عید الفطر

’’عید ‘‘کا لفظ عود سے ماخوذ ہے جس کے لغوی معنی باربار آنا،مسلمانوں کے جشن کاروزاور نہایت خوشی کے ہیں اﷲ بزرگ وبرترکی حکمت دیکھئے پہلے شعبان پھر رمضان اور پھر شوال کا مہینہ آتا ہے سبھی خوشیوں ،مسرتوں، رحمتوں بھرے مہینے ہیں شعبان میں شب برات اور رمضان میں شب قدربڑی فضیلت اور رحمتوں والی راتیں ہیں عید الفطر شوال کی یکم تاریح کو ہوتی ہے اس عید کو چھوٹی عید اور میٹھی عید بھی کہا جاتا ہے اور اس روز دنیا بھر کے مسلمان انتہائی جوش وخروش سے عید کی خوشیوں میں مشغول ہوتے ہیں حضور نبی کریم ﷺنے پہلی مرتبہ 2 ہجری میں عید الفطر کی نماز ادا کی، یہ نماز دو رکعت نفل سنت موکدہ ہے عیدالفطر کی نماز سے پہلے فطرانہ دینا نہایت ضروری ہے

سیدنا ابوسعیدخدری رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے عہد میں عیدالفطر کے دن ایک صاع کھانا (محتاجوں کو) دیا کرتے تھے اور ہمارا کھانا ‘‘ جو، خشک انگور، پنیر اور کھجور’’ تھا۔(مختصر صحیح بخاری حدیث نمبر : 767)۔

صدقہ فطر، آزاد اور غلام دونوں پر واجب قرار دیا گیا ہے

سیدنا عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ صدقہ فطر، ایک صاع کھجوریں یا ایک صاع جو، نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ہر مسلمان مرد، عورت اور آزاد اور غلام سب پر فرض کر دیا ہے۔(مختصر صحیح بخاریحدیث نمبر : 768)۔

جس طرح عیدالفطر کی نماز سے پہلے فطرانہ ادا کرنا ضروری ہے اسی طرح نماز عید سے قبل کچھ کھا کر جانا بھی ضروری ہے
سیدنا انس رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں کہ
’’ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم عیدالفطر کے روز دن چڑھنے دیتے تھے یہاں تک کہ چند کھجوریں کھا لیتے (یعنی نمازعید سے پہلے)۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم طاق کھجوریں کھاتے تھے‘‘۔(مختصر صحیح بخاری حدیث نمبر : 528)۔“

حضرت انس رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے
’’ عید الفطر کے دن جب تک نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم چند کھجوریں نہ کھا لیتے عید گاہ تشریف نہ لے جاتے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم طاق کھجوریں تناول کرنا پسند کرتے تھے ‘‘

حضور نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا
’’ جب عید الفطر کی رات آتی ہے تو فرشتے آپس میں خوشی کا اظہار کرتے ہیں اور اﷲ تعالی اپنے خاص انواروتجلیات کا ظہور فرما کر فرشتوں سے پوچھتا ہے فرشتو!اب اس مزدور کا کیا بدلہ ہے جس نے پورا پورا کام کیا فرشتے عرض کرتے ہیں اے اﷲ اس کو پورا پورا ثواب دیا جانا چاہئے ،اس پر اﷲ تعالی ارشاد فرماتا ہے تم گواہ بن جاؤمیں نے ان سب کو بخش دیا جن لوگوں نے رمضان کا احترام کیا دن کو روزے رکھے اور رات کو قیام کیا ‘‘

حضرت وہب روایت کرتے ہیں کہ۔
’’ہر عید کے روز ابلیس (شیطان) چیخ چیخ کر روتا ہے تو دوسرے شیاطین اس کے گرد اکٹھے ہو کر پوچھتے ہیں اے ہمارے آقا کیوں روتے ہو تو وہ کہتا ہے اس روز حضرت محمدﷺ کی امت کو اﷲ تعالی معاف کر دیتا ہے لہذا اب تم پر لازم ہے کہ انہیں شہوات و لذات میں ڈال کر غافل کر دو‘‘
حضرت انس رضی اﷲ عنہا سے ایک اور جگہ روایت ہے
آقا جی محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
’’ رمضان المبارک میں جن لوگوں نے روزے رکھے ہوتے ہیں انہیں اﷲ تعالی تمام نعمتیں بخشتا ہے اور پوراپورا اجر دیتا ہے اور عیدالفطر کے دن صبح کے وقت اﷲ تعالی فرشتوں کو حکم دیتا ہے کہ تم زمین پر جاؤ فرشتے حکم کی بجا آوری لاتے ہوئے زمین پہ اترتے ہیں اور راستوں پر عام مجمعوں ،چراہوں اور بازاروں میں بڑی اونچی آواز سے پکارتے ہیں کہ اس کو تمام مخلوق سوائے جن اورانسان کے سن لیتی ہے اور کہتے ہیں اے محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی امت تم اپنے پروردگار کی طرف نکلو کہ وہ تمہاری کم قیمت متاع کے عوض میں تمیں بہت بڑی عطا فرمانے کو ہے اور کبیرہ گناہوں کو بخشنے والا ہے پس جب آدمی نماز کے لئے نکلتے ہیں اور نماز پڑھنے کے بعد دعا کرتے ہیں تو اس وقت رب کائنات اپنے بندوں کی تمام حاجات اور مرادیں پوری کرتا ہے جو سوال کرتے ہیں وہ قبول ہوجاتا ہے کوئی گناہ باقی نہیں رہتا سب گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں اور وہ بخشے ہوئے لوٹ جاتے ہیں ‘‘ (حوالہ غنیتہ الطالبین)۔

حضرت وہب بن عنہ کہتے ہیں کہ
’’اﷲ تعالی نے جنت کو عید الفطر کے روز پیدا کیا اور طوبی کا درخت بھی عید ہی کے روز بہشت میں لگایاگیا حضرت جبرائیل علیہ السلام کو بھی عید کے دن وحی پہنچانے کے لئے منتخب کیا گیا‘‘

حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ اپنے دور خلافت میں عید کے دن اپنے گھر تشریف فرماتھے کچھ صحابہ کرام رضی اﷲ عنہ آپ ؓ کو عید کی مبارک باد دینے کے لئے گھر آگئے تو دیکھا حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ زار و قطار رو رہے تھے توصحابہ کرام رضی اﷲ عنہ نے آپ ؓ سے رونے کی وجہ دریافت کی تو آپ ؓ نے یوں جواب دیا
ــ’’آج کا روزعید بھی ہے وعید بھی آج جس کے روزے اور نمازیں قبول و منظور کر لی گئیں اس کے لئے تو عید ہے جبکہ میں اس لئے رو رہا ہوں کیا خبر میرے روزے اور نمازیں منظور ہوئیں یا نامنظور‘‘
حضرت ابو سعید خدری فرماتے ہیں کہ
’’ عیدالفطر کے دن روزہ نہ رکھو بلکہ خوب کھاؤ پیو‘‘
عیدسعید کے روز اپنی خوشیوں اور مسرتوں میں اپنے عزیز و اقارب کے ساتھ ساتھ غریب اور مستحق لوگوں کو بھی شامل کریں انہیں بھی تحائف دیں ان کی ضرورتوں کا بھی خیال رکھیں انہیں بھی گلے لگائیں شاعر نے کیا خوب کہا ہے
عید کا دن ہے گلے ہم کو لگا کر ملئے
رسم دنیا بھی ہے موقع بھی ہے دستور بھی ہے

مشاہدے کی بات ہے انسان کے حالات بدلتے وقت نہیں لگتا جو امیر ہوتے ہیں وہ انہیں غریبی کی پستی میں دیکھا گیا اور جودو وقت میں روٹی کے ایک نوالے کو ترستے ہیں انہیں بام ثریا پہ چمکتا بھی دیکھا گیا ہے حالات کبھی بھی ایک جیسے نہیں رہتے عزت اور ذلت اﷲ تعالی کے ہاتھ ہے مادہ پرستی اور نفسانفسی کے اس دور میں اپنے لئے تو ہر شخص جی رہا ہے بلکہ اپنی بساط سے بڑھ کر اپنے لئے جینے کا سامان پیدا کئے ہوئے ہے لیکن جن کے پاس اپنے من کی پیاس بجھانے کے لئے روٹی اور تن ڈھانپنے کے لئے کپڑا نہیں ہے انہیں بھی اپنی خوشیوں میں برابر کا شریک بنا کر رب کائنات کے حضور سرخرو ہونا چاہئے۔
Dr. B.A Khurram
About the Author: Dr. B.A Khurram Read More Articles by Dr. B.A Khurram: 606 Articles with 469920 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.