ببلو بٹ

ببلو کی سالگرہ تھی،ببلو ہمارے ماموں جان کا لونڈا،ماموں کا ایک ہی لونڈا ہے ببلو،ماموں جان ایک موٹی سی عینک لگاتے ہیں جسکے بعد انہیں دنیا بھر میں تین شعبہ ہائے سے تعلق رکھنے والے افراد ہی کامیاب دکھائی دیتے ہیں باقی سب بکواس، ڈاکٹر،انجینئر اور پروفیسر، اگر آپ ان میں سے ایک بھی ہیں تو آپکی چاندنی ہوگئی ورنہ سنگین نتائج بھگتنے کیلئے تیار رہیں!

ببلو کو ڈاکٹر بنانے کیلئے ماموں نے بچپن سے ہی سر توڑ کوششیں شروع کردیں،بادام،پستے،دودھ اعلی خوراک کے علاوہ نہ گھر میں کیبل نہ کوئی اور تفریح، ہمارے ببلو نے بھی خوب محنت کی اور اچھے نتائج کے ساتھ میٹرک میں پہنچ گیا۔

آج ببلو کی سالگرہ تھی،ہم ماموں کے گھر میں داخل ہوئے، یا خدایا آج کے دن یہاں اتنی گرمی کیوں ہے؟ خاموشی کیوں گونج رہی ہے؟ سب کے چہرے لٹکے ہیں گویا قتل ہوگیا ہو! ارے کیا ہوا ہے کوئی کچھ بولے گا؟ اور ببلو کیوں روئے جارہاہے؟

نانی اماں آپ ہی کچھ بتائیں آخر ہوا کیا ہے؟ بیٹا ببلو کو پھینٹی پڑی ہے۔۔۔ ہیں آج کے دن مگر کیوں؟ بس یہ کہنا تھا کہ ماموں برس پڑے اور ہم تو کوئی ڈاکٹر بھی نہ تھے جو ہم پر رحم آتا! اس حرام خور کو کھلا پلا کر اتنا بڑا کیا،پڑھایا،لکھایا،اسکی خواہشات پوری کیں،اسے خوشیاں دیں یہ کمبخت میٹرک میں کیا آگیا اب ہم سے کمپیوٹر کی فرمائش کرتا ہے۔

اب اسے فلمیں دیکھنی ہیں،گیم کھیلنے ہیں،لڑکیوں سے عشق لڑانا ہے، ڈاکٹر کیا اسکا باپ بنے گا؟ اس دن کیلئے اتنی محنت کی تھی اس پر، آج کمپیوٹر مانگتا ہے کل کو انٹرنیٹ مانگے گا،پھر اسکوٹر اور پھر گاڑی!
ماموں آپ نے اس لئے ببلو پر ہاتھ اٹھایا؟ ارے ہاتھ کیا اٹھایا باپ ہوں چاہوں تو ہاتھ کاٹ دوں۔

ببلو کو تو ہمیشہ کی طرح ہم نے اسکے پسندیدہ نمک پارے اور بوندی کے لڈو کھلا کر پھر سے نارمل کردیا ماموں کو بھی ممانی نے سنبھال لیا جوں توں کرکے دن گزر گیا۔ لیکن ہماری فرکی میں یہ بات پھنس گئی!

اب آپ ہماری ترقی اور روشن خیالی کا معیار دیکھیں ہمارا بچہ اگر چودھویں صدی میں کمپیوٹر مانگ لے تو ہمیں وہ آوارہ اور ناکام محسوس ہوتا ہے، ہمارا ببلو اگر اپنی مرضی سے کوئی مضمون چن لے تو وہ نافرمان ٹہرا دیا جاتا ہے،ببلو اگر تھوڑے سے بھی نمبر کم لے تو زندگی ختم ہونے کا فتویٰ لگا دیا جاتا ہے،

ہم ہمارے ببلؤں کو ساری زندگی دبا کر ڈرا کر رکھتے ہیں انکو اپنی مرضی سے زندگی گزارنے کی بلکل بھی اجازت نہیں ہوتی جسکے نتیجے میں انکی تخلیقی صلاحیات تو ختم ہوتی ہی ہیں یہی ببلو’’LUMBSُُُُ‘‘ جیسی اعلی درسگاہوں میں خودکشیاں بھی کرتے ہیں، کامیاب ہونے کے باوجود زندگی بھر اسکا مقصد بھی تلاش کرتے رہتے ہیں اور انکی روح تک کو چین نصیب نہیں ہوتا!

آپ ہمارے ملک کی کسی بھی معروف یونیورسٹی میں چلے جائیں،طلبہ سے کامیابی،زندگی،گولز وغیرہ کی تعریف پوچھلیں یہ منہ کھول کر آپکو گھورنے لگیں گے۔

اب ہوتا کیا ہے؟ببلو نے زندگی بھر اپنا دماغ استعمال ہی نہیں کیا ہوتا اسکی اپنی خواہشات اپنے جذبات اپنے احساسات دوسروں کے تابع ہوتے ہیں کوئی خواب دیکھے نہیں ہوتے نام کو زندہ ہوتا ہے جونہی ببلو کوئی ڈگری لیتا ہے گھر والے شادی کردیتے ہیں اور یوں آنے والی اسکی اور اسکے خاندان کی ملازم ہوجاتی ہے ،یا تو وہ لڑکی زندہ نہیں رہتی اگر رہتی ہے تو وہ بھی ببلی ہوجاتے ہے ،ببلو اور ببلی ملکر ہمارے معاشرے کو مزید ببلؤں سے بھر دیتے ہیں۔

برائے کرم ہمیں ببلو نہیں انسان بنائیں کہ یہی انسان ہمارا آنے والا مستقبل ہیں۔

M.Mohsin shahbaz
About the Author: M.Mohsin shahbaz Read More Articles by M.Mohsin shahbaz: 5 Articles with 3764 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.