اطالوی کوہ پیماؤں کی پاکستانی پورٹر کے ساتھ دغا بازی

وادی ہُنزہ میں شاہراہ قراقرم پر پہاڑوں کے بیچ حسن آباد نامی ایک چھوٹا سا گاؤں ہے۔ کسی زمانے میں یہاں اپنے دور کے ایک بڑے کوہ پیما رہتے تھے۔ نام ان کا امیر مہدی تھا۔ اور کام اُن کا بھاری بھرکم سامان اُٹھائے اونچے اونچے پہاڑوں پر چڑھنا۔

امیر مہدی تھے تو پہاڑوں کے قُلی لیکن انہیں کے ٹو کی چوٹی پر پاکستانی پرچم لہرانے کی خواہش رہی۔ انھوں نے سنہ 1954 میں اطالوی کوہ پیماؤں کے مشن میں اُن کا بھرپور ساتھ دیا۔ اور ایک مرحلے پر اپنی جان تک کی بازی لگا دی لیکن اس تاریخی مشن میں کے ٹو کے برفیلے پہاڑوں پر مہدی کے ساتھ دغا ہوا۔
 

image


امیر مہدی کے ساتھ ہونے والے دھوکے کی یہ داستان بی بی سی نے شائع کی ہے جو ہماری ویب کے قارئین کے لیے بھی آج کے آرٹیکل میں شائع کی جارہی ہے تاکہ آپ بھی جان سکیں ماضی کے ایک گمنام ہیرو کے بارے میں-

چوٹی سر کی دو اطالوی کوہ پیماؤں کمپیونی اور لِینو لاچادیلی نے اور دنیا میں نام ہوا اُن کا لیکن اس میں مہدی کا کردار کسی کو یاد نہ رہا کہ جس کے بغیر شاید وہ مشن کامیاب ہی نہ ہو پاتا۔

امیر مہدی کی کہانی کی کھوج میں کچھ سرکردہ پاکستانی کوہ پیماؤں سے جب تحقیق کار کی بات ہوئی تو اسے جلد ہی احساس ہوگیا کہ ان کے بارے میں آج کل لوگ زیادہ کچھ نہیں جانتے۔ وہ گزرے کل کا بندہ تھا جسے سب نے بھلا دیا۔ وہ تو بھلا ہو کریم آباد کے پروفیسر شیر علی کا جو امید کی کرن ثابت ہوئے اور انھوں نے حسن آباد میں امیر مہدی کے صاحبزادے سلطان علی سے تحقیق کار کا رابطہ کرا دیا۔

سلطان علی اپنے گاؤں میں نمبردار صاحب کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ ریاست ہُنزہ کے زمانے کا یہ عہدہ پہلے اُن کے والد کے پاس تھا اور بعد میں اُن کے حصے میں آیا۔

وہ بتاتے ہیں ’میرے والد کے۔ٹو کی چوٹی پر اپنے ملک کا پرچم لہرانا چاہتے تھے، مگر اُس مشن پر اُن کے ساتھ زیادتی ہوئی اور وہ بڑی مصیبت کا شکار ہوئے۔‘

کے۔ٹو کے اس مشن سے ایک سال پہلے امیر مہدی نانگا پربت سر کرنے والی آسٹرین ٹیم کے ہمراہ اپنی ہمت اور بہادری کے جوہر دکھا چکے تھے۔

اگلے برس اٹلی کی کوہ پیما ٹیم نے ریاست ہنزہ کے حکمران میر جمال خان سے رابطہ کر کے کے ٹو کے مشن کے لیے اُن سے اُن کے مضبوط ترین بندے مانگے۔

سلطان علی بتاتے ہیں: ’اُس وقت شاہی دربار سے میں کئی سو امیدواروں کے ہجوم میں سے جن مقامی کوہ پیماؤں کو اس کام کے لیے نامزد کیا گیا اُن میں امیر مہدی کا نام سرِفہرست تھا۔‘
 

image

بس پِھر کیا تھا۔ اطالوی کوہ پیماؤں کے مشن میں مہدی نے اُن کا بھرپور ساتھ دیا۔ ان کوہ پیماؤں نے بعد میں خود لکھا کہ اُس سفر میں اُن کا سامان اٹھانے والے کئی سو پاکستانی قلی تھے، لیکن مہدی کی بات اور تھی۔ وہ سب سے زیادہ بہادر، محنتی اور قابلِ اعتبار سمجھے جانے والے مقامی کوہ پیماؤں میں سے ایک تھے۔

کے ٹو پر کیا ہوا؟
ہوا یوں کہ چوٹی سر کرنے سے ایک دن پہلے امیر مہدی اور ابھرتے ہوئے کوہ پیما والٹر بوناتی سے کہا گیا کہ وہ چوٹی کے قریب موجود دو ساتھوں کے لیے نیچے سے آکسیجن سلنڈر لے کر آٹھ ہزار میٹر کی بلندی پر پہنچیں۔

سلطان علی بتاتے ہیں: ’اکثر مقامی مزدوروں نے انکار کر دیا تھا۔ لیکن میرے والد نے اس لیے حامی بھر لی کیونکہ ریاست ہنزہ کی عزت کا سوال تھا اور انہیں چوٹی سر کرنے کا موقع مل رہا تھا۔

لیکن شام گئے جب مہدی اپنے ساتھی بوناتی کے ہمراہ بلندی پر موجود طے شدہ مقام پر پہنچے تو وہاں انہیں کوئی پڑاؤ نظر نہیں آیا۔ ان دونوں نے اپنے ساتھیوں کمپیونی اور لاچادیلی کو بہت آوازیں دیں لیکن برفیلی ٹھنڈ اور بڑھتے اندھیرے میں انہیں کہیں دور سے صرف یہ آواز آئی کہ ’آکسیجن سلنڈر یہیں رکھو اور واپس نیچے چلے جاؤ۔‘ اور پھر ان کا ایک دوسرے سے رابطہ منقطع ہو گیا۔

اُس وقت تک رات ہو چکی تھی، مہدی اور بوناتی تھکن سے چور تھے اور ایسے حالات میں اُن کے لیے واپس اترنا ممکن نہ تھا۔

مجبوری میں دونوں کو وہ رات بغیر کسی خیمے کے، برف کی سل پر منفی 50 ڈگری سینٹی گریڈ کی ٹھنڈ میں گزارنی پڑی۔

سلطان علی اپنے والد کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ وہ لوگ تو موت کے لیے تیار تھے لیکن ان کی قسمت اچھی تھی کہ بعد میں وہ اس صورتحال سے زندہ بچ نکلے۔

یہ بات کئی دہائیوں بعد ثابت ہوئی کہ اوپر چوٹی کے قریب موجود دو اطالوی کوہ پیماؤں نے جان بوجھ کر اپنا خیمہ طے شدہ جگہ سے بدل کر اور اوپر ایسی مشکل جگہ پر لگا دیا تھا جہاں نیچے سے آنے والے اُن کے دو ساتھی نہ پہنچ سکیں۔ مقصد تھا بونُاتی اور مہدی کو چوٹی سر کرنے سے دور رکھنا تا کہ چار نہیں بلکہ صرف وہ دو ہی یہ تاریخی اعزاز حاصل کر سکیں۔ کمپیونی کو خاص کر کے یہ خدشہ تھا کہ اگر بُوناتی کو چوٹی سر کرنے کا موقع ملتا تو وہ نسبتاً کم عمر اور بہتر صحت کی وجہ سے اُن سے پہلے میدان مار لیں گے۔

اگلی صبح سورج کی پہلی کرن نکلتے ہی مہدی اور بوناتی نے آکسیجن سلنڈر وہیں چھوڑے اور نیچے کا سفر شروع کیا۔

جبکہ دوسری طرف کمپیونی اور لاچادیلی اپنے خیموں سے باہر آئے، انھوں نے پیچھے چھوڑے گئے آکسیجن سلنڈر اٹھائے اور اُن ہی سلنڈروں کی مدد سے کچھ گھنٹوں بعد چوٹی سر کر ڈالی۔

کے ٹو کے بعد
نئی تاریخ رقم ہو گئی۔ کمپیونی اور لاچادیلی اِٹلی کے لیے یہ اعزاز حاصل کر کے قومی ہیرو قرار پائے۔ لیکن بوناتی اور مہدی کے ساتھ انھوں نے جو سلوک کیا اسے سرکاری سطح پر دبا دیا گیا۔
 

image

کے ٹو کے اس کامیاب مشن کا سب سے زیادہ نقصان مہدی کو اٹھانا پڑا۔

اطالوی کوہ پیما خود تو پوری تیاری اور ضروری ساز و سامان کے ساتھ اوپر گئے تھے۔ لیکن مہدی کے پاس بلند برفانی پہاڑ پر چلنے کے لیے مناسب جوتے تک نہیں تھے۔

برفیلی چٹان پر کھلے آسمان تلے رات گزارنے کے باعث مہدی کے ہاتھ اور پاؤں بری طرح متاثر ہوئے۔ جب تک وہ چل کر واپس بیس کیمپ پہنچے، ان کے پیر جواب دے چکے تھے۔

امیر مہدی کو سٹریچر پر اٹھا کر کئی دن کے پیدل سفر کے بعد پہلے سکردو ہسپتال لایا گیا۔ بعد میں انہیں سی ایم ایچ راولپنڈی منتقل کیا گیا۔

تب تک خاصا نقصان ہو چکا تھا۔ مہدی کے پاؤں کی انگلیاں گل سڑ چکی تھیں اور گینگرین مزید پھیلنے کا خدشہ تھا۔ ایسے میں ڈاکٹروں کے پاس اور کوئی چارہ نہ تھا اور ان کے پیروں کی تمام انگلیاں کاٹ دی گئیں۔

آٹھ ماہ کے علاج کے بعد جب مہدی واپس اپنے گاؤں ہنزہ پہنچے تو انھوں نے اپنی پہاڑی کدال کو ایک طرف پھینک دیا اور گھر والوں سے کہا کہ اسے دوبارہ کبھی نہیں دیکھنا چاہتے۔

ان کے صاحبزادے سلطان علی کہتے ہیں: ’وہ کوہ پیما تھے اور یہ کھدال انہیں اُس تکلیف دہ رات کی یاد دلاتی جب وہ موت کے منہ سے بچ نکلے۔‘

ان کے ساتھی اطالوی واپس اٹلی گئے، انھوں نے کوہ پیمائی کے شعبے میں نام کمایا، کتابیں لکھی، پیسہ بنایا۔ لیکن مہدی پھر کبھی پہاڑ پر نہیں چڑھنے کے قابل نہ رہے۔

کے ٹو پر مہدی کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ اٹلی اور پاکستان کی حکومتوں دونوں کے لیے باعث شرمندگی تھا۔ پاکستانی ذرائع ابلاغ نے معاملے پر برہمی کا اظہار کیا اور اٹلی کے کوہ پیماؤں کو مہدی کی مصیبتوں کا ذمہ دار قرار دیا۔ تاہم دونوں حکومتوں نے اس تنازع پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی۔
 

image

امیر مہدی کا درد
امیر مہدی نے اپنی زندگی کے اگلے 50 سال مجبوری کی حالت میں گزارے۔

ابتدا میں وہ چلنے پھرنے اور محنت مزدوری سے قاصر رہے اور انہیں معاشی تنگی کا سامنا رہا۔ بعد میں انھوں نے آہستہ آہستہ دوبارہ چلنا سیکھ لیا۔

اٹلی کی حکومت کی جانب سے انہیں سرٹفکیٹ ارسال کیے گئے جن کے مطابق انہیں اعزازات سے نوازا گیا۔

گاہے بگا ہے انھیں خط اور کتابیں بھی ملتی رہیں لیکن وہ نہ تو انھیں پڑھ سکتے تھے اور نہ ہی ان سے ان کے معاشی مسائل آسان ہوئے۔

سلطان علی کے مطابق، کبھی کبھار ایسے غیر ملکی کوہ پیما ان سے ملنے آتے تھے جنھوں نے مہدی کی بہادری کے قصے سن رکھے تھے۔

’اُن سے بات کرتے ہوئے اکثر ان کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے تھے، وہ انھیں بتاتے کہ انھوں نے اپنے ملک کی عزت کے لیے اپنی جان خطرے میں ڈالی لیکن ان کے ساتھ انصاف نہیں ہوا۔‘

اٹلی میں سرکاری سطح پر ایک لمبے عرصے تک کے۔ٹو کی اصل حقیقت کی پردہ پوشی کی جاتی رہی۔ بالآخر سنہ 2004 میں لاچادیلی کی یاداشتوں پر مبنی ایک کتاب سامنے آئی جس میں انھوں نے اصل واقعات کا اقرار کیا۔ تب جا کر سنہ 2007 میں اٹلی نے سرکاری طور پر یہ مانا کہ کے۔ٹو میں ان کے کوہ پیماؤں کی کامیابی شاید مہدی اور بوناتی کی قربانیوں کے بغیر ممکن نہ ہوتی۔

لیکن تب تک کافی دیر ہو چکی تھی، کیونکہ امیر مہدی اپنا درد اپنے دل میں لیے چھیاسی برس کی عمر میں سنہ 1999 میں اس دنیا سے رخصت ہو چکے تھے۔

پاکستان کے لیے جو اعزاز امیر مہدی حاصل کرنا چاہتے تھے وہ اطالوی مشن کے کوئی 23 برس بعد، ہنزہ سے ہی تعلق رکھنے والے ایک اور کوہ پیما کے حصے میں آیا اور1977 میں اشرف امان وہ پہلے پاکستانی بنے جنہوں نے کے ٹو کو سر کیا۔
YOU MAY ALSO LIKE:

Amir Mehdi wanted to be the first Pakistani to scale the country's highest peak, K2, and as one of the strongest climbers in the first team to conquer the summit, 60 years ago, he nearly did. Instead he was betrayed by his Italian companions, left to spend a night on the ice without shelter, and was lucky to survive.