عمران خان کا آزادی مارچ

ملک کے سیاسی مو سم میں کافی گرمی ریکارڈ ہو رہی ہے ‘ سیاسی درجہ حرارت بڑ ھنے سے ملک بھر میں ا فو اہوں کا بازار بھی گرم ہے ۔ جوں جوں 14 اگست 2014کا دن قر یب آرہا ہے تو سیاسی درجہ حرارت اور افوا ہوں میں بھی اضا فہ ہو رہا ہے ۔ سیاسی ملاقاتوں ‘ بحث و مباحثوں کا سلسلہ بھی جاری ہے ۔کچھ سیاسی جماعتیں عمران خان اور طاہرالقادری کے ساتھ گفت شنید کر رہی ہے تو بعض جماعتیں حکومت کے ساتھ معاملات طے کر رہی ہے جبکہ تادم تحر یر پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی نے واضح مو قف اختیار نہیں کیا ہے کہ حکومت کے ساتھ ہو نا ہے یا عمران خان کے آزادی مارچ میں شامل ہو نا ہے ۔بد لتے ہو ئے سیاسی حالات میں مختلف افواہیں اور پروپیگنڈے جنم لے رہے ہیں جس کی وجہ سے بھی سیاسی معاملات میں کافی گر می محسوس کی جارہی ہے مثلاً اب نادیدہ قو توں کی جانب سے ما ئنس ون فارمولا پیش کیاجا رہا ہے کہ وزیر اعظم پا کستان جناب نواز شریف صا حب گھر چلے جائے اوران کی جگہ وزیر داخلہ چوہدری نثار کو وزیراعظم بنایا جا ئے گا ۔ اس سلسلے میں تحر یک انصاف کے چیئر مین عمران خان کا مطالبہ بھی سامنے آیا ہے کہ وزیر اعظم استعفٰی دیں جبکہ یہ مطالبہ دوسری سیاسی جماعتوں کی طرف سے بھی آئے گا۔ اسی طرح یہ خبر بھی گرداش میں ہے کہ مو جودہ حالات سے فوج فا ئد ہ اٹھا سکتی ہے اور ملک میں ایک دفعہ پھر فوجی حکومت آجائے گی ‘وجہ یہ پیش کی جارہی ہے کہ عوام سابق زرداری حکومت سے انتہائی تنگ تھی اور امید یہ تھی کہ نئی آنے والی حکومت عوام کے مسائل حل کر لے گی ‘ بجلی و گیس لوڈشیڈ نگ، بڑ ھتی ہو ئی مہنگائی اور بے روزگاری کا مسئلہ حل کر یں گی اورملک میں جاری بد امنی سمیت علاج معالجے کی سہولت ‘ ادویات کی قیمتوں میں کمی کے علاوہ تعلیمی بجٹ میں اضافہ اور عوام کو مفت تعلیم د ینے کا اعلان کیا جائے گالیکن بد قسمتی سے نئی آنے والی حکومت نے عوام کے مسائل حل کر نے کی بجائے اس میں د و گنا اضا فہ کر دیاجس کی وجہ سے ملک میں سیاسی عدم استحکام پیدا ہوااور اب عام آدمی کا پا کستان میں موجودہ جمہوری سسٹم سے اعتبار اٹھ گیا ہے لہذا اس ملک میں فوجی حکومت ہی بہتر ہے ۔ عوام کو اس حکومت سے چھٹکارے کے لیے فوج جو پہلے سے اسلام آباد ، لا ہور،کر اچی ، پشاور اور بلوچستان میں موجودہے ملک میں عدم استحکام کی بنا پر ملکی کے حالات اورمعاملات کو کنٹرول کر لے گی ۔ ایک تیسر ا حل بھی تجو یز کیا جا رہا ہے کہ ملک میں ایک دو سال کے لیے غیر جانبدار حکومت قائم کی جائے جو تمام معاملا ت اور تحفظات کو حل کر کے نیا الیکشن کر ائیں‘ جس میں آنے والے دنوں میں وزن بھی پیدا کیا جا ئے گا ۔آج یہ تمام با تیں اورافو اہیں ملکی کی سیاست میں گردش کر رہی ہے لیکن مکمل تصویر چودہ اگست کو کلیئر ہو گی کہ ملک کا مستقبل کیا ہوگا اور کیا ہو نا چا ہیے ۔یہاں پر سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی وہ بیان اہمیت کا حامل ہے کہ حکومتیں مارچوں سے ختم نہیں ہو تی بلکہ حکومتی فیصلے حکومتوں کو ختم کر تی ہے ۔الیکشن کو ایک سال سے زائد کا عرصہ گزر گیا کہ عمران خان حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ چار حلقوں میں ری چکینگ اور الیکشن میں دھاندلی کے الزامات کے بارے میں تحقیقات کی جائے لیکن حکومت ٹا ل مٹول سے کام لے رہی ہے ۔ ایک سال پہلے وزیر داخلہ چوہدری نثار نے پارلیمنٹ میں عمران خان کے اس مطالبے پر کہا تھا کہ ہم چار کی بجائے چالیس حلقوں میں تحقیقات کر یں گے لیکن سال گز ر گیا اور اب تک ایک حلقے میں بھی تحقیقات نہیں ہوئی بلکہ ان چار حلقوں میں سٹے آرڈر لیے گئے ہیں جبکہ اب اس سلسلے میں کمیٹی بنا دی گئی جو تین سال تک تحقیقات کر یں گی اور اس کے بعد د ھا ندلی کی رپورٹ پیش کر یں گی کہ ان ان حلقوں میں دھاندلی ہو ئی ہے ۔ حکومتی پالیسی کود یکھتے ہو ئے محسوس ہوتا ہے کہ حکومت خود ہی اپنی پیروں پر کلہاڑی مار رہی ہے ۔ عمران خان کے مطا لبات آئین و قانون کے عین مطابق ہے اور ایک سال سے وہ مسلسل یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ الیکشن میں کی کئی دھاندلی کی تحقیقا ت ہو نی چاہئے جس پر کوئی توجہ نہیں دی گئی اور اب نو ریٹرن والا معاملہ آگیا ہے‘ پہلے وہ چار حلقوں کی بات کر رہے تھے اور اب وہ پور ے الیکشن کی بات کر رہے ہیں۔

اب جبکہ عمران خان نے چودہ اگست کو آزادی مارچ کا اعلان کیا ہے تو حکومت نے ان کو اجازت دینے اور سیاسی طر یقے سے نمٹنے کی بجائے اسلام آباد میں فوج بلانے کا فیصلہ کیا اور اب ان کے کار کنوں کو گر فتار کر نے اور ان کو نظر بند کر نے کی پلاننگ کر رہی ہے ۔ و فاقی حکومت نے اپنے فیصلوں سے ایک احتجاجی مارچ کو واقعی آزادی مارچ میں تبد یل کر دیا ہے۔اطلاعات کے مطابق تحر یک انصاف کے پنچاب میں مختلف ونگز کے صدور کو پکڑنے کا ٹاسک پنچاب پولیس کو دے دیا کیا ہے جبکہ گز شتہ د نوں پارٹی کے صدر جادید ہاشمی کو بھی سیالکوٹ ائر پورٹ پر اتر نے کی اجازت نہیں دی گئی اور سیالکوٹ جانے والے مسافر وں بھی ان کے ساتھ خوار ہوتے رہیں اور اسی طرح علامہ طاہر القادری کے کارکنوں کی بھی پکڑ دھکڑ جاری ہے جس کی وجہ سے حالات خراب ہو رہے ہیں۔ مو جود و اقعات سے معلوم ہو تا ہے کہ نواز شریف حکومت دباؤ میں آگئی ہے اور ان کے اپنے لوگ ان سے غلط فیصلے کرارہے ہیں ۔ اس سے پہلے طاہر القادری والے معاملے میں بھی حکو مت نے جمہوری طر یقہ نہیں آپنایا بلکہ ڈکٹیٹر شپ والے فیصلے جمہوری حکومت میں ہو ر ہے ہیں جس پر سابق صد رآصف علی زرداری نے وزیر اعظم نواز شریف کو کہا تھا کہ اب کو عوام نے منتخب کیا ہے آپ ملک کے وزیر اعظم بنے بادشاہ نہ بنے لیکن بد قسمتی سے اب تک کی حکومتی فیصلوں سے یہی محسوس ہو رہا ہے کہ ملک میں جمہوریت نہیں بلکہ باد شاہت قائم ہے ۔ مو جودہ سیاسی بحران میں حکومتی پالیسیوں اور وزرا کے تند و تیز بیانات سے سیاسی درجہ حرارت کم کر نے کی بجائے اس میں اضافہ کر رہی ہے ‘جو حکومت کے لیے مشکلا ت کا سبب بنے گی۔

اب بھی وقت ہے کہ تحر یک انصاف کو پر امن جلسے کی اجازت دی جائے اور ان کے مطالبے پر چا ر حلقوں میں دو بارہ ضمنی الیکشن کا اعلان کیا جائے تاکہ ملک میں مو جودہ جمہوری حکومت بھی چلتی رہے اور سسٹم بھی ڈی ریل نہ ہو پائے۔ملک اور جمہوری نظام کی بہتر ی اسی میں ہے کہ سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کرمو جود نواز شریف حکومت کو وقت دینا چا ہئے ۔ مڈٹرم الیکشن خود عمران خان کے جماعت کے لیے بھی صحیح نہیں ہے ۔ یہاں یہ سوال بھی پیدا ہو تا ہے کہ آیا ایک سال کے عر صے میں عمران خان کی حکومت نے خیبر پختونخوا میں کو نسے کار نامے کیے ہیں کہ جب مڈ ٹر م الیکشن ہوں گے تو عوام عمران خان کو ووٹ دینگے۔صو بائی حکو متی کار کر دگی خیبر پختونخوا میں یہ ہے کہ نہ پو لیس کا نظام بد لا ہے اور نہ ہی لو گوں کو مفت صحت اور تعلیم دی جا رہی ہے ۔ عمران خان آزادی مارچ ، حکومت سے مطالبات اور مڈٹرم کی بات ضرور کر یں لیکن خیبر پختو نخوا حکومت کی کار کردگی کو بھی مد نظر رکھیں۔
Haq Nawaz Jillani
About the Author: Haq Nawaz Jillani Read More Articles by Haq Nawaz Jillani: 268 Articles with 203109 views I am a Journalist, writer, broadcaster,alsoWrite a book.
Kia Pakistan dot Jia ka . Great game k pase parda haqeaq. Available all major book shop.
.. View More