مسلم امہ۔۔۔نا اتفاقی کی زد میں

اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ مسلم امہ کا سب سے بڑا مسئلہ نا اتفاقی ہے ۔ اگر ہم اس عفریت پر قابو پالیتے ہیں تو ہمارے سارے مسائل چٹکیوں میں حل ہو سکتے ہیں ۔ ورنہ ہم جہاں ہیں ، وہیں رہیں گے ۔ اکیسویں صدی کے مسلمان کئی قسم کی نا اتفاقیوں میں جی رہے ہیں ۔ کہیں وطنیت اس امت ِ مرحومہ کا شیرازہ بکھیر رہی ہے تو کہیں فرقہ واریت نے اس کا جینا عذاب کیا ہوا ہے ۔ کہیں عدم برداشت ہے تو کہیں متشددانہ نظریاتی اختلاف ۔ صورت حال گمبھیر سے گمبھیر ہوتی جار ہی ہے ، مگر کوئی بھی اس امت ِ مرحومہ کی حالت ِ زار پر رحم کھانے کو تیار نہیں۔ ہر ایک نا اتفاقی کو بڑھاوا دینے کی ہمہ تن کوششوں میں مصروف ہے ۔ کفر اور گم راہی کے فتوؤں نے الگ سے قیامت برپا کر رکھی ہے ۔ امت کے ہر ہر ٹولے کا الگ الگ "نظریاتی پیمانہ " ہے ۔ جس کی مدد سے وہ دن رات ۔۔۔ دن رات کیا ، ساری زندگی ، مومن و کافر کا پتا لگانے میں لگا رہتا ہے ۔ جو نظریاتی سوچ پر پورا اترا ، وہ مومن ۔ جو ذرا سا ادھر ادھر ہوا ، وہ گم راہ اور کافر۔حسد کی آگ نے پوری مسلم امہ کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے ۔ تعصب ہے کہ تھمتا نہیں۔

عالمی حقیقتوں کو سامنے رکھ کر ذرا سوچیے ۔ کیا ہم اس نازک صورت حال میں کسی قسم کی نااتفاقی کے متحمل ہو سکتے ہیں ؟ کیا یہ وقت عصبیت کو بڑھاوا دینے کا ہے ؟کیا یہ وقت کفر اور گم راہی کے فتوؤں کے پرچار کا ہے ؟کیا یہ وقت نظریاتی اختلاف کو تشہیر دینے کا ہے ؟جب نہیں ہے تو ہم کیوں ایسا کر رہے ہیں ؟ ہم کیوں مسلم امہ کو یک جا کرنے میں اپنی توانائیاں صرف نہیں کر رہے ؟ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان تمام سرگرمیوں کو عالمی سطح پر ترک کر دیا جائے ، جو کسی بھی طرح مسلم امہ میں نا اتفاقی کو بڑھاوا دے رہی ہیں ۔

اس وقت پورا عالم ِ اسلام فرقہ واریت کے بھینٹ چڑھا ہوا ہے ۔ شام اور عراق کے شیعہ سنی فسادات اسی فرقہ واریت کا شاخسانہ ہیں ۔ کس قدر افسوس ناک بات ہے کہ مسلمانوں کی توانائیاں مسلمانوں کے خلاف ہی استعمال ہو رہی ہیں ۔ مسلمان طیش میں آکر اپنے آپ سے بدلہ لے رہا ہے ۔ ابھی آج ہی ایک خبر نظر سے گزری کہ سعودی عرب کے نوجوان جہاد کے لیے عراق اور شام کا رخ کرتے ہیں ، تاکہ اپنے مخالف فرقے کی بیخ کنی کرنے کے لیے اپنا سب کچھ قربان کر دیں ۔ یہاں تک کہ جان بھی !ذرا سوچیے ، اس طرح نا تفاقی پھوٹے گی یا نہیں ؟جہاد ایک مذہبی عبادت ہے ۔ قرآن مجید کی کئی آیات جہاد کے حکم پر مشتمل ہیں ۔ اس سے انکار ممکن نہیں ۔ مگر میرا سوال یہ ہے کہ یہ جہاد ان ممالک میں کیوں نہیں کی جاتا ، جہاں در حقیقت جہاد کی ضرورت ہے ؟مثلا : اسرائیل اور فلسطین کی حالیہ جنگ کو ہی دیکھ لیجیے ۔ مجھے اسرائیل کے خلاف صرف ایک جہادی تنظیم یعنی حماس لڑتی ہوئی نظر آئی ۔ وہاں حقیقت میں جہاد ہو رہا ہے ۔ ہونا تو یہ چاہیے تھاکہ اسلامی ممالک کی ساری جہادی تنظیمیں اسرائیل پر ٹوٹ پڑتیں ۔ کیا داعش ۔۔ کیا حزب اللہ ۔۔ کیا تحریک ِ طالبان ۔۔۔کیا الشباب۔۔۔ کیا امارت ِ اسلامیہ ۔۔کیا بوکو حرام ۔۔۔ اس طرح ان کو عام لوگوں کی ہم دردی بھی حاصل ہو جاتی ۔ لیکن ہم نے دیکھا کہ یہ ساری تنظیمیں ، اسرائیل اور فلسطینی جنگ سے دور رہیں ۔ البتہ اپنے اپنے ملکوں میں "اسلامی شریعت " کے نفاذ میں مصروف رہیں ۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ اس نازک صورت حال میں حز ب اللہ اور داعش اپنے فرقہ وارانہ اختلافات بھلا دیتی ۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا ۔ یہ دونوں تنظیمیں قرقہ واریت کی آگ میں اپنے لوگوں کی جانیں نچھاور کرتی رہیں ۔ اور دوسری طرف اسرائیل ان کے اپنے لوگوں کو شہید کرتا رہا ۔

اگر آج مسلمان متحد ہوتے تو اسرائیل کو یہ جراء ت کبھی نہ ہوتی کہ وہ فلسطین کے معصوم لوگوں بہ شمول بچوں اور عورتوں کے یوں بے دردی سے شہید کرتا ۔ ایک ارب ساٹھ کروڑ مسلمانوں کے مقابلے میں اسرائیل کی کیا حیثیت ہے ! اوآئی سی اسرائیل کی ظالمانہ جراء ت کے سامنے کچھ نہ کر سکی ۔ اقوام ِ متحدہ کے بعد دنیا کی دوسری بڑی تنظیم اپنے تمام ممبر ممالک کا مشترکہ اجلاس بلانے میں ناکام رہی ۔ وجہ نا اتفاقی ٹھہری ۔ یعنی صورت حال بہ ایں جا رسید کہ تمام مسلم ممالک کے سربر ہ ایک ساتھ بیٹھ بھی نہیں سکتے ۔ جب حالات اتنے پیچیدہ ہو جائیں گے ، تو کیوں کر ہمارے مسائل حل ہو سکتے ہیں ۔

آخر میں ، میں قرآن مجید کی چند آیات کا ترجمہ پیش کرتا ہوں ، جو مسلم امہ کے اتحاد کے الہامی حکم پر مشتمل ہیں ۔ کاش ! نیل کے ساحل سے لے کر تا بہ خاک ِ کاشغر ہر ہرمسلمان ان الہامی احکامات پر عمل پیرا ہو جائے ۔ تاکہ ہم سکھ سے جی سکیں ۔

"اللہ کی رسی کو سب مضبوطی سے تھام لواور پھوٹ نہ ڈالو ۔ اور اللہ کی اس وقت کی نعمت کو یاد کرو ، جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمھارے دلوں میں الفت ڈال دی ۔ پس تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی ہو گئے اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پہنچ چکے تھے تو اس نے تمھیں اس سے بچا لیا ۔ اللہ اسی طرح تمھارے لیا اپنی نشانیاں بیان کرتا ہے تاکہ تم ہدایت پاؤ۔"(103:3)

"بے شک جن لوگوں نے اپنے دین کو جدا جدا کر دیا اور گروہ بن گئے ، آپ کا ان سے کوئی تعلق نہیں ۔ بس ان کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے ۔ پھر وہ ان کو بتلا دے گا ،جو کچھ وہ (دنیا میں ) کرتے رہے ۔"(159:6)

"(یاد رکھو) سارے مسلمان بھائی بھائی ہیں ، پس اپنے دو بھائیوں میں ملاپ کرا دیا کرواور اللہ سے ڈرتے رہو ، تاکہ تم پر رحم کیا جائے ۔" (10:49)

مندرجہ بالا آیات آپ کی نظروں سے کئی بار گزری ہوں گی ۔ آپ نے پڑھی بھی ہوں گی اور سنی بھی ہوں گی ۔ ان آیات کو پڑھ کر ضرور سوچیے گا کہ کیا آج کے مسلمان میرے رب کے ساڑھے چودہ سوسال پہلے دیے ہوئے ان احکامات پر عمل پیرا ہیں ؟؟؟
Naeem Ur Rehmaan Shaaiq
About the Author: Naeem Ur Rehmaan Shaaiq Read More Articles by Naeem Ur Rehmaan Shaaiq: 122 Articles with 145217 views میرا نام نعیم الرحمان ہے اور قلمی نام نعیم الرحمان شائق ہے ۔ پڑھ کر لکھنا مجھے از حد پسند ہے ۔ روشنیوں کے شہر کراچی کا رہائشی ہوں ۔.. View More