتہ اس حکومت کے اختتام پر ملک پر پہلے سے تین گنا زیاد ہ غیر ملکی قرضوں کا بوجھ پڑھ چکا تھا اور ساتھ ہی ملک کرپشن میں مذید دس درجے ترقی کر چکا تھا ۔یعنی ’’کھایا پیا جی بھر کے اور برتن بھی توڑے‘‘۔۔۔نئے انتخابات ہوئے اور جیسا کہ الزام ہے کہ پری پول رگنگ کے نتیجہ میں مسلم لیگ کی حکومت قائم ہوئی ۔عوام کو بہتری کی امید تو تھی لیکن ایک سال گزرنے کے باوجود اس حکومت نے حسب روائت وہی روش اپنائے رکھی جو اسی کی دہائی میں ہوا کرتی تھی فرق صرف اتنا رہا کہ تب یہ دونوں ایک دوسرے کے دشمن تھے اب انہوں نے ایک دوسرے کی ٹانگ نہ کھینچنے کا معائدہ جو کر رکھا تھااور ایسے میں ملک میں غریب غریب تر ہوتا گیا اور امیرکے امیر تر ہونے کی رفتار میں پہلے سے زیادہ اضافہ ہوا ۔پہلے لوگ گردے فروخت کرتے تھے اب انہوں نے چوک وچوراہا میں اپنے بچے فروخت کرنا شروع کر دئیے۔لیکن حکمراں پانچ سالہ لوٹ مار کو ہی اپنی کارکردگی کے طور پر بیان کرتے رہے ۔اور نئے آنے والوں نے تو حد کر دی ۔سادہ اکثریت کے گھمنڈ اپوزیشن کے ساتھ میثاق جمہوریت کے باعث وہ ’’ستو‘‘ پی کر سو گئے اور کہا کہ ہمیں عوام نے پانچ برس قومی خزانہ لٹانے اور سونے کا مینڈیٹ دیا ہے ۔ان حالات میں پی ٹی آئی نام کی ایک تیسری سیاسی جماعت بیشک جس کے منشور کا ہر ایک لفظ مبنی بر حق تھا نے عوام کو نئے پاکستان کے خواب دکھائے ۔عوام نے اسے اپنی ساری امیدوں کا محور بنا لیا اور یہ جماعت بھی اہل اقتدارو اختیار کے حلق میں کانٹا بن گئی ۔پی ٹی آئی کا ماننا تھا کہ پاکستان حقیقی معنوں میں جمہوری ملک بنے لیکن ان کا منشاء کہ جیسا ہے ویسا ہی رہے ۔کیوں کے وہ پانچ سالہ انتظار کے بعدہاتھ آیا موقع گنوانا نہیں چاہتے تھے ۔ان حالات میں عوام میں مایوسی کے سائے منڈلانے لگے اورانہیں اپنی آئندہ نسلوں کی بربادی صاف نظر آنے لگی ۔

پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں۲۵ برس سے زیادہ حکومت کرنے کے باوجود شہباز شریف بنیادی انسانی حقوق سے جڑے تعلیم ،صحت عامہ،رول آف لاء پولیس،واپڈا و پٹواری اورعدل و انصاف جیسے کسی بھی ادارے میں بنیادی اصلاحات کا نفاذ تو کجا اس جانب ایک زرہ سی کوشش ہی نہ کر پائے اور یوں سابق حکمراں اگر بد عنوان تھے تو یہ بدترین بد عنوان ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ وہ سرعام کرتے تھے اور یہ تھوڑا مہذب انداز میں کرتے ہیں اور ان حالات میں یہ کہنا قطعی نامناسب نہیں ہوگا کہ وہ ’’میثاق جمہوریت ‘‘ملکی عوام کی خدمت و جمہوریت کے استحکام کے لئے نہیں کیا گیا بلکہ یہ تو محض ایک وسیلہ روزگار ہے جوطے شدہ مدت کے بعد دوسرے فریق کو تفویض ہونا ہے ۔اس طرح کی سیاسی دہشت گردی کو دیکھتے ہوئے لوگ جوک در جوک پی ٹی آئی میں شامل ہوئے لیکن حالیہ آزادی مارچ کے دوران یہ راز بھی منکشف ہوا کہ پی ٹی آئی صرف ایک طبقے کی جماعت ہے اور اسے ادراک ہی نہیں کہ پاکستانی درجنوں طبقات کی حامل قوم ہے اوراس کی ۶۵ فیصد آبادی انتہائی خط غربت سے نیچے کی زندگی گزار رہی ہے جب کہ پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت کے رنگ ڈھنگ سے قطعی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ غربت کے حوالے سے کتابی باتوں کے علاوہ بھی کچھ جانتے ہیں ۔۔۔یا انہیں غریب کے دکھ درد کا دلی احساس ہے ورنہ لاہور سے تین سو کلو میٹر کا فاصلہ اور چھتیس گھنٹے سفر کر کے آنے والے معصوم بچوں عورتوں اور بوڑھوں کوبارش و کیچڑ سے لدھے ایک کھلے میدان میں بے یارو مدد گار چھوڑ کر غائب ہو جانا یہ واضع کر دیتا ہے کہ اس لیڈر شپ میں غریب پروری واستقامت کا کس قدر فقدان ہے اور ایسی حرکات و سکنات سے یہ بھی ثابت ہوا کہ پاکستان کو اﷲ رب العزت نے دنیا کی ہر نعمت سے نوازہ ہے بس کمی ہے تو صرف ’’لیڈر ‘‘کی ۔۔۔اس ملک کو سیاستدان اور سیاست کار تو ملے لیکن آج تک اسے لیڈر ’’رہنما‘‘ نہیں مل پایا ۔ورنہ دنیا کے اہم ترین ریجن کی حساس ترین جغرافیائی حدود پر واقع یہ ملک آج آدھی دنیا کی قیادت کر رہا ہوتا ۔لیکن کیا کیجئے تقدیر کے فیصلے ہیں جس قوم کی قیادت صرف اقتدار میں رہنے اور مال بنانے کے لئے ’’میثاق جمہوریت ‘‘جیسے معائدے کرے جس کا مقصد محض غم روزگار ہو تو اس ملک کے عوام کے لئے اﷲ سے دعا ہی کیجا سکتی ہے -

Niaz Kashmiri
About the Author: Niaz Kashmiri Read More Articles by Niaz Kashmiri: 98 Articles with 74719 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.