اس ہوٹل کو دیکھ کر الله سبحان و تعالی سے تجارت کرنے کا دل کیوں چاہنے لگتا ہے

مسلمانوں نے جب مکّہ مکرمہ سے مدینہ المنوره حجرت کی تو اپنے آبائی وطن کو خیر باد کہنے کے بعد انصار مدینہ کی لا زوال بھائی چارگی کے باوجود مہاجرین مکّہ کو جن مشکلات کا سامنا تھا وہ ہر دور کے حجرت کرنے والوں کو برداشت کرنا پڑتا ہے -

کعبہ مشرفہ کے پڑوس میں رہنے والے یہ مہاجر ہر دم کعبہ مشرفہ کے کیے جانے دیدار سے محروم ہوگئے تھے لیکن مدینہ منورہ میں رسول مکرم سیدنا محمد صلی الله علیہ وسلم کا ہر دم انکے ساتھہ رہنا انکو کعبہ مشرفہ کی جدائی کے غم سے کسی حد تک آزاد کے ہوئے تھا ٠- لیکن اس زم زم کا تو کوئی نعم البدل نہیں تھا جو وہ مکّہ میں ہر دم ''چاہ زم زم '' سے ڈول بھر بھر کر نکال کر پیا کرتے تھے -

مدینہ اکمنوره میں اس وقت پانی کے کنووں کی بہت قلت تھی - زم زم تو دور کی بات عام پانی کا حصول بھی عبث تھا - ایک یہودی کا کنواں جسکا نام '' بیر رومہ '' تھا اس کا پانی زم زم سے کسی حد تک ملتا جلتا زایقه رکھنے والا پانی تھا مگر وہ یہودی اتنا ظالم تھا کہ اسنے اپنے کنوین کے پانی کے دام اتنے مہنگے رکھے تھے کہ اسے خریدنا غریب مسلمان مہاجروں کے لیے ممکن نہیں تھا -

مہاجرین مکّہ نے جب اپنی اس پرشانی کا ذکر رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے کیا تو آپ نے مخیر مسلمانوں کو اس کنویں کو خرید کر مسلمانوں کو وقف کرنے کا حکم دیا -

اس یہودی کو جب اس کا علم ہوا تو اولا'' تو اسنے اس کنویں کو فروخت نہ کرنے کا فیصلہ کی اور دوم اسکی اتنی قیمت رکھدی کہ یہ کسی کے بس کی بات نہیں رہی - اس وقت الله کے محبوب رسول اور امّت کے غمگسار نبی پاک صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو اس کنویں کو مسلمانو ن کے لیے خرید کر وقف کر دیگا اسکو الله سبحان تعالی جنّت میں ایک نہر عطا فرمائیں گے -

اس موقع پرسخاوت کے جذبے سے لبریز ؛؛ سیدنا عثمان غنی رضی الله و تعالی عنہ ''آگے بڑھے اور انہوں نے اس یہودی کو منہ مانگے دام دینے کی پشکش کی - یہودی جو مسلمانون کی اس مجبوری کو جانتا تھا ، پہلے تو اس نے انا کانی کی مگر منہ بولی رقم کی لالچ نے اسکو اسطرح گھٹنے ٹیکنےپر مجبور کیا کہ اسنے آدھا کنواں فروخت کرنے کا فیصلہ کیا - یعنی ایک روز اس کنویں کی ملکیت اور اسکے پانی تا تصرف سیدنا عثمان رضی الله و تعالی عنہ کے پاس ہوگا اور ایک دن خود اس یہودی کے پاس - اس ڈیل کے تحت عیار یہودی یہ چاہتا تھا کہ اسکو بڑی رقم بھی سیدنا عثمان رضی الله و تعالی عنہ سے حاصل ہو جایے اور اسکا اپنا نصف تسلط بھی اس کنویں پر قایم رہے -

جب یہ معاہدہ ہو گیا تو جس دن کی باری سیدنا عثمان رضی الله و تعالی عنہ کی ہوتی دن اہل مدینہ کو اس کنویں سے مفت پانی دیا جاتا گویا سیدنا عثمان رضی الله و تعالی عنہ نے الله سبحان و تعالی سے تجارت شروع کر دی تھی اور جس دن کنواں یہودی کی ملکیت میں ہوتا وہ اسکا پانی مہنگے داموں فروحت کرنے کی اپنی پرانی روایت کو برقرار رکھتا - اس سے یہ ہوا کہ لوگوں نے سیدنا عثمان بن عفان رضی الله و تعالی عنہ کی باری والے دن نہ صرف اس روز کا پانی بلکہ اگلے روز کا پانی بھی اسی دن ذخیرہ کرنا شروع کر دیا-

اس سے یہ ہوا کہ یہودی کی باری والے دن کوئی اس سے پانی نہ خریدتا - اب اسے احساس ہوا کہ اسنے تو بہت بے وقوفی کا سودا کر لیا ہے - وہ بھاگم بھگ سیدنا عثمان رضی الله و تعالی عنہ کے پاس آیا اور اسنے دگنی تگنی قیمت دیکر کنواں واپس لینے کی کوشش کی لیکن سیدنا عثمان رضی الله و تعالی عنہ نے تو الله سبحان و تعالی سے تجارت شروع کرکے ایک ایسے منافع کی بنیاد ڈال دی تھی جس میں دگنے تگنے کا کوئی حساب نہ تھا - یہ تو ایک لامحدود منفع کی شرح تھی جس کا دینا کسی انسان کے بس کی بات نہیں تھی - مجبورا'' اس یہودی کو اس محاورے کی مضداق کہ '' خود اپنے دم میں صیاد آگیا '' پورا کنواں سیدنا عثمان بن عفان رضی الله و تعالی عنہ کو فروخت کرنا پڑا- اس نے اسکے غالبا'' پچیس ہزار درہم وصول کیے اور یوں یہ کنواں اہل مدینہ کے لیے مکمل طور سے مفت وقف ہوگیا -

اس کنویں کی فیوض و برکت یہیں ختم نہیں ہوئیں بلکہ ہوا یہ کہ اس کے مفت پانی کی برکتوں سے اس کے اطراف کھجور کے درخت فی سبیل الله لگا دیے گیے جن سے کھجوریں اترنے لگیں جو یتیموں اور مساکین کو تقسیم کی جانے لگیں - ان کھجوروں کی اتنی کثرت ہوئی کہ یہ نادار لوگوں میں تقسیم کرنے کے بعد بچ جاتیں جنکو فروحت کیا جانے لگا اور ہر دور میں اسکی رقم حکومت کے بیت المال میں'' سیدنا عثمان غنی رضی الله تعالی عنہ کے نام سے الگ محفوظ کر دی جاتی -

زمانہ گزرتا گیا جب سعودی دور حکومت میں بینک , سعودی مملکت میں متعارف کرایے گیے تو ایک بنک میں '' سیدنا عثمان غنی رضی الله تعالی عنہ '' کے نام سے ایک بنک اکاونٹ کھول دیا گیا جو آج بھی الحمد الله '' سیدنا عثمان غنی رضی الله تعالی عنہ '' کے نام سے بینک میں موجود ہے - اور کھجوروں کے اس باغ سے جو سیدنا عثمان غنی رضی الله تعالی عنہ '' کے کنویں (سابق بیر رومہ) سے ملحق ہے جو آمدنی حاصل ہوتی ہے اسکا نصف اس اکاونٹ میں پابندی سے جمع کیا جاتا ہے جبکہ نصف یتیموں اور مساکین پر خرچ کر دیا جاتا ہے -

الله سبحان و تعالی سے تجارت کرنے کا فیض دیکھیں اب سالوں سے بینک میں جمع شدہ سیدنا عثمان غنی رضی الله تعالی عنہ '' رقم اتنی کثیر ہوگی ہے کہ اب مسجد النبوی صلی الله علیہ وسلم کے قریب ایک ایسا قطعہ پر جو نہیات مہنگا ہے اور کسی انفرادی شخص کے لیے اسکا خریدنا محال ہے ، وہاں '' سیدنا عثمان غنی رضی الله تعالی عنہ '' کے نام سے ایک-پانچ ستاروں
والا ہوٹل تعمیر کیا جارہا ہے جو آخری مراحل میں ہے -

اس ہوٹل سے ہونے والی آمدنی ماضی کے اصولوں کے تحت نصف یتیموں ناداروں بیواؤں اور مساکین میں تقسیم کی جایے گی اور نصف دوبارہ بینک میں '' سیدنا عثمان غنی رضی الله تعالی عنہ '' کے اکاونٹ میں جمع کرا دی جایے گی اور یوں الله سبحان و تعالی سے جو تجارت آج سے چودہ سو چھبیس برس پہلے '' سیدنا عثمان غنی رضی الله تعالی عنہ '' نے شروع کی تھی اسکی لامحدود برکات کا سسلہ لا امتناہی انشا الله جاری و ساری رہے گا - یہ سن ٨ ہجری کا واقعیہ ہے اورآج سن 1434 ہجری ہے - گویا 1426 سال گزر چکے ہیں اس واقعہ کو -

میں تو صرف یہ سوچتا ہوں کہ مدینہ میں ایک یہودی سے خریدے گیے '' سیدنا عثمان غنی رضی الله تعالی عنہ '' کے اس کنویں کی جب دنیاوی فیوض اور برکت کا یہ عالم ہے تو الله سبحان و تعالی کے وعدے اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے قول حق کے مطابق جنت جو نہر '' سیدنا عثمان غنی رضی الله تعالی عنہ '' کے حصے میں آئی ہوگی اسکی برکتوں اور رحمتوں کا کیا شمار ہوگا - مجھے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ریاضی دانوں کا یہ کلیہ کہ ہر رقم گنی جاسکتی ہے کیوں کہ گنتی کبھی ختم نہیں ہوتی (INFINITE ہے ) وہاں ناکام و نامراد ہو جایے گا =

جب آپ نے اتنی تفصیل پڑھ ہی لی ہے تو دو چھوٹی چوٹی علمی باتیں بھی سن لیں - اولا'' تو کہ '' سیدنا عثمان غنی رضی الله تعالی عنہ '' کے کنویں کے اطراف میں جو کھجوروں کا باغ لگا ہے اسکی سعودی وزارت ذراعت دیکھ بھال کرتی ہے اور اسمیں ڈیڑھ ہزار سے زاید پیڑ موجود ہیں اور اس باغ اور کنویں کی ملکیت آج بھی '' سیدنا عثمان غنی رضی الله تعالی عنہ '' کے نام ہے اور بجلی اور دیگر ٹیکسوں کے جو بل اتے ہیں ان پر '' سیدنا عثمان غنی رضی الله تعالی عنہ '' کا اسم مبارک ہی درج ہوتا ہے -

waseem Ahmed siddiqui khaki
About the Author: waseem Ahmed siddiqui khaki Read More Articles by waseem Ahmed siddiqui khaki : 4 Articles with 3516 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.