رمضان شریف

ریاضت، جفاکشی اور ضبطِ نفس کا مہینہ، تہذیب الاخلاق کا مہینہ رمضان۔ پتّہ پانی کر دینے والی گرمی، عام حالات میں بھی نڈھال کر دینے والی گرمی، روزے داروں کے ایمان اور استقامت کا امتحان لیتی ہے۔ سخت امتحان، کڑی آزمائش۔ ہزاروں لاکھوں کڑوروں آدمی روزہ رکھتے ہیں۔ کھانے کا سامان ہوتے ہوے دن بھر بھوکے رہتے ہیں،حلق میں پیاس سے کانٹے پڑ جائیں لیکن پانی کا نام بھی نہ لیتے ہیں۔ یہ مہینہ آزمائش کا مہینہ ہے، روح کی تربیت کا مہینہ ہے۔ روزے ہمیں بتاتے ہیں کہ نفس کو کس طرح مارا جاتا ہے، خواہشوں کو کیسے دبا دیا جاتا ہے، اپنے اوپر قابو کیوں کر پایا جاتا ہے۔ جذبات، خواہشات، بھوک اور پیاس کی رَو میں بہ جانے کے بجائے ان کو کس طرح قابوکیا جائے۔ یہ تربیت ہمیں ہر سال رمضان شریف کی بدولت ملتی ہے۔ غور کیجیے تو انسان اور حیوان میں بڑا فرق یہ ہے کہ حیوان اپنے اوپر روک نہیں لگا سکتا، انسان لگا سکتا ہے۔ جو اپنی روک تھام کر سکے، جو غصہ، لالچ اور اشتہا پر قابو با سکے۔ مرد وہی ہے جو بغیر کسی غرض کے صعوبت اور تکلیف برداشت کر سکے عالی ظرف وہی ہے۔ غرض کے لئے تکلیف اُٹھانے والے ہر گلی کوچے میں مل جائیں گے۔ بات تو جب ہے کہ اپنے پروردگارکی رضا کے لئے جان بوجھ کر تکلیفیں جھیلی جائیں۔

روزے کی حیثیت ان غریبوں سے پوچھیے جو دن بھر لو‘ اور دھوپ میں محنت کرتے ہیں، حال یہ ہے کہ پسینہ بہہ رہا ہے، قدم لڑکھڑا رہے ہیں، کلیجہ منہ کو آ رہا ہے۔ قرائن یہ کہ اب لو‘ لگی، اب نڈھال ہو کر گرے، لیکن وہ سارے خطرات سے بے نیاز ہو کر اپنے رب کی رضا جوئی کے لئے کھانے اور پینے کو اپنے اوپر حرام کئے ہوئے ہیں۔

اس جگر سوز ریاضت کا تقاضہ یہ ہے کہ رمضان کے دوران رات کو عمل دن کے بر عکس نہ ہو۔ دن تو دن، راتیں بھی اس طرح گزریں کہ ضبطِ نفس اور تہذیبِ اخلاق کے نقوش گہرے ہوتے چلے جائیں۔ روزہ کھولنے کے بعد بھی اس ریاضت اور نفس کشی کے آثار اور انداز باقی رہیں جو صبح سے شام تک رفیقِ راہ بنی رہی۔ روزہ کے بعد بھی کھانے میں احتیاط اور اختصار سے کام لیا جائے اور خیال اور زبان کی پاکیزگی اور اطوار کی متانت جو روزے کی دیں ہیں۔ افطار کے بعد روزہ دار کو چھوڑ کر الگ نہ ہو جائیں کہ یہ ریاضت یہ مجاہدہ، یہ تربیت، یہ نصاب پندرہ گھنٹے کا نہیں متواتر تیس دن کا ہے۔

روزہ صرف شکم کا روزہ نہیں ہے۔ رو زہ فِکر، نظر، جذبہ، احساس اور زبان کا روزہ ہے، یہ بات سمجھ میں آنے کی نہیں کہ اﷲتعالیٰ کے لئے روزہ رکھا جائے اور اس کی مخلوق کو بھلا دیا جائے۔ اﷲ کی خوشنودی حاصل کرنی ہے تو اس کی مخلوق کے ساتھ احسان کرنا ہوگا۔ نفس مارنے کے معنیٰ یہ ہیں کہ لاکھ جی چاہے، لاکھ اشتعال ہو، ترغیب ہو کوئی بات ایسی نہ سوچیں، نہ کہیں، نہ کریں جس سے دوسرے انسانوں کو تکلیف یا جراحت پہنچے یا روزے کی پاکیزگی پر آنچ آئے یا ضبط نفس کا سلسلہ درہم برہم ہو جائے۔ رمضان روح کی پاکیزگی اور اخلاق کی تہذیب کا وہ نصاب ہے جو ہر سال دہرایا جاتا ہے، تاکہ آئندہ گیارہ ماہ تک انسان اپنے افکار اور اقوال و اعمال کو اسی کے مطابق ڈھالتا رہے۔ عید رمضان کے اتمام کے لئے آتی ہے اور اس سبق کے استمرار کے لئے جو رمضان کی ریاضت اور روحانی ورزش اور اخلاقی پامردی نے ہمیں سِکھایا ہے۔
رمضان خیر و برکت کا مہینہ ہے۔ یہ خیر و برکت عام اور لامحدود ہونا چاہئے۔روزہ شخصیت کو توانا کرنے، قوّتِ ارادی کو مضبوط کرنے، بے غرضی اور بے نفسی سیکھنے، زکوٰۃ دینے، خیرات کرنے، ہوس پر غالب آنے، خلق خدا کی خدمت کرنے کے لئے رکھا جاتا ہے۔

اﷲ تعالیٰ کو صوم و صلوٰۃ اور اوراد وظائف اور عبادات کی احتیاج نہیں۔ قربانی کا گوشت اور خون اس کو نہیں پہنچتا۔ وہ بے نیاز ہے، ہر ضرورت اور حاجت سے بالاتر۔ اس نے اپنے بندوں پر جو روزے، نماز فرض کئے وہ اس خیال سے نہیں کہ عیازٌاباﷲاس طرح اس کی بڑائی اور طاقت اور جاہ و جلال میں کوئی اضافہ ہوگا، یا اسے اپنے بندوں کو محوِ صوم و سجود پاکر کسی طرح کا اطمینان ہوگا۔ ظاہر ہے کہ اس کا مقصد عبادت و ریاضت سے صرف یہ ہے کہ عبادت کرنے والے نفسِ امّارہ کو زیر، نگیں کر سکیں، غصّہ، لالچ، ہوس اور ظلم اور جہالت سے چھٹکارہ پائیں، بہتر انسان بنیں، دوسرے انسانوں کے لئے ایک قابلِ تقلید مثال پیش کر سکیں، اور عام انسانیت کے لئے برکت اور رحمت بن جائیں۔ وہ اپنے کردار سے دوسرے انسانوں کو سیدھے راستے پر چلنے کی ترغیب دے سکیں۔ انھیں دیکھ کر لوگ شگفتگی اور انشراح محسوس کریں، وحشت اور کدورت نہیں۔ ان کی مثال دوسروں کو بھلائی کی طرف لیجائے۔

غور کیجئے، اگر روزہ رکھنے کے بعد ہم نے فرضِ منصبی میں کوتاہی کی، یا بات بات پر غصہ کیا تو کیا اﷲ تعالیٰ کو یہ بات ناگوار نہ ہوگی کہ اس کی عبادت کے بہانے ہم اس کی مخلوق کو ستا رہے ہیں؟ عبادت کا جو مقصد تھا، ہمارہ فعل اس کے بر عکس ہے۔ کیا ہم اﷲکی عبادت کو اپنے کم ظرفی اور بے صبری کی وجہ سے بدنام کریں گے؟

شاعر نے کہا ہے:
دل بدست آور کہ حجّ اکبر است
از ہزاراں کعبہ یک دل بہتر است

شاعر کا مفہوم وہی ہے جسے مندرجہ بالہ سطور میں پھیلا کر بیان کیا گیا ہے۔ دل ہاتھ میں لو کہ یہ حجِّ اکبر ہے۔ ایک دل جیت لینا ہزار کعبوں سے بہتر ہے کیوں کہ قیام و صیام، قعود و سجود، طواف و سعی کا مدّعا، دل میں نرمی، خشوع، رافت، گدازاور خیر خواہی پیدا کرنا ہے۔ تاکہ ان کا فائدہ دوسرے انسانوں تک پہنچے۔ جو لوگ روزے کو معدے سے آگے نہیں بڑھنے دیتے اور افطار کے بعد ضبط اور احتیاط اور اعتدال کو بالائے طاق رکھ دیتے ہیں، ان کا روزہ ایسے جسد کی طرح ہے جس کے روح سلب کر لی گئی ہو۔ ان کا روزہ جگنو کی روشنی کی مانند ہے جو جلتی بجھتی رہتی ہے، ٹمٹماتی رہتی ہے۔ ان کا روزہ آفتابِ عالمتاب کی طرح نہیں جو سارے جہاں کو روشن کر دیتا ہے۔

روزہ رکھنا ایک فرضِ منصبی کو بھول جانا روزے کے متعلق بدگمانیاں پیدا کرتا ہے۔ بلکہ روزہ کو جراحت پہنچاتا ہے۔ روزہ رکھنا اور غصّہ کرنا یا خیالات و جذبات اور وسوسوں کو بے مہار چھوڑ دینا یا ہمسایوں کی نیند حرام کرنا، رحمت کو زحمت میں بدل ڈالنا ہے۔ خیر کوشرمیں تبدیل کرنا ہے۔ گویا ثواب کی جگہ عذاب کمانا ہے۔ ہماری عبادت اﷲ کے لئے ہے اس لئے اس کا فائدہ براہِ راست اﷲ کی مخلوق کو پہنچانا چاہئے۔
Saiyid Hamid
About the Author: Saiyid Hamid Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.