گدا گری کے پس پردہ اٹھنے والے جرائم

پلازہ کی سیڑھیوں پر بیٹھی ایک نوجوان عورت نے اپنی گود میں کمزور سی بچی بٹھائے میری طرف ہاتھ بڑھایا ۔ میں سیڑھیاں چڑھنے ہی والی تھی کہ ہاتھ کے تعاقب میں عورت کی آنکھوں میں جھانکا اس کی نہایت بامعنی غلیظ آنکھوں نے میرا ارادہ تبدیل کر دیا اور اسے نظرانداز کرتے ہوئے میں سیڑھیاں چڑھتے ہوئی پلازہ میں داخل ہو گئی ۔ کچھ ضروری چیزیں خرید کر جب میں واپس آئی تو وہ عورت مستقل وہی بیٹھی دکھائی دی۔ ناجانے کیوں اسے دیکھ کر مجھے کوفت ہو رہی تھی ۔ اتنے میں ایک لڑکا جو بے حد کمزور صحت کا مالک تھا اس عورت کے پاس آکر اسے دس روپے دیتا ہے اور ساتھ ہی معنی خیز اشارہ کرکے ایک تنگ سی ویران گلی میں داخل ہوجاتا ہے ۔ اس خاموش مشاہدے کے بعد میں نے وہاں کھڑا رہنا مناسب نہ سمجھا اور گاڑی میں بیٹھ گئی ۔ انسان کا تجسس کبھی اسے چین نہیں لینے دیتا ۔ یہی میرے ساتھ ہوا جو کچھ میرے دماغ میں چل رہا تھا میں اسے رد کرنا چاہتی تھی ۔ لہذا میں گاڑی کے Back View Mirror سے اس عورت کو دیکھنے لگی چند لمحوں بعد وہ عورت ، معلوم نہیں وہ گداگر تھی ، پیشہ ور تھی ، یا پھر کچھ اور ۔۔۔ خیر جو بھی تھی میلے کپڑوں کے باوجود وہ چلتی ہوئی بہت جاندار عورت لگ رہی تھی وہ بھی اسی تنگ ویران گلی میں داخل ہو گئی ۔۔ وہ کیوں داخل ہوئی اس پر لکھنا بے کار ہے ۔ کیونکہ ہر باشعور انسان اس منطق سے انکار نہیں کر سکتا ۔ لیکن کچھ سوال مجھے بری طرح پریشان کر رہے تھے ۔ آنکھیں بند کر کے میں سوچنے لگی ۔ دس روپے میں ایک کمزور لڑکے نے غلیظ آنکھوں والی مگر جاندارعورت کو خرید لیا ۔۔ دس روپے میں ایک عورت نے اپنے آپ کو کسی کے سپر د کر دیا ۔۔۔ کیا عورت اتنی سستی ہو گئی ہے ؟ یا حالات وواقعات ، بھوک وافلاس یا اولاد کی آہوں نے اسے مجبور کر دیا ہے ۔۔۔؟

معاشرہ جہاں اور بہت سی برائیوں سے بھرا پڑا ہے ۔ وہیں بہت سے چلتے پھرتے گناہ ہیں ہماری آنکھوں کے سامنے ہوتے رہتے ہیں مگر ہم کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لیتے ہیں ۔اب اس عورت جیسی اور کتنی عورتیں ہو ں گی جو غربت کی ماری ہوئی بھوک کی ستائی ہوئی گھروں سے باہر نکل آتی ہیں معاشرہ میں گداگروں کی تعداد میں اضافہ کرتی ہیں اور ساتھ ساتھ نوجوانوں کے بڑھتے ہوئے ہاتھوں کو قبولیت کا شرف دیتی ہیں ۔ گداگری ایک لعنت ہے کوئی معزور شخص ہو وہ مانگنے سے اجتناب کرتے ہوئے محنت سے رزق کمانے کو ترجیح دیتا ہے مگر المیہ اس بات ہے کہ پاکستان میں گداگروں کی تعداد میں روزبروز اضافہ ہو رہا ہے ۔ اور اس سے زیادہ شرمناک بات یہ ہے کہ صحت مند افراد چاہے وہ عورت ہوں یا مرد بڑے شوق سے مانگنے کیلئے کشکول اٹھائے پھرتے نظر آتے ہیں حقیقت میں ان لوگوں کی عادت بن جاتی ہے اور یہ لوگ اپنے آپ کو تکلیف میں نہیں ڈالتے ۔

پاکستان میں بگڑتے ہوئے حالات کا اگر جائزہ لیا جائے تو باآسانی ایک پہلو واضح ہو جاتا ہے کہ جیسے ہی مہنگائی بڑھتی ہے ، گداگروں کی تعداد اور جرائم ایک ہنگامی صورتحال پیدا کر دیتے ہیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں مہنگائی آسمانوں کو چھو رہی ہے ، عام انسان کیلئے زندگی گزارنا بے حد مشکل ہو گیا ہے ۔ اس مشکل ترین دور میں غریب کے بچوں کی تعداد بھی گنتی میں نہیں آتی تو پھر ان سب کا پیٹ پالنا اور بھی محال ہو جاتا ہے ۔ ظاہر ہے اولاد کا دکھ کسی سے برداشت نہیں ہوتا تو مجبوراً غربت کے ستائے افراد اس مصیبت سے چھٹکارا حاصل کرنے کیلئے کوئی آسان اور کالی گلی استعمال کرتے ہیں ۔ بھوک کا احساس ایمان اور اچھے برے کی تمیز اور یہاں تک کہ مذہب تک کو بھلا دیتا ہے ۔

پاکستان میں دو مشہور طبقے پائے جاتے ہیں ایک امیر اور دوسرا غریب ترین ۔۔ دونوں طبقے اپنے اپنے حلیوں میں مطمئن ہیں ۔ امیر ترین طبقہ عیاشیوں میں ملوث جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں اور وہ ان قابل فخر حرکتوں سے عار محسوس نہیں کرتے بلکہ ان کا دعویٰ ہوتا ہے کہ ہم لائف انجوائے کر رہے ہیں ۔ مگر غریب ترین طبقہ اس میں بھی تین طرح کے لوگ آتے ہیں ۔ ایک قسم تو ان لوگوں کی ہوتی ہے جو معمولی سی ریڑھیاں لگا کر رزق کماتے ہیں اور شکر بجا لاتے ہیں ۔ دوسری قسم کے لوگ سفید پوش ہوتے ہیں جن کے پاس اﷲ پر ایمان اورصبر و شکر کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہوتا ۔ مگر تیسری قسم کے لوگ ڈھیٹ ، بے حس ، بے شرم اور ٹوپی ڈرامہ باز ہوتے ہیں ۔ گداگر اور جرائم پیشہ افراد بھی اسی قسم کے لوگوں سے تعلق رکھتے ہیں ۔ کوئی شک نہیں کہ یہ غریب ہوتے ہیں مگر اپنی بے حسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے خاندان کے خاندان بازاروں میں گداگری کیلئے نکل پڑتے ہیں اور عام لوگوں کا جینا دو بھر کر دیتے ہیں ۔

گداگروں میں سے کوئی پانچ فیصد گداگر ایسے ہوتے ہیں جو حقیقت میں مجبور ی کے ستائے ہوئے ہوتے ہیں ۔ مگر باقی 95فیصد تن آسانی ، شوق سے بھرپور اور گداگری کی آڑ میں کوئی نہ کوئی جرم کر رہے ہوتے ہیں ۔ یہ لوگ بسوں ، ویگنوں کے اڈوں پر بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں ۔ان لوگوں نے لمبے لمبے ہمدردی کے جملے زبانی یا د کر رکھے ہوتے ہیں ۔ اڈوں پر یہ لوگ خاص طور پر عورتوں کے پاس کشکول لے کر جاتے ہیں اور اپنے دکھ کی داستان سناتے ہیں ۔ اگر کوئی غصہ کرے تو بددعا سے ڈراتے ہیں ۔ لہذا عورتیں تو نرم دل ہوتی ہیں فوراً پگھل جاتی ہیں ۔ جمعہ کو مسجدوں کے باہر انہیں لوگوں کے ڈیرے ہوتے ہیں ۔ جمعرات کو تو ان گداگروں کی جیسے عید ہو جاتی ہے ۔ جمعرات کو اگر ہم غلطی سے کسی ٹریفک میں پھنس جائیں تو سگنل بعد میں کھولیں گے ۔یہ گداگر بھاری تعداد میں پہلے برآمد ہو جائیں گے ۔ ان لوگوں سے جان چھڑانا بھی مشکل ہو جاتا ہے ۔

مرد گداگر شہروں ،بازاروں ، گلیوں کا چکر کاٹ کر اندازہ کر لیتے ہیں کہ کون سا علاقہ ان کیلئے موذوں رہے گا ۔ پھر آہستہ آہستہ یہی لوگ بچوں ، نوجوانوں کو چرس اور اعلیٰ قسم کی نشہ آور چیزوں کا عادی بناتے ہیں ۔ بعد ازاں پولیس بھی ان لوگوں سے مل کر ہاتھ صاف کر تی ہے یہی نہیں بلکہ بچوں کو اغوا ء کر کے غلط کاموں میں لگوانے والے بھی یہی لوگ ہیں ۔دوسری طرف گداگر عورتیں بازاروں میں بیٹھ کر گداگری کی آڑ میں دعوت گناہ دیتی ہیں اور کچھ گھروں میں گھس کر اپنی دکھ بھری باتوں سے اگلے کا دل مو لیتی ہیں اور بدقسمت افراد ان کی باتوں میں آکر گھروں میں کام کیلئے رکھ لیتے ہیں اور چند ہی دنوں میں یہ عورتیں گھروں کو نقصان پہنچا کر غائب ہو جاتی ہیں ۔

کچھ گداگر تو جیب کترے بھی ہو تے ہیں یہ لوگ ایک ہی علاقے کی مختلف جگہوں میں خاندان کی صورت پھیلے ہوتے ہیں عورتیں اپنی جوان بیٹی کی شادی کی فکر میں نظر آتی ہیں مگر پھر پتہ چلتا ہے کہ وہ جوان بیٹی خود گداگر ہے ۔ مرد اپنے بیٹے کو کینسر کا مریض کہتا ہے اور بیٹا ساتھ والی دکان سے اپنے باپ کو کینسر کا مریض بتاتا ہے ۔ رمضان میں تو ان لوگوں کی تعداد میں خطرناک حد تک اضافہ ہو جاتا ہے ۔ اور روزے کی حالت میں انہیں نظرانداز کرنا اور دشوار ہو جاتا ہے ۔

ہم لوگ یا تو بے حد بے حس لوگ ہوتے ہیں کہ ان برائیوں کو معاشرے میں پھیلتے ہوئے دیکھتے بھی ہیں اور کچھ کر نہیں پاتے یا توپھر لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دینے والوں میں سے ہیں کہ برائی دیکھی ، محسوس کی اور چل دیئے ، خیر ہے کہ کیا فرق پڑتا ہے ۔۔۔۔ لیکن ہم شاید بھول رہے ہیں کہ فرق تو پڑتا ہے ۔۔۔نوجوان نسل تباہ ہو رہی ہے فرق تو پڑتا ہے ۔۔۔ بچے بری صحبت کا شکار ہو رہے ہیں فرق تو پڑتا ہے ۔۔۔۔لوگوں سے نظریں نہیں ملا پاتے ، جانتے ہوئے بھی انجان بنتے ہیں ۔۔انہیں لوگوں کو نظرانداز کر کے ان کے حوصلے بڑھاتے ہیں فرق تو پڑتا ہے ۔۔۔

حکومت کا فرض بنتا ہے کہ ملک میں پیدا ہونے والی گداگری جیسی نحوست کو ختم کر نے کیلئے مناسب اقدام کرے ۔ ان لوگوں کیلئے کوئی قانون سازی کرنی چاہیے تاکہ یہ لوگ اس گندے پیشے سے باز آجائیں ۔ اس کے علاوہ حکومت کو چاہیے کہ صحت مند افراد جو گداگری کی لعنت میں مبتلا ہیں ان کیلئے ایسے ادارے بنائے جس میں ان کی محنت سے فائدہ اٹھایا جا سکے ۔ ایسے اداروں میں ان لوگوں کو مفت نوکریاں دی جائیں ۔یہ ادارے کپڑے سلائی کرنیوالے ، کتابیں جلد کرنیوالے ، پلاسٹک کے ڈبے بنانے والے ، تیل صاف کرنے والے ، کھلونے بنانے والے ، مٹی کے برتن بنانے والے ، لکڑی کا سامان بنانے والے ، فٹبال یا چمڑے کا کام کرنے والے اور اس طرح کے اور بہت سے کام ان لوگوں سے کروائے جا سکتے ہیں ۔ اور پھر اس کا م کی انہیں اجرت دی جائے تاکہ ملک سے گداگروں کی تعداد میں کمی لائی جا سکے ۔

اس کے علاوہ ہم شہریوں کا یہ فرض ہے کہ ہم اچھے شہری ہونے کا ثبوت دیں جہاں کوئی مشکوک گداگر دیکھیں جو جرائم کی دعوت دے رہا ہو تو فوراً پولیس کو اطلاع کریں اور ہر ضلع کی انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ اپنے فرائض پوری ایمانداری کیساتھ نبھائیں اور اپنے علاقوں میں باقاعدہ چیک اینڈ بیلنس رکھیں ۔ گداگروں کی شکل میں جرائم پیشہ افراد پر کڑی نظر رکھیں انہیں ضرورت پڑنے پر سخت سزا بھی دیں تاکہ ملک سے گداگری کی لعنت کو ختم کرنے کیساتھ ساتھ جرائم کا بھی خاتمہ ہو اور آئندہ کوئی بھی فرد گداگری کی آڑ میں ملکی سا لمیت کو نقصان نہ پہنچا سکے ۔

lubna azam
About the Author: lubna azam Read More Articles by lubna azam : 43 Articles with 37762 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.