ہم کیوں دست نگر ہیں……؟

ملک میں مخدوش سیکورٹی حالات درپیش ہیں ،جہاں غریب کا کوئی پرسان حال نہیں،وہاں امیر کو زیادہ جان ومال کی فکر ہے۔ عوام کی جان ومال کی حفاظت ریاستی ذمہ داری ہے۔ اس غرض سے مختلف فورسز وجود میں لائی جاتیں ہیں، جن کے فرائض میں ملک اور عوام کی سالمیت کی حفاظت کرنا ہے۔ عوامی حفاظت کے لئے پولیس فورس ہر اوّل دستے کا کام سرانجام دیتی ہے لیکن ہماری پولیس فورس 66 سال کے بعد بھی اپنے آپ کو بہتر نہیں بنا سکی۔ اس میں سارا قصور پولیس کا نہیں بلکہ وسائل کی کمی، ناقص حکمت عملی ، جدید پیشہ وارنہ تربیت نہ ہونے کے ساتھ سیاسی شخصیات کا ان کو ذاتی مفادات کے لئے استعمال کرنا ہے۔ انہی وجوہات کی وجہ سے پولیس کی کارکردگی غیر تسلی بخش ہے۔ ملک میں بڑھتی ہوئی آبادی کے تناسب سے پولیس اہلکاروں کی شرح تعداد کم ہے۔ یہ مسئلہ نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کے تقریباً تمام ممالک کا ہے ،مگر ترقی یافتہ ممالک میں انتظامیہ کے بوجھ کو کم کرنے کے لئے نجی سیکورٹیاداروں کا وجود عمل میں لایا گیا اور چند سیکورٹی فرائض انہیں سونپ دیئے ہیں۔

ملک میں ابھرتے ہوئے سیکورٹی چیلنجز میں نجی سیکورٹی ایجینسیاں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے بوجھ کو نہ صرف کم کرنے کا اہم کردار ادا کرتیں ہے بلکہ کم تعلیم یافتہ افراد کے لئے روزگار بھی مہیا کرتیں ہیں۔ ایک سیکورٹی گارڈ تقریبا 10 سے 15 ہزار ماہانہ میں خدمات دیتا ہے جبکہ حکومت کو ایک پولیس اہلکار تقریباً 50,000 روپے ماہانہ میں پڑتاہے۔ اس کے علاوہ ریٹائر منٹ کے بینیفیٹ علیحدہ ہیں۔ سلامتی ایک قیمتی چیز ہے اس کے لئے نجی سیکورٹی ایجنسیاں موثر سستا متبادل ہیں۔

برطانیہ، امریکہ، آسٹریلیا، متحدہ عرب امارات ودیگر ترقی یافتہ ممالک میں اخراجات کو کم کرنے کے لئے نجی سیکورٹی اہلکاروں کی خدمات لی جاتیں ہیں۔ اس طرح حکومت کے سرکاری دفاتر بنانے، سیکورٹی،اسلحہ اور دوسرے اخراجات بچ جاتے ہیں اور خاص طور پر پولیس اہلکار کسی مؤثر کام کی جانب اپنی پوری توجہ مرکوز رکھ سکتے ہیں۔

ہمارے ہاں نقل کا بہت رواج ہے اور نقل، عقل سے ہوتی ہے۔ ہم نے ترقی یافتہ ممالک کو دیکھ کر نجی سیکورٹی ایجنسیاں بنالیں مگر ان کے لئے کوئی طریقہ وضع نہیں کیا۔ کسی بھی ریٹائرڈ فوجی،پولیس آفیسر کو سیکورٹی ایجنسی کاسرٹیفکیٹ دے دیا جاتا ہے۔ وہ اسے مختلف شہروں میں دوسرے لوگوں کو بیچ دیتا ہے۔ انہیں بڑی مقدار میں اسلحہ لائسنس جاری کردیئے جاتے ہیں اور یہ سیکورٹی گارڈ بھرتی کرنا شروع کردیئے ہیں،قطع نظر کہ اس کی اہلیت اور پس منظر کیا ہے۔ اس کے کردار کے بارے میں کوئی جانچ پڑتال نہیں کی جاتی۔ یہاں تک کہ اس کے صحت کی بھی درست معلومات نہیں لی جاتی۔ اسی وجہ سے بھتہ خور، جرائم پیشہ،قاتل،بنک ڈکیتی جیسے گھناؤنے جرائم میں ملوث لوگ سیکورٹی گارڈ کے طور پر اپنی پوزیش کا استعمال کرکے جرائم کرتے ہیں۔ دہشتگردکئی نجی سیکورٹی ایجنسیوں کے گارڈز بن کر پناہ لئے ہوئے گرفتار ہوئے ہیں۔

نجی سیکورٹی ایجنسیوں کے لئے ایک آزاد ریگولیٹری اتھارٹی کے قیام کی اشد ضرورت ہے۔ جس میں معیار،شفافیت اور احتساب کو یقینی بنایا جائے۔ سابقہ فوجی اور پولیس افسران سرٹیفکیٹ حاصل کرکے چند سکوں کے لئے ملک سلامتی داؤ پر لگا دیتے ہیں۔ بھارت میں حکومت نے نجی سیکورٹی کمپنیوں کا ویب پورٹل کوگارڈز کے اعداد و شمار فراہم کرنے کے لئے بنایا ہے۔ ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے ان کے مجرمانہ ریکارڈ کی تصدیق،ملک بھر آن لائن بھرتی کے معیار کو بہتر بنایا ہے اور ہر ممکن نگرانی کی کوشش کی گئی ہے تاکہ کرپشن نہ ہو سکے۔

ایک سیکورٹی گارڈ کو بھرتی کرتے ہوئے قابلیت،اہلیت اور مناسب تربیت کا سرٹیفکیٹ بہت ضروری ہے۔ اس کی صحت کے متعلق معلومات ہونا چاہیے اور خاص طور پر آتشی ہتھیار کا استعمال آنا ضروری ہے۔ کسی بھی ناگہانی واقعہ کو روکنے یا جواب کا اہل ہونے کی باقاعدہ تربیت ضروری ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں شاید ہی کوئی نجی سیکورٹی ایجنسی ہو، جس میں بمشکل چند گارڈز سلامتی کی بنیادی باتیں جانتے ہیں۔ تمام ایجنسیاں نئے گارڈ کو دو دن کی تربیت اور بعضبغیر تربیت کے محافظ بناکر فرائض کے لئے تیار کردیتیہے۔ جو کہ انتہائی خطرناک امر ہے۔

نجی سیکورٹی کمپنیوں کو اپنے معیار کی بھرتی اور تربیت کو بہتر بنانا چاہے۔ گارڈز کی تنخواہوں اور ان کی فلاح وبہبود کو یقینی بنایا جائے۔ کام کے ماحول،صحت اور انشورنش سے ان کی حوصلہ افزائی کرنا ضروری ہے۔ حکومت کو نجی سیکورٹی ایجنسیوں کی خستہ صورتحال کے پش نظر جلد کوئی باقاعدہ جامعہ عملی قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔قوانین بننے چاہیے اور ان کی نگرانی اشد ضروری ہے۔ چند ایک کوبلیک لسٹ کرنے سے معاملہ درست نہیں ہوگا۔ یہی نجی سیکورٹی ایجنسیاں جرائم کے گڑھ ہیں۔ اپنے ملازمین ’’گارڈز‘‘ پر ظلم وزیادتی کے کئی واقعات ہیں۔ یہ مختلف جرائم میں ملوث ہیں۔ ان کے اندر سے بھتہ خور ماسٹر مائنڈ‘قاتل،ڈکیٹ بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ مختلف اوقات میں واقعات سامنے آتے رہتے ہیں۔ جس کی وجہ سے چند ایک ایجنسیوں کو بلیک لسٹ کیا گیا، لیکن ابھی بہت سی ایجنسیاں مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔

ہم ہمیشہ سے دیر سے سوچنے کے عادی ہیں۔ جب سر سے پانی گزر جاتا ہے،پھر کونے ڈھونڈتے ہیں۔ ہم وہ کام کیوں نہیں کرپاتے، جو دوسرے پہلے کرجاتے ہیں۔ ایک اچھے کام میں غلط پہلو کیوں نکال لیتے ہیں؟ ہمیں اپنی سوچ کو قومی اور عوامی بنانا ہو گا۔ ہمارے پاس جس قسم کی افرادی قوت اور ذہانت موجود ہے۔ دنیا کے کم ہی ممالک کو حاصل ہے، پھر ہم کیوں دست نگر ہیں؟منفی خیالات اور رجحانات کے اس اندھیرے میں ایسے بے غرض لوگوں کی ضرورت ہے ،جو ایسی شمع کی مانند ہوں جو خود تو جلتی رہتی ہے لیکن اندھیروں میں سفر کرنے والے لوگوں کے تاریک راستے منور کر دیتی ہے۔نا مساعد حالات میں غیر مقبول مشن کے لئے لڑتے رہنا ہی انسانیت کا اصل امتحان ہے۔
Irfan Mustafa Sehrai
About the Author: Irfan Mustafa Sehrai Read More Articles by Irfan Mustafa Sehrai: 153 Articles with 94241 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.