ہمیں انقلاب اور آزادی نہیں عمل مارچ کی ضرورت ہے

پاکستان اس وقت اپنے مشکل ترین دور سے گزر رہا ہے۔ صرف پاکستان کو نہیں پورے عالم اسلام کو اس وقت اپنی بقا کے خطرات لاحق ہیں۔ہم اورتاریخ شاہد ہے کہ ایک ایک کر کے ہر اسلامی ملک میں اندرونی انتشار پھیلا پھر فسادات ہوئے اور یہ فسادات اتنے بے قابو ہو گئے کہ وہاں نیٹو فوج اور انکل سام آ گئے اور وہ سب ممالک اور انکے عوام پیچھے مڑ مڑ کر گزرے وقت کو آوازیں دے رہے ہیں۔ وہاں جو لوگ انتشار پھیلانے کیلئے آگے لائے گئے وہ بد تریں انجام کو پہنچے یا اپنے انجام کی طرف محو سفر ہیں۔ اب پاکستان کی طرف آتے ہیں بڑے دنوں بعد قوم کو امن کی ٹھنڈی ہوا کا ایک جھونکا نصیب ہوا تھا ۔ باہر کی دنیا میں پاکستان کا ایک وقار بلند ہوا تھا پاکستانی فوج اس وقت تاریخ کی مشکل ترین جنگ لڑ کر کامیابی کی منزل کے عین قریب تھی ایسی جنگ جس میں اسے ایک طرف تو دشمن کو پرکھنا تھا اسے ڈھونڈنا تھا اسے چہرے سے نہیں پہچانا جا سکتا کونکہ وہ ہماری اسلامی تاریخ کا پر وقار تریں چہرہ لئے تھا اور پاکستان کے تمام دشمن پاکستان کو اس مشکل ترین جنگ میں دھکیل کر خوشیوں کے شادیانے بجا رہے تھے ۔ لیکن تاریخ شاہد ہے جو فوج بے سرو سامانی کے عالم میں تینکوں کے نیچے بم باندہ کر گھس جانے کا حوصلہ رکھتی ہے اس کی رگوں میں آج بھی وہی خون دوڑ رہا ہے۔ میرے وطن کے جوانوں کی اس کامیابی سے گھبرا کر دشمن حواس باختہ ہو گیا ہے اس نے ایک بار بھر 1971 والا کرسی کا کھیل تماشا سجا دیا اور ہم جذباتی لوگ اس تماشے میں کود گئے ۔ جب تک یہ آپریشن شروع نہیں ہوا تھا کسی کو انقلاب لانے کی ضرورت کیوں محسوس نہیں ہوئی ۔ مڈیا کے ریکارڈ پر یہ بات کہے کہ یہ الیکشن پچھلے تمام الیکشنوں سے زیادہ غیر متنازع رہا اس الیکشن کو سب جماعتوں نے قبول کیا اور قبول کرنا ہی بنیادی وجہ بنا خیبر پختونخواہ حکومت کی تشکیل کا ۔ مولانا فضل الرحمٰن کی بے انتہا کوششوں کے با وجود نواز لیگ نے تحریک انصاف کا مینڈٹ قبول کر کے ایک عدم تشدد کی فضا کو رواج دیا جو پاکستان کی عوام کیلئے بجا طور پر خوشی اور سکون کا ایک اور جھنکا تھا۔ اس دفع تقدیر نے بھی اپنے پتے کچھ ایسے کھیلے کہ کسی کو حرف شکایت لبوں پر لانے کی گنجائش نہ رہی ۔ ہر جماعت کو اس کے اپنے گڑہ میں آزادان حکومت ملی ۔ اس وقت سندھ پیپلز پارٹی کے پاس ہے اسے اجازت ہے وہ اسکو ترقی دے کر دبئی کے برابر لے آئے کوئی اس کو نہیں روک رہا ۔ بلوچستان الیکشن نتائج سے قطع نظر بلوچ حکومت کو دے دیا گیا ابھی یہ ان کی خواہش پر مبنی ہے کہ وہ اس کو ترقی کی راہ پر ڈال کر جاپان سے آگے نکل جائیں ۔ خیبر پختونخواہ کی حکومت پورے اختیارات کے ساتھ عمران خان کے پاس ہے وہ چاہیں تو ہر گلی میں نمل یونیورسٹی بنا دیں ہر گاؤں میں شوکت خانم بنا دیں شہراؤں کو پیرس سے زیادہ ترقی دیں اور پورے خطے کو سنگاپور سے آگے لے جائیں اور اپنے جزبے سے اس عوام کو مقدر کاسکندر بنا دیں کوئی ان سے حسد نہیں کرے گا۔ پنجاب شہباز شریف کے پاس ہے وہ اسے ترکی سے بہتر بنا لے تو عمران خان سمیت کوئی ان کو روک نہیں سکتا باقی رہ گئی وفاقی حکومت تو وہ نواز شریف کی بجائے جو بھی آجائے وہ ان صوبائی حکومتوں کی ترقی میں کوئی رکاوٹ نہیں بن سکتا ۔ ہم لاکھ اختلاف کریں مگر ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ نواز شریف اس وقت سیاسی لوگوں میں قد آور ترین شخصیت ہیں۔ ان کی شخصیت کا اتنا فائدہ اس پورے نظام اور ان صوبائی حکومتوں کو ہے کہ وہ پاکستان کے تمام دوستوں کو پاکستان کی ترقی کیلئے نہ صرف یکجا کر چکے ہیں بلکہ اس کا عملی سبوت مل رہا ہے ترکی کسی اور کی حکومت میں بسیں چلانے یہاں ہرگز نہ آتا چائنا 35 ارب ڈالر کا سرمایہ کسی نو آزمود کی جھولی میں نہ ڈالتا اور تو اور مشکل تریں حالات میں سعودی حکومت کی امداد کو ہم شک کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے ہم یہ بھول گئے کہ ہم نے تو عافیہ صدیقی کے بھی پیسے لئے ہوئے ہیں اور وہ اس دور میں جب ہمارے بقول ہم بہت جلد ترقی کر رہے تھے ہمارے زر مبادلہ کے زخائر بہت زیادہ تھے۔ یہ نظام اگر چلتا رہتا تو قوم اگلے انتخابات میں یکسو ہو کر یہ فیصلہ کر لیتی کہ کون ہمیں ترقی دے سکتا ہے اگر عمران خان خیبر پختونخواہ کو ترقی دیتے تو پنجابی انہیں اپنا قائد بنا لیتے سندھی اپنا رہبر تسلیم کر لیتے بلوچی اپنی محرومیوں کے مداوے کیلئے انہیں چیخ چیخ کر بلا لیتے ۔ اب موجودہ حالات پر بات کرتے ہیں ایک طرف ہماری فوج امن کیلئے اپنے خون سے تاریخ رقم کر رہی ہے دوسری طرف موجودہ حکومت خود اور پاکستان کے تمام دوستوں اور خیر خاہوں کے ساتھ مل کر اپنی کوشش ضرور کر رہی ہے۔ اب اگر کوئی اس عمل میں رکاوٹ بنتا ہے تو قوم اسے کبی معاف نہیں کرے گی خاص طور پر جب فلسطین سلگ رہا ہے دشمنان اسلام اور دشمنان پاکستان کھل کر اپنے پتے کھیل رہے ہیں اگر نواز شریف چلے بھی جاتے ہیں تو کیا آپ کے پاس کوئی لائحہ عمل ہے جس سے کل آپ ملک میں ترقی لے آئیں گے۔ اگر ہے تو وہ گر ایک دفعہ کے پی کے پر آزما کر دیکھ لیتے جلو جوتھائی پاکستان تو ترقی کر جاتا اور اس ترقی کو دیکھ کر باقی پاکستان آپ کی راہوں میں اپنی پلکیں فراش کر دیتا۔ لیکن اگر آپ کے پاس چراغ ہے تو اس کو جلا کر لوگوں کو خود سے اپنے پاس جمع ہونے دیں اگر ایسا نہیں ہے تو جب کل آپ آئیں گے اور کچھ نہیں کر پائیں گے تو کیا عوام آپ کے خلاف نہیں نکلیں گے موجودہ حکومت والے لوگ لوگوں کو آپ کے خلاف نہیں نکالیں گے اور اگر آپا سب کچھ ٹھیک کرتے ہیں تب بھی کوئی گارنٹی نہیں کہ یہ لوگ آپ کو سکون سے کام کرنے دیں گے ۔ پھر آپ ملک کو کیسے ترقی کی راہ پر گامزن کریں گے۔اس لئے دانشمندی یہی ہے کہ اس نظام کو چلنے دیں آپ اپنی حکومت کے علاقے کو اپنے خوابوں کا عملی جامہ پہنائیں اسے ترقی کی ان منزلوں پر لے جائیں جن کا میری قوم ہر صبح نو کو خواب لے کر بیدار ہوئی ہے اگر آپ یہ کام کر گئے تو آپ مارچ کر نہیں قوم مارچ کر کے اپکو پا لے گی۔

ملک کو اس وقت نواز شریف کے سیاسی قد کی بھی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی آپ کے جوش اور جنون کی ہے یہ دونوں مل کر پاکستان کو بہت آگے بھی لے جا سکتے ہیں اور اس نازک موڑ پر زرا سی بھی غلطی ہوئی تو حالات کوئی بھی قابو نہیں کر سکے گا جتنے لوگ آج آپ لے کر نکل سکتے ہیں اتنے لوگ کل یہ بھی لے کر نکلیں گے اور اگر آپ کے بقول یہ بادشاہ ہیں تو پھر انکی وفادار رعایا آپکے تماشبین نوجوانوں سے بہت زیادہ اور مظبوط ہو گی ۔ ملک ایک تماشا بن کر رہ جائے گا اور یہ بماشا ہمیں ایٹمی پاکستان نہیں رہنے دے گا ۔ دنیا پہلے ہی ہمیں ایٹمی ملک ہونے کے جواز پر شک کی نگاہ سے دیکھتی ہے اور اگر کل کو اقوام عالم ملک کر اس کی ایٹمی صلاحیت سلب کرنے کا جواز اسی تماشے سے نکالتی ہیں تو یہ کس کی جیت ہو گی اور اس صورت میں سلامتی کی ضمانت کون دے گا۔ اور اگر ملک کی سلامتی کو خدا نہ کرے کوئی خطرہ لاحق ہو گا تو آپ کس ملک کی کرسی پر بیٹھیں گے۔ طاہرالقادری صاحب سے گزارش ہے کہ نظام کو تبدیل کرنے کا دوسرا طریقہ اختیار کریں اپنے کارکنوں کو گلی گلی تعلیم کے فروغ کیلئے شعور اور آگہی کیلئے پھیلا دیں ان حالات میں شارٹ کٹ کی انتہائی عادی یہ قوم انکو شارٹ کٹ کی اجازت نہیں دے گی ۔ دھرنے سے آپ اپنے چاہنے والوں کی تعداد کم کر سکتے ہیں بڑھانے کیلئے آپکو بھر بھی آگاہی مہم چلانی ہو گی ورنہ آپ کے ساتھ لوگ وقتی ہمدردی کرنے آئیں گے اور اپنا فائدہ حاصل ہونے کے بعد آپکو بھول جائیں گے۔ آپ اگر نظام تبدیل کرنا چاہتے ہیں تو جماعت اسلامی کے پاس آپ جیسی متحرک اور رہنما شخصیت نہ ہونے کے باوجود وہ ملک کا ایک انتہائی اہم سیاسی ستون ہے۔ اس کی بنیادی وجہ لوگوں سے ان کا رابطہ اور کردار ہے۔ فوری طور پر اگر آپ کرسی کی بجائے غزہ والوں کی مشکلات پر بات کرتے ان کو آپ جیسے مزہبی لیڈر کی فلوقت بہت ضرورت ہے ہم پاکستانی کسی نہ کسی طرح گزارہ کر لیں گے لیکن اگر آپ غزہ والوں کیلئے بولتے تو غزہ والوں کو آپ سے اور پاکستان میں ملمانیت کی ہمدردی کا آپکو فائدہ ہوتا۔
ghulam mustafa
About the Author: ghulam mustafa Read More Articles by ghulam mustafa: 7 Articles with 7109 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.