انقلاب کہانی

انقلاب ہمیشہ نظریات کی بنیاد پر آتے ہیں اور 14اگست 1947ء کا دن ایک عظیم انقلاب کا دن تھا ۔ جب ایک عظیم اور آفاقی نظریہ کی بنیاد پر کہ جسکی اساس ایک ایسے دین پر ہے جسکی پاسداری کے لیے ایک لاکھ چوبیس ھزار پیغمبراوررسول دنیا میں اُتارے گئے اور جس کی تعلیم و تشریح کے لیے آسمانی کتابیں نازل ہوئیں ۔ آج اسی نظریہ کی بنیاد پر ایک ملک بن رہا تھا ۔مگر اس ملک سے بھی زیادہ اہمیت اس مقصد کی تھی جس کی خاطر لوگ بے مثال قربانیاں پیش کررہے تھے ۔ وہ مقصد کیا تھا ؟

چوہدری رحمت علی ؒ The Millat and The Mission(اشاعت 1942تا 1945ء ) میں لکھتے ہیں ’’ یہ انقلاب ہمیں اس بات کو یقینی بنانے کی دعوت دیتا ہے کہ مستقبل میں ہماری تعمیر نو کے سوتے اسلام سے پھوٹیں ، اس کی منصوبہ بندی ملت ازم یعنی اسلامی اُمہ کی بنیاد پر ہو اور اس کی تعمیر میں استعمال ہونے والا سازوسامان روحانی پاکیزگی ، بنیادی اتحاد اور ہمارے لوگوں کی قومی یک رنگی کا مجموعہ ہو‘‘ ۔انہی کی کتاب (The Father Land of the Pak Nations) کے مترجم اقبال الدین احمد پاکستان کے لیے قربانیاں پیش کرنیوالوں کا آنکھوں دیکھا احوال ان الفاظ میں پیش کرتے ہیں ۔

’’یہ شہید ہونے والے مسلمان ایسے سادہ دل مسلمان تھے کہ نہ انہیں تخت کا لالچ تھا نہ کسی صدارت کا ، نہ انہیں بڑے بڑے محلوں کا شوق تھا نہ کسی وزارت کا ، اگر شوق تھا تو صرف یہ کہ پاکستان بن جائے جہاں نبی اکرم ﷺپر نازل ہونے والے قوانین کا بول بالا ہواور خلفائے راشدین کے زمانے کی یاد تازہ ہوجائے ‘‘ ۔

یہ اسلامی انقلاب کا حقیقی تصورتھاجو لوگوں کے دل و دماغ میں رچ بس چکا تھا ،یہی وجہ ہے کہ آج بھی ہمارے معاشرے کے بڑے بزرگ 1947ء کو انقلاب سے تعبیر کرتے ہیں اور یہ واقعی صحیح معنوں میں ایک عظیم اسلامی انقلاب ہوتا جو ایرانی انقلاب سے تہائی صدی قبل یعنی 1947ء میں آچکا ہوتا اگر مسلمانوں کی قربانیوں کا ثمر ان کی امنگوں اور آرزؤں کے مطابق ملنے دیا جاتا ۔ مگر جیسا کہ اقبال نے کہا
ہے زاغوں کے تصرف میں شاہینوں کا نشیمن

مسلمانوں کی ان عظیم تر اور بے مثال قربانیوں کا محور و مقصود ان سے چھین لیا گیا ۔ ایک عظیم انقلاب کا سورج جو کبھی صحرائے عرب میں چمکا تو اُسے دنیا کی بے مثال تہذیب میں بدل ڈالا ۔اندلس، بخارا و بغداد کوبخشا جس نے نئی تہذیبوں کا شعور۔ پھیلا اُجالا جہاں سے مشرق و مغرب میں بن کر صبح کا نور ۔ اب انقلاب کا یہی سورج مسلمانان برصغیر کی نئی صبح بن کر طلوع ہونے والا تھا مگر سیکولر سازش ،نام نہاد جمہوریت اور خانقاہی سیاست کی بدولت ظلمت کی طویل اندھیری شب کی سیاہیوں کی نذر ہوگیا ۔ بدقسمت قوم کی تقدیر بدل کر بھی نہ بدل سکی ، ملک آزا د ہوگیا، غریب عوام کومگر وہ آزادی نہ مل سکی جو اسلامی انقلاب کی صورت میں ان کا مقدر ہوتی ۔’’ان کی نسلیں آج بھی انگریز کے جانشینوں کی غلام ہیں ،معصوم بچے ،خواتین و مرد وڈیروں ، جاگیرداروں اور مخدوموں کی نجی جیلوں میں آج بھی سسک رہے ہیں ، 1947ء گزر گیا،اصطلاحیں بدل گئیں ، باطل طبقاتی نظام بدلا ، نہ اس کی پروردہ دجالی رہبانہ تہذیب بدلی ۔ وہی تفریق وتقسیم ، وہی ذات پات ۔ اونچ نیچ اور طبقاتی تقسیم میں ہمارا معاشرہ برہمن اور شودروویش دور سے بھی بدترین مثال بن چکا ۔ اپرکلاس مخدوم ، لوہرکلاس خادم ۔ ایک طبقہ ہر قانون ،ضابطۂ اخلاق سے بالاتر ، مطلق العلان آمر، قوم کی ناتواں رگوں سے لہو نچوڑ نچوڑ کر دنیا بھر میں جاگیریں ، آسائشیں بنانے اور شہ خرچیوں سے فرصت نہیں جبکہ دوسرا اسکی عیاشیوں کے لیے اپنے خون پسینے کی کمائی سے اسکی تجوریاں بھرنے میں نسل در نسل کوہلوکے بیل کی مانند جتا ہوا مگر اپنے پیدائشی حقوق کے لیے خودکشیاں اور خود سوزیاں کرنے پر مجبور‘‘ ۔۔

جوں جوں وقت گزرتا گیا ظلمت کی یہ اندھیری شب طویل سے طویل تر اور سیاہ سے سیاہ تر ہوتی چلی گئی ۔ کبھی جمہوری انقلاب کے نام پر کبھی فوجی حکومت کے پس پردہ ۔۔ نسل در نسل استحصال کا سلسلہ عروج پر ہے ۔صرف ایک الیکشن والے دن عوام کو بھیڑ بکریوں کی مانند ہانک کر پولنگ اسٹیشن پر لے جایاگیااور پھر حکومت میں نمائندگی تو دور کی بات۔۔ انکے پیدائشی حقوق بھی سلب کرلیے گئے، ملکی اثاثے اور قومی وسائل جس قدر دستیاب تھے جمہوریت کی آڑ میں لوٹ لیے گئے ۔ کرپشن میں مہارت بڑے عہدوں کے لیے میرٹ بن گئی ۔ ، قومی ترقی اور خوشحالی کے نام پر بیرونی قرضے لے کر سیاسی پارٹیوں کو سنوارنے ، ذاتی آسائشوں ، بیرون ملک پراپرٹیز اور بنک اکاؤنٹس کا حجم بڑھانے پر صرف کر ڈالے گئے اور پھر ان قرضوں کی واپسی کے نام پر مہنگائی اور اضافی ٹیکس کے ذریعے عوام کے منہ کا نوالہ بھی چھین لیا گیا ،ان کی رگوں سے خون کی جو رمق باقی تھی نچوڑ ڈالی گئی۔اور جب عوام میں فاقوں اور خودکشیوں کی نوبت آگئی ،وہ اپنے پیدائشی حقوق کے لیے سڑکوں پر نکلنا شروع ہوئے تو دوبارہ فوج کو دعوت دے کر غریب عوام کا ایوان اقتدار تک پہنچنے کا راستہ بلاک کردیا گیا اور اس وقت کا انتظار کیا گیا جب قوم کودوبارہ جمہوری دلاسوں اور انقلابی لاروں کے ذریعے فوجی حکومت کے خلاف صف آراء کرکے ملک وقوم کو لوٹنے کے لیے مفاہمت کے نام پر نیاسیاسی ڈھونگ رچایا جاسکے ۔

68برس سے اس ملک کے لیے قربانیاں دینے والے غریب عوا م کے ساتھ یہی بھیانک کھیل جاری ہے ۔نت نئے سراب دکھا کر قوم کو اسکی منزل مقصود اور قربانیوں کے اصل محور سے دور کیا جارہاہے ۔ 68سال بعد اب جب کہ اس استحصالی طبقاتی باطل نظام کے بوجھ تلے سسکتی انسانیت کو بیداری کا احساس بغاوت پر مجبور کر رہا ہے، لوگ سڑکوں پر نکل کر خو د سوزیاں کرنے پر مجبور ہیں ،انقلاب ان کی ضرورت ہی نہیں بلکہ مجبوری بن چکاہے تو اس مجبوری سے فائدہ اُٹھا کر ایک بار پھر سیکولر قوتیں و اجارہ طبقہ اپنی حکومت اور بالادستی کا سلسلہ طویل سے طویل تر کرنے کے لیے شطرنج کی بساط پھیلا چکا ہے اور اب کی بار انقلاب کے نام پر ایک اور سراب تیار ہے ۔

صدیوں سے عوام پر مسلط اجارہ دار طبقہ کو صاف نظر آنے لگا تھا کہ امریکہ کے جاتے ہی خطہ میں ایک بار پھر اسلامک کاز کو تقویت ملے گی اور جس طرح سویت یونین کے انخلاء کے بعد افغانستان پر اسلام کا پرچم لہرااُٹھا تھا ،اب دائرہ کار وسیع تر ہوسکتا ہے، اس سے قبل کہ نفاذ شریعت کی تحریک اُٹھے ،استحصالی طبقاتی نظام سے بار بار ڈسے ہوئے عوام جو حقیقت میں اب تبدیلی چاہتے ہیں ان قوتوں کے ساتھ مل جائیں ، انقلاب کی فضا ہموار ہواور سیکولر طبقہ کے اقتدار سے پاؤں اکھڑ جائیں ۔پلان بناکہ اسلام اور انقلاب ہی کے نام پر ایک بار پھرعوام کو اپنے دست نگر میں کر لیا جائے ۔

چنانچہ اب کی بارکسی جرنیل یا سیاستدان کی بجائے ایک ایسے مذہبی طالعہ آزماکی تلاش ہوئی جو اسلام اور انقلاب کے نام پر عوام کو سبز باغ دکھاسکے اور اسکے کندھوں پر کھیل کر اجارہ دار قوتیں اپنا تسلط مزید مستحکم کر سکیں ۔ اسے ہر طرح کی سیکورٹی اور انتظامات کی یقین دہانی کرائی گئی اور پس پردہ وہ فضا ہموار کی گئی جس کے تحت انقلاب اور تبدیلی کے خواب دکھا کر لوگوں کواکٹھاکیا گیا ۔ 1947ء میں جس مقصد کی خاطر قوم اپنے قافلے لُٹا چکی 68برس بعد بھی اسی خواب کی تکمیل کی جدو جہد میں اپنے گھر وں سے نکلی ۔ مرد ، خواتین ، بوڑھوں اور بچوں نے اسلام آباد کی سخت سردی میں اپنے اعصاب کو شل کیا اور کئی ہسپتال پہنچ گئے ۔ مگر جس طرح 1947ء میں ان کی قربانیوں کا ثمر چھین لیا گیا ،اورانکے لُٹے قافلوں کی باقیات اور میتوں کے انبار پر اقتدار کے ایوان کسی اور نے سجائے ، جس طرح جمہوری انقلاب ، روٹی کپڑا مکان کے نام پر صرف ان کا استحصال ہوا۔ جس طرح فوجی مارشلاؤں نے انکو انکے مقصد سے مزید دور کر دیا اسی طرح یہ ’’ میڈ ان کنیڈا ‘‘ سافٹ وئیر انقلاب بھی محض سیکولر بالادست طبقہ کے پنجۂ استبداد کو مزید مستحکم کرنے کا باعث ثابت ہوا
ٍ
دنیا میں جب بھی کہیں انقلاب آیاتوایک مسَلم نظریہ کی بنیاد پر آیا ، پھر اس نظریہ کو مقبول عام ہوکر ایک منظم عوامی تحریک بننے کے لیے طویل وقت درکار رہا ۔ جابر اور غاصب قوتوں اور حکومتوں کی جانب سے ظلم کے پہاڑ توڑے گئے ، قربانیوں کی ان گنت داستانیں رقم ہوئیں۔کارل مارکس ، امام خمینی اور نیلسن منڈیلا تک ، کس کس نے قیدو بند اور جلاوطنی کی سہوبتیں برداشت نہیں کیں ، مصر اور شام کی موجودہ خون ریزیاں کوئی دیکھے اور دنیا میں جب پہلی بار اسلامی انقلاب آیا تو خود حضورنبی اکرم ﷺ سمیت تمام صحابہ کرامؓ پرکس قدر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے ؟۔

مگریہاں اسلام آباد میں عجیب انقلاب تھا جو سرکاری سطح پر لایا جارہاتھا ، حکومت اور ریاستی ادارے صدقے واری جارہے تھے ۔ صاحب انقلاب کو جو پروٹوکو ل حاصل تھاکسی ریاست کے وزیر اعظم کو نصیب کہاں ۔ ، تمام تر اوراعلیٰ سے اعلیٰ سہولیات اور ’’ڈائریکشنز‘‘ ایک عالی شان اور وی آئی پی کنٹینر میں میسر تھیں ،یہاں تک کہ اس دوران کنٹینر سے نیچے اُترنے کی زحمت بھی نہ اُٹھاناپڑی۔ سارے کے سارے انتظامات خود بخود ہوتے جارہے تھے ۔ دنیا حیران تھی کہ اتنے بڑے مجمع کو تین چار دن تک کون کنٹرول کرتا رہا اور صرف چند دنوں میں انقلاب کی تیاری؟۔ مگر دنیا کو کیا معلوم کہ 68برس سے کبھی جمہوریت کے نام پر اور کبھی فوجی مارشل لاؤں کے پس پردہ اس ملک پر قابض اجارہ دار طبقہ اپنے اقتدار کو مزید طول بخشنے کے لیے ایک بار پھر ’’ فضائے بدر‘‘ پیدا کر نے کی کوشش میں ہے اور ’’ فرشتے ‘‘قطار اندر قطار اُتر رہے ہیں ۔

نہ کسی نظریہ پر آغاز ، نہ کسی نتیجہ پر اختتام ، تین چار دن کے اس ’’ سرکاری شو‘‘کا مقصد تبدیلی لانا نہیں بلکہ تبدیلی کے تمام راستوں پر پہرا لگانا تھا ۔ تاکہ پہلے کچھ عرصہ تک تو ’’ کونسی شریعت؟ ‘‘کے نام پر قوم کو اُلجھائے رکھا جائے جیسا کہ ابھی سے یہ آوازیں اُٹھنا شروع ہو چکی ہیں ۔ پھر ’’ کنیڈین ساختہ انقلاب یا طالبان کا انقلاب ‘‘ کے نام پر قوم کو تقسیم کردیا جائے اورفرقہ پرستی کو باہم مزاحم کرکے اپنی اجاراداری اور لوٹ کھسوٹ کا سلسلہ قائم و دائم رکھا جائے ۔اور بالفرض اگر انقلاب یا تبدیلی عوام کی رو سے ناگزیر ہوجائے تو کنیڈین ساختہ ’’سافٹ انقلاب ‘‘(جو آئین سے متصادم نہ ہو)کو راستہ دیکر سیکولر طبقاتی نظام کو جزوی تبدیلیوں کے بعد دوبارہ قوم پر مسلط کر دیا جائے ۔

68برس کی اس انقلاب کہانی کا خلاصہ اس کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے؟
قرآن کو بازیچۂ تاویل بنا کر
چاہے تو خود ایک تازہ شریعت کرے ایجاد
ہے مملکت ہند میں اک طرفہ و تماشا
اسلام ہے محبوس ، مسلمان ہے آزاد

اس قوم کو حقیقی آزادی صرف اُسی وقت نصیب ہو سکتی ہے جب وہ ان سیاسی طالعہ آزماؤں اور نئی شریعتوں کے مؤجدوں سے خلاصی حاصل کرکے دوبارہ اپنے اصل نظریہ پر پہرا دینا شروع نہیں کردیتی کہ’’ جس کی بنیاد پر اس نے پاکستان حاصل کیا تھا۔وہی نظریہ جس کی بنیاد پر آج سے چودہ سوسال پہلے دنیامیں وہ عظیم انقلاب آیا تھا جس کے بعد امیر و غریب ، شاہ و گدا، آقا و غلام کا فرق مٹ گیا۔ مساوات ، اخوت اور بھائی چارہ کی عمدہ مثال قائم ہوئی تھی۔وہی نظریہ جب یورپ میں پہنچا تو کلیساکا طلسم پارہ پارہ ہوا اور مذہب کے نام پر راہب کی اجارہ داری سے انسانیت کو آزادی نصیب ہوئی ۔ وہی نظریہ جوہندوستان میں ذات پات، چھوت ، چھات پر مبنی ظالم و جابر برہمن سامراج کے بوجھ تلے سسکتی انسانیت کیلیے ذریعۂ نجات بن گیا اور اب وہی نظریہ جابر و غاصب طبقاتی و خانقاہی نظام کی تفریق و تقسیم ، اپرکلاس و لوہر کلاس، خادم و مخدوم کے تضاد کو ختم کرکے ہرانسان کو اس کا بنیادی اور پیدائشی حق دلوانے کی فطری صلاحیت رکھتاہے ۔ اب یہ پاکستانی عوام پر ہے کہ وہ نام نہاد جمہوریت ، خانقاہی سامراج، سیکولرازم ، نیشنل ازم ، کمیونزم وغیرہ کی بھول بھلیوں میں بھٹک کر مزید مسائل کے بوجھ اٹھانے کے لیے تیار رہتے ہیں یا پھر اپنی سلامتی اور فلاح کے ضامن قانون ِفطرت اسلام کے نفاذ کی مخلصانہ جدوجہد کرکے تمام تر مسائل اور مصائب سے چھٹکارا پاتے ہیں ۔۔ جلد یا بادیر( مزید68برس قربانیاں دینے کے بعد بھی )۔۔ فیصلہ بہرحال پاکستانی قوم کو کرنا ہے ۔‘‘
Rafique Chohdury
About the Author: Rafique Chohdury Read More Articles by Rafique Chohdury: 38 Articles with 46749 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.