اے حوا کی بیٹی۔۔۔ تم ایک ٹوکن نہیں ہو۔۔۔۔

میرا انٹرویو بہت اچھا ہوا تھا اور آج مجھے یونیورسٹی کی طرف سے Order Letterجاری ہوا۔ میں بہت خوش ہوں ۔۔۔یہ چہکتی ہوئی آواز میری ریسرچ فیلو کی تھی جو صبح صبح مجھے کال کرکے اپنی نوکری کا بتا رہی تھی ۔نیند سے جاگتے ہوئے ہی میں نے پوچھا جاب کیا ہے۔۔۔؟اس نے جاب بتائی جسے سن کو مجھے ذرا بھی خوشی نہیں ہوئی ۔جواب دینے کی غرض سے میں نے اچھا کہا ۔ریسرچ فیلو کافی حیرانگی سے پوچھنے لگی ،تمہیں کیا ہوا ہے ،خوش نہیں ہوئی تم اور نہ ہی تم نے اچھے لفظوں سے مجھے مبارکباد دی ،میں نیند سے پوری طرح جاگ چکی تھی ،میں نے کہا خوشی کو تو مجھے پتہ نہیں ہوئی کہ نہیں پر حیرت ضرور ہو رہی ہے کہ ایک قابل لڑکی ٹوکن بننے پر کتنی خوش ہو رہی ہے۔۔۔میرے الفاظ سخت تھے یا لہجہ معلوم نہیں لیکن اس نے فون بند کردیا۔میری فیلو خوش شکل ، خوش آواز ، خوش مزاج کیساتھ ساتھ اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکی ہے ۔ ہم تین لوگ ایک ہی پراجیکٹ پر کام کر رہی تھی ۔ اسکی شدید خواہش تھی کہ وہ کسی سرکاری یونیورسٹی میں ملازمت کرے ۔ ہر چیز اپنے وقت پر ہی ہوتی ہے۔۔۔ اسے یونیورسٹی سے الحاق شدہ کالجز کے تمام ہاسٹلز کا کنسلٹنٹ انچارج منتخب کر لیا گیا ۔ سولہ گریڈ کا یہ جاب مردوں کے لیے تو موزوں تھا لیکن عورتوں کے لیے نہیں ۔ یہی وجہ ہے جب میں نے سنا کہ اسکو ہاسٹلز کا انچارج بنایا گیا تو مجھے دکھ ہوا کہ اسے تھوڑا صبر کرنا چاہیے تھا بے شک تعلیم ضائع نہیں جاتی ہے۔ اسی کرب میں میں نے پورا ہفتہ اس سے بات نہیں کی ۔ ہفتے بعد اسکا مسیج مجھے موصول ہوا جس میں لکھا تھا کہ ’’میں ٹوکن نہیں بنی‘‘۔

یقین مانیے مجھے یہ مسیج پڑھ کر بہت خوشی ہوئی کہ میری فیلونے ایک بہترین فیصلہ لیا ہے اور آج وہ اﷲ کے فضل سے Degree Cell میں ایک باعزت آفیسر ہے۔ ا ب جب بھی ہماری ملاقات ہوتی ہے ووہنستے ہوئے کہتی ہے کہ تمہارے اس ایک سخت لفظ ٹوکن نے میرا پور پور زخمی کر دیا اور میں تین دن تذبذب کا شکار رہی اور آخرکار Refusal Letterبھیج دیا جو بے شک اس وقت ایک تکلیف دہ مگر اچھا فیصلہ تھا۔۔۔ عورت اﷲ تعالی کے قریب اس وقت ہوتی ہے جب وہ اپنے گھر کے اندر موجود ہے مگر آج کے تبدیل ہوتے وقت کیساتھ حالات خیالات بھی تبدیل ہو رہے ہیں ۔ عورتوں کو گھر سے باہر نکلنا پڑ رہا ہے مگر جہاں عورت نے اپنی عزت کو داؤ پر لگایا وہیں ا سے برے ہاتھوں نے بھی گھیر لیا۔

میری ذاتی رائے ہے کہ عورت کے لیے پانچ پیشے نرسنگ، ہاسٹل وارڈن ، جیل وارڈن، ائیر ہوسٹنگ اور سیکرٹری بے حد نا مناسب ہیں ۔ یہ پیشے خاص طور پر عورت کیلیے منتخب کیے گئے ہیں ۔اگر ان پیشوں پر عورتوں کی بجائے مردوں کو جگہ دی جائے تو کافی حد تک کرائم میں کمی واقع ہو سکتی ہے ۔ ڈاکٹر، نرس ، سیکرٹری ، وارڈ ن اور انتظامیہ اسکے علوہ ائیر ہوسٹس اور وی آئی پی یہ ایسی بیہودہ اور کرپٹ جوڑیاں ہیں جنکا انجام جرم پر ہوتا ہے۔ اور مرد کیساتھ عورت کو اس لیے ملا دیا گیا ہے کہ شروع شروع میں عورت شوق سے ایسی ملازمت اختیار کرتی ہے۔ مگر بعد میں ان کو مردوں کی داشتہ بن کر ملازمت کرنی پڑتی ہے۔ کیونکہ عورت کو بہت آسانی سے دو طریقوں سے رام کیا جا سکتا ہے۔ایک پیسہ اور دوسرا ہاتھ۔۔۔ پھر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ برائی میں کوئی برائی نظر نہیں آتی ہے اور سبھی مل جل کو خوشی خوشی ہر کام کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں ۔۔جیسے کتا بھونکا اور اسے ہڈی ڈالو اور وہ چلا گیا۔۔۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں سماجی شعور بڑی تیزی سے بڑھ رہا ہے مگر معاشی بحران کی وجہ سے پڑھی لکھی عورتوں کو باعزت ملازمتیں نہیں مل رہی ہیں ۔ اسکے برعکس ان کو ایسی ملازمتوں میں شوق سے بھرتی کیا جا تا ہے جہاں ان کی حیثیت ویسی ایک ٹوکن سے زیادہ نہیں ہوتی اور لوگ اس ٹوکن کو ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں ایک وقت ایسا آتا ہے کہ ٹوکن اتنا میلا ہو چکا ہوتا ہے کہ وہ واپسی کا راستہ بھول جاتا ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سطحی تبدیلیوں سے حقیقی تبدیلیوں کی طرف بڑھا جائے اور یہ اسی وقت ممکن ہو سکتا ہے جب عورت خود اپنا مقام سمجھ سکے اور اسکی عزت کروانا جانتی ہو۔

معاشرے کی تبدیلی میں عورت کا بڑا ہاتھ ہوتا ہے مگر بد قسمتی سے معاشی بحران اس قدر بڑھ چکا ہے کہ تبدیلی کی طرف بعد میں اپنے پیٹ کی طرف زیادہ دھیان جاتا ہے ۔ غربت کی چکی میں پسی ہوئی عورتیں سوچ سمجھ بغیر یہ کام کرنے کیلئے آمادہ ہو جاتی ہیں ۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ معاشرے کی تبدیلی سب کی اولین ترجیح ہونی چاہیے اور اسکے لیے عورتوں کے پاس ایسے مقامات ہونے چاہیے جب کی مدد سے وہ نظام کو متاثر کر سکیں بے شک اس قسم کی طاقت حاصل کرنے کیلئے انھیں اعتماد اور صلاحیتیوں سے بھرپور شخصیت کا مالک ہونا چاہیے تا کہ وہ ہر قسم کی رکاوٹوں کو کاٹتے ہوئے معاشرے میں تاریخی تبدیلی لا سکیں۔

دنیا کی طرف نگاہ دوڑائیں تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ کس طرح امریکہ میں Feministتحریک چلی۔ عورتیں مردوں کے مظالم اور انکی ہمدردی سے تنگ آکر یہ تحریک چلانے میں کامیاب ہوئیں ۔ ان کا دعویٰ تھا کہ وہ مردوں کی برابری قبول نہیں کریں گی بلکہ ایک فرد کی طرح معاشرے کے موجودہ نظام کو تبدیل کریں گی ۔ معاشر ے میں قائم مردوں کی تمام روایات کی خلاف ورزی کرکے وہ خود کو منوانا چاہتی ہیں ۔ بلاشہ اس تحریک نے ایک تہلکہ مچا دیا ۔ عورتوں کی طاقت سامنے آنے لگی اور انھوں نے اپنے آپ کو منوا نا شروع کر لیا۔

مگر بدقسمتی سے پاکستان میں حالات بدترین ہوتے جا رہے ہیں ۔ مجھے تو ان ماؤں کی سوچ سے ہمدردی ہوتی ہے جو اپنے بیٹوں کو یہ تک سبق دیتی ہیں کہ بیوی کو پہلے دن سے ہی لگام ڈال لو بعد میں یہ بے لگا م ہو جاتی ہیں ۔ حقیقت میں پاکستان میں مردانہ معاشرت نے عورت کو غیر محفوظ کر دیا ہے۔ ہر کام والی جگہ پر عورت کی مجبوری سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے اسکی حق تلفی کی جاتی ہے اور جو آواز اٹھانے کی طاقت رکھتی ہو اسکی آواز ہی دبا دی جاتی ہے ۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ اگرعورت خود اپنے عزت کرلے، اپنی عزت نفس کی حفاظت کرلے اپنا مقام بنائے رکھے تو کوئی دو رائے نہیں کہ کوئی اسکے بطور ٹوکن استعمال کرے۔

lubna azam
About the Author: lubna azam Read More Articles by lubna azam : 43 Articles with 37854 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.